محبِ وطن

پانچویں جماعت میں پہلی دفعہ میں نے ''محب وطن‘‘ کا لفظ پڑھا اور سُنا۔ ماسٹر نذیر صاحب نے بتایا کہ اس کا مطلب ہوتا ہے‘ اپنے ملک کا وفادار‘ اپنے ملک سے محبت کرنے والا۔ بڑا فخر محسوس ہوا‘ میں نے گردن اکڑا کر کہنا شروع کر دیا کہ میں محب وطن ہوں۔ چار دن تک میری یہ گردان جاری رہی تو کلاس میں موجود ایک خوفناک شکل والے لمبے تڑنگے لڑکے نے ایک دن مجھے گردن سے دبوچ لیا۔ غرّا کر بولا ''محب وطن تم نہیں میں ہوں‘‘۔ میں نے گھگھیا کر اُس سے معافی مانگی اور اگلے روز ماسٹر نذیر صاحب سے پوچھا ''اُستاد جی! محب وطن دو نہیں ہو سکتے؟‘‘۔ ماسٹر صاحب ہنس پڑے اور بڑے پیار سے بولے ''محب وطن کوئی عہدہ نہیں‘ یہ ایک کیفیت ہے اور جو بھی اپنے ملک سے پیار کرتا ہے‘ وہ محب وطن کہلانے کا حق دار ہے‘‘۔ سارا دن میں یہی سوچتا رہا کہ اگر کوئی بھی محبت وطن ہو سکتا ہے تو لمبا لڑکا مجھے یہ حق دینے کے لیے کیوں نہیں تیار؟ مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ اگلے دن میں نے ایک نیا طریقہ سوچا‘ کلاس کے کچھ لڑکوں کو پٹی پڑھائی کہ چلو مل کے گاتے ہیں ''ہم محب وطن ہیں... ہم محب وطن ہیں‘‘۔ شروع شروع میں چھ سات لڑکے گانا شروع ہوئے اور پھر '' لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘۔ مجھے یقین تھا کہ اب لمبے لڑکے کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ کیونکہ اب پوری کلاس محب وطن گا رہی تھی‘ تاہم اُس پر الٹا اثر ہوا۔ ایک دم سے غصے میں آ گیا‘ پوری قوت سے چلایا ''خاموش‘‘۔ سارے بچوں کی آوازیں حلق میں ہی پھنس گئیں۔ لمبا لڑکا پھنکارا اور سب سے آگے بیٹھے لڑکے سے پوچھا ''کس نے شروع کیا یہ گانا؟‘‘۔ اس کم بخت نے انگلی سیدھا میری طرف اٹھا دی۔ لمبے لڑکے نے دانت پیستے ہوئے میری طرف گھورا۔ میں نے اُس سے خوفزدہ ہونے یا ڈرنے کی بجائے بہادری کا مظاہرہ کیا اور چھلانگ لگا کر دوڑ گیا۔ اس کے بعد میں چار دن تک گھر سے سکول کے لیے نکلتا تو تھا‘ لیکن سارا دن سپورٹس گرائونڈ ملتان میں بیٹھا رہتا اور چھٹی کے وقت گھر چلا جاتا۔ کلاس میں جانے کی میری ہمت نہیں تھی۔ اس لمبے لڑکے کا نام پتا نہیں کیا تھا لیکن سب اسے 'سینڈو‘ کہتے تھے۔ انتہائی عجیب چیز تھا‘ کبھی کلاس کے بچوں سے پیسے چھین لیتا‘ کبھی ان کی روٹی کھا جاتا اور کبھی اُنہیں کہتا کہ میری تختی دھو کر لائو۔ آج کے دور میں آپ اسے ڈورے مان کارٹون والا ''جیان‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ کلاس کا ہر بچہ اس کی حتی المقدور خدمت کرتا۔ اس کے باوجود یہ کبھی کسی سے راضی نہ ہوتا۔ اس کی دہشت سے تنگ آ کر چھ سات بچے اس کے ہمنوا بن گئے اور اس کے ہر عمل پر داد دینے لگے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 'سینڈو‘ نے اُن پر نظر کرم کرنا شروع کر دی اور یہ لڑکے نہ صرف سینڈو کی دُرگت سے بچ گئے بلکہ سینڈو جو پیسے کلاس کے بچوں سے چھینتا‘ ان میں سے تھوڑے بہت اِن بچوں کو بھی بطور انعام دے دیا کرتا تھا۔ سینڈو کسی اور کے محب وطن کہلانے کو اپنے لیے گالی سمجھتا تھا۔ اس نے مار مار کر پوری کلاس کو باور کرا دیا تھا کہ محب وطن کا لفظ صرف اُس کے لیے بنا ہے۔ کبھی کبھار تو مجھے شک ہونے لگتا کہ ہو سکتا ہے‘ سینڈو کا اصل نام ہی 'محب وطن ‘ ہو۔ چھوٹی عمر میں وطن سے محبت بڑی مختلف ہوتی ہے‘ 14 اگست پر جھنڈیاں لگانے کو دل چاہتا ہے‘ ملی نغمے گنگنانے کو دل چاہتا ہے‘ قومی ترانہ پورا یاد ہوتا ہے تاہم اِس سینڈو نے مجھ سے میری محبت چھیننے کی کوشش کی تھی۔ 
ایک دن سکول میں کوئی فنکشن تھا‘ ہم سب بچے دریوں پر بیٹھے تھے‘ مختلف مہمانان خصوصی تقاریر کر رہے تھے جن کا کوئی ایک لفظ بھی ہمارے پلے نہیں پڑ رہا تھا۔ اچانک ایک صاحب تقریر کرتے ہوئے بولے ''پیارے بچو! آپ میں سے کون کون محب وطن ہے؟‘‘۔ میں نے پُرجوش انداز میں ہاتھ اٹھا دیا۔ تھوڑا سا گردن گھما کر دیکھا تو ہماری ساری کلاس کے ہاتھ کھڑے تھے لیکن پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ سب کے ہاتھ سلوموشن میں نیچے ہو گئے۔ تقریر کرنے والے صاحب نے حیرانی سے پوچھا ''صرف دو بچے محب وطن ہیں؟‘‘۔ میں نے چونک کر دائیں طرف دیکھا تو سینڈو کا لمبا سا ہاتھ بھی فضا میں بلند تھا۔ اُس نے ہاتھ مسلسل بلند کیے رکھا اور کھڑا ہو کر بولا ''جی سر! میں اکیلا محب وطن ہوں‘‘۔ میں تڑپ اٹھا اور جلدی سے کھڑا ہو گیا ''میں بھی محب وطن ہوں سر...‘‘ یہ سنتے ہی سینڈو پر وحشت سوار ہو گئی۔ اس نے اپنی جوتی اتاری اور وہیں سے کھینچ کر سیدھی میری کھوپڑی پر دے ماری۔ نشانہ اچھا تھا‘ جوتی اُڑتی ہوئی میرے سر میں لگی اور میں انتہائی متانت سے بیہوش ہو گیا۔ بعد میں کلاس کے لڑکوں نے بتایا کہ ایک ہڑبونگ مچ گئی تھی‘ اور سینڈو وہاں سے بھاگ گیا تھا...!!!
میٹرک تک پہنچتے پہنچے سینڈو مزید طاقتور اور خونخوار ہو گیا تھا۔ کلاس کے ٹیچر بھی اُس کے ڈیل ڈول سے ڈرتے تھے۔ چار لڑکے اگر کہیں اُس پر تنقید کر رہے ہوتے تو آواز دھیمی کر لیتے مبادا سینڈو سن ہی نہ لے۔ سینڈو کے حمایتی بھی کچھ بڑھ گئے تھے اور اب کلاس میں سینڈو کا راج تھا۔ فارغ وقت میں سینڈو کے حمایتی ہمیں سمجھاتے کہ سینڈو کی مار کھائو گے تو کسی اور کی مار سے بچ جائو گے‘ لہٰذا سینڈو جو کہے مان لیا کرو۔ یہ بات واقعی سچ تھی کیونکہ اکثر جب کسی اور کلاس کے سوکھے پتلے لڑکوں سے ہمارا جھگڑا ہو جاتا تو سینڈو فوراً ہماری مدد کو آن موجود ہوتا۔ ہماری کلاس سے تین کمرے آگے بھی ایک کلاس ہوتی تھی‘ جس میں سینڈو سے تین گنا طاقتور ''ٹرپل سینڈو‘‘ پڑھتا تھا۔ یہ سکول کا واحد لڑکا تھا جس سے ہمارے والا سینڈو ڈرتا تھا۔ ٹرپل سینڈو کئی دفعہ ہماری کلاس میں گھس کر کسی بچے کی پھیتی پھیتی کر جاتا‘ ہم اپنے سینڈو کو پکارتے رہ جاتے لیکن سینڈو صاحب اپنے حمایتیوں کے ساتھ منہ سر لپیٹ کر کہیں گم ہو جاتے۔
ہم سب سینڈو کے کلاس فیلو تھے‘ جو کتابیں وہ پڑھتا تھا وہی ہم پڑھتے تھے‘ ہم سب کی خواہش تھی کہ سینڈو ہمارے ساتھ بھی انسانوں والا سلوک کرے‘ ہماری سنے‘ اپنی سنائے‘ ہمارے ساتھ کھیلا کرے‘ ہمیں حقیر سمجھنا چھوڑ دے‘ لیکن میٹرک کے دو سال تک سینڈو نے ہمیں جوتے کی نوک پہ رکھا۔ پھر امتحانات ہو گئے اور سکول کا دور ختم ہو گیا...!!! سینڈو نے اپنا سفر جاری رکھا‘ ایف اے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ دی‘ والد کی وفات کے بعد ان کے گھر کے دو حصے کیے‘ اپنا حصہ وصول کرکے وہاں ڈیرہ بنایا اور محلے کے جرائم پیشہ لوگوں سے تعلقات استوار کر لیے۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ سینڈو کونسلر کے الیکشن کے لیے کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے اسلحے کی نوک پر ووٹ حاصل کیے اور پورے طمطراق سے کونسلر بن گیا۔ کبھی اس کے کسی محلے دار سے ملاقات ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ سینڈو اب دہشت کی علامت بن چکا ہے‘ اس کے علاقے میں کوئی شخص اپنے بچوں کے رشتے بھی اپنی مرضی سے نہیں کر سکتا‘ اس کے لیے بھی سینڈو کی آشیرباد کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسرا سینڈو‘ یعنی ٹرپل سینڈو اب سات سمندر پار جا چکا ہے لیکن جب کبھی پاکستان آتا ہے تو سینڈو کے محلے میں ضرور چکر لگاتا ہے‘ محلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ ٹرپل سینڈو کے سامنے‘ سادہ سینڈو ایسے بیٹھتا ہے جیسے عام دنوں میں محلے کے لوگ اس کے سامنے بیٹھتے ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے سینڈو کا گھر دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہوا‘ میں راستہ پوچھتے ہوئے اس کے گھر پہنچا۔ یہ ایک کنال کا گھر تھا‘ دروازے پر دو مسلح افراد بیٹھے تھے... میں نے گیٹ کی سائیڈ پر نگاہ ڈالی تو وہاں لگی نیم پلیٹ نے مجھے میرا ماضی یاد دلا دیا‘ جلی حروف میں لکھا تھا ''محب وطن‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں