صاحب بہادر کی نگری

سرکاری افسر کی کتاب موصول ہوتی ہے تو فوراً اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاعری یا سفر نامہ ہوگا۔ لیکن ڈاکٹر محمد کلیم کی کتاب مختلف نکلی۔ انہوں نے مزاح پر ہاتھ ڈالا ہے اور اس کے لیے اپنے ہی شعبے یعنی بیوروکریسی کو منتخب کیا ہے۔ اس سے قبل ہمارے جناب حسین شیرازی صاحب اس ضمن میں 'بابو نگر‘ کے نام سے کتاب لکھ چکے ہیں جس کا تیسرا ایڈیشن آ چکا ہے۔ اُن کی کتاب کی ضخامت اتنی زیادہ ہے کہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شیرازی صاحب کی کتاب سے 'آلہء قتل‘ کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر کلیم کی کتاب کا نام ''صاحب بہادر کی نگری‘‘ ہے۔ کلیم صاحب سے چونکہ میری ذاتی ملاقات نہیں لہٰذا اِدھر اُدھر سے معلوم کیا تو پتا چلا کہ ان کے محکمے والے بھی اُنہیں ہر لحاظ سے ''نِیٹ اینڈ کلیم‘‘ مانتے ہیں۔ قبلہ ''کلیم شیو‘‘ ہیں اور بھرپور محنت کر رہے ہیں کہ اپنے لکھے ہوئے جملوں کی بدولت روح فرسا سزا سے لطف اندوز ہو سکیں۔ بیوروکریسی کے متعلق لکھتے ہیں ''کئی افسران تو اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ اِن کے پاس جو ڈرافٹ تصدیق کے لیے آتا ہے اُسی کو دس بارہ مرتبہ درست کرواتے ہیں اور یوں سارا دن ڈرافٹ ڈرافٹ کھیلا جاتا ہے‘‘۔ ان کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے تین چار صفحات کے بعد ہی یقین ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنے جیسے ہی صاحب بہادر لوگوں کے خلاف 'چارج شیٹ‘ پیش کر دی ہے۔ شائد یہ اسی کا ثمر ہے کہ اشاعت سے قبل جب انہوں نے مجھے کتاب بھیجی تو وہ نوشہرہ میں اسسٹنٹ کمشنر تھے‘ کتاب کی اشاعت کے بعد پتا چلا ہے کہ لاہور آ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے قوی اُمید ہے کہ صاحب بہادروں کو جب تک کتاب میں لکھی ہوئی اُردو کی سمجھ آئے گی تب تک کلیم صاحب 'کوٹ ادو‘ سدھار چکے ہوں گے۔ اِن جملوں کے بعد بیوروکریسی میں ان کے خلاف غداری کا سنگین کیس بنتا ہے ''افسران اپنی میز پر قانون کی موٹی موٹی کتابیں سجائے رکھتے ہیں لیکن کبھی کھول کر پڑھتے نہیں‘ مقصد درخواست گزاروں پر رعب ڈالنا ہوتا ہے کہ افسر تمام قانون جانتا ہے‘ اس سے ملازمین اور افسر دونوں کو خوب فائدہ ہوتا ہے‘ افسر سخت کہلاتا ہے اور ملازمین مٹھائی کماتے ہیں‘‘۔
یہ جو سرکاری افسر ہوتے ہیں ان کے اندر اچھا خاصا مزاح بھرا ہوتا ہے لیکن یہ صرف اپنے جیسوں کے سامنے ہی قہقہے لگاتے ہیں‘ غیروں کے سامنے یہ ہمیشہ اپنے اندر کی مسکراہٹ کو لاک رکھتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ مزاح ایک ایسی تلخ سچائی کا نام ہے جس میں آپ کو اپنا آپ بھی بے نقاب کرنا پڑتا ہے‘ یہ نقاب کشائی اِس کتاب میں بھی نظر آئی ‘ فرمایا ''یہ معلوم نہیں کہ ہم لکھاری ہیں یا نہیں لیکن تعریف اور واہ واہ بہت ملتی ہے شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سرکار کی مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ ہیں جو بعض لوگوں کی زندگی میں خوب کام آتا ہے‘‘۔ یہ سو فیصد درست ہے۔ ماضی میں ایک معروف بیوروکریٹ صاحب پر شاعری کا جنون سوار ہو گیا۔ بے وزن لکھتے تھے لیکن بے تحاشا داد پاتے تھے۔ اُن کے حاضرین میں سائلین کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہوتی تھی جنہیں شاعری سے زیادہ صاحب بہادر کی تعریف مقصود ہوتی۔ سو کئی دفعہ تو یوں بھی ہوا کہ موصوف نے سٹیج پر آتے ہی کہا کہ ''پیش خدمت ہے غزل کا مطلع‘‘۔ اور سارا ہال واہ واہ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ مجھے بھی کلیم صاحب سے بہت ضروری کام ہے‘ میں چاہتا ہوں کہ یہ بیوروکریٹ نثری مزاح کی راہ سے ہٹنے نہ پائے‘ یہ مسلسل لکھے‘ لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹے‘ سیاست سے دور رہے اور خوشیاں بانٹنے کا باعث بنے۔ میں نے کلیم صاحب کی کتاب اس لیے بھی پڑھی کہ یہ مزاح پر مبنی ہے۔ مزاح پر مبنی کوئی بھی تحریر میرے لیے لائق احترام ٹھہرتی ہے کہ کم از کم اس میں قاری کی دندیاں نکلوانے کی کوشش تو کی گئی ہوتی ہے۔ خود اِس کتاب کے انتساب میں ڈاکٹر کلیم صاحب نے لکھا ہے کہ ''تمام مزاح نگاروں کے نام جنہوں نے غمزدہ زندگی میں مسکراہٹیں بکھیریں‘‘۔ اب یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنی 'غم زدہ‘ زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے یا سب کی... میرا خیال ہے اپنی طرف ہی ہو گا کیونکہ بیوروکریٹ سے زیادہ تنہا اور غم زدہ کون ہو سکتا ہے۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بیوروکریٹ 'انسان‘ کیوں بن جاتے ہیں۔ میرے محلے میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ رہتے ہیں‘ سروس میں تھے تو فرعون مشہور تھے‘ اپنے آگے اتنا بڑا ٹیبل لگوایا ہوا تھا کہ ملاقاتی کو مصافحے کے لیے بھی رکشہ کروانا پڑتا‘ لیکن آج کل باقاعدگی سے محلے کے بابوں کی میٹنگز میں شریک ہوتے ہیں‘ عاجزی کی تلقین کرتے ہیں اور کوئی سلام لینے کی کوشش کرے تو اُس سے گلے ملتے ہیں۔ اس 'کایا پلٹ‘ کو ایک بیوروکریٹ ہی صحیح انداز میں بیان کر سکتا تھا سو ڈاکٹر کلیم اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ''ریٹائرمنٹ ایک ایسی لعنت ہے جس سے ہر افسر زندگی بھر بچنا چاہتا ہے‘ لیکن اس سے بچنے کے لیے موت کا آنا بہت ضروری ہے‘ زیادہ تر آفیسرز ریٹائرمنٹ کے بعد اُن تمام جونیئر آفیسرز کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرنے لگتے ہیں جنہیں سروس کے دوران سخت سست اور کاہل گردانتے ہیں کیونکہ اب ان کا بیشتر وقت دفتروں کے چکر لگانے اور پنشن کے کاغذات بنوانے میں گزرتا ہے‘‘۔
سرکاری بابوئوں کے ہاں گریڈ کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہاں ہر بندے کا گریڈ ہوتا ہے ‘ جس کا نہیں ہوتا اُس کا بھی 'ڈی گریڈ‘ ہوتا ہے۔ عام آدمی کسی اجنبی سے ملتا ہے تو سلام دُعا کے بعد عموماً پوچھتا ہے کہ آپ کون سے شہر سے ہیں؟ سرکاری افسر جب کسی اجنبی سرکاری افسر سے ملتا ہے تو پہلا تعارف ہی یہی ہوتا ہے ''میں پچیسویں کامن سے ہوں‘‘۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے 'کامن‘ سے اِن کا کیا تعلق۔ ڈاکٹر کلیم کی کتاب کے مطالعے سے ایک اور بات کھل کر سامنے آ گئی کہ بہرحال سرکاری افسر کو بھی اپنی اور محکمے کی کمزوریوں کا پتا ہوتا ہے ‘ یہ الگ بات ہے کہ اپنی 'کمزوری‘ کو ظاہر نہ ہونے دے۔ تاریخ میں بہت سے سرکاری افسروں نے جینوئن شاعر ادیب ہونے کا حق ادا کر دیا۔ بہت سے نام ہیں جن میں سے کچھ مجھے یاد نہیں آ رہے اور کچھ ریٹائر ہو چکے ہیں‘ جنہیں یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملتان کے ایک معروف و مغفور سیاستدان بیوروکریسی سے زیادہ ''اللہ کرے سی‘ پر یقین رکھتے تھے۔ کلیم صاحب نے بھی شائد اسی جذبے کے تحت یہ کتاب لکھی ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ اُن کے کئی سینئرز اسے پڑھ کر ناخوش ہوں گے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے اس طرح منہ پھٹ قسم کا مزاح لکھنے کا مطلب ہے اپنے مائوزر سے آپ خود کشی کرنا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کلیم صاحب نے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو اُن سے گزارش ہے کہ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں اور تولیے سے پونچھ کر ایک دفعہ پھر یہی عمل دہرائیں... اور تب تک دہراتے جائیں جب تک انہیں یقین نہیں ہو جاتا کہ اب وہ سویلین کے قابل نہیں رہے۔ مزاح لکھنے اور پڑھنے والی تمام عظیم ہستیوں کو مبارک کہ اللہ نے کلیم صاحب کی صورت ہماری آبادی میں اضافہ کر دیا ہے۔ کتنا اچھا لگتا ہے ایسی کتابیں پڑھتے ہوئے جن میں کوئی بڑا پن نہیں ہوتا‘ کوئی دعویٰ نہیں ہوتا‘ کوئی ٹینشن نہیں ہوتی‘ کسی کو نیچا دکھانے کا سامان نہیں ہوتا... لبوں پر تیرتا ہوا ایک تبسم ہوتا ہے جسے پڑھتے ہوئے جون کا مہینہ بھی سکون میں بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے...!!!

قوی اُمید ہے کہ صاحب بہادروں کو جب تک کتاب میں لکھی ہوئی اُردو کی سمجھ آئے گی تب تک کلیم صاحب 'کوٹ ادو‘ سدھار چکے ہوں گے۔ اِن جملوں کے بعد بیوروکریسی میں ان کے خلاف غداری کا سنگین کیس بنتا ہے ''افسران اپنی میز پر قانون کی موٹی موٹی کتابیں سجائے رکھتے ہیں لیکن کبھی کھول کر پڑھتے نہیں‘ مقصد درخواست گزاروں پر رعب ڈالنا ہوتا ہے کہ افسر تمام قانون جانتا ہے‘ اس سے ملازمین اور افسر دونوں کو خوب فائدہ ہوتا ہے‘ افسر سخت کہلاتا ہے اور ملازمین مٹھائی کماتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں