امیر باپ‘ غریب بیٹے

حاجی صاحب کو 70 سال کی عمر میں بھی برفی بہت پسند ہے۔ برفی کے معاملے اُن جیسا ''برفی شناس‘‘ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اُنہیں سب پتا ہے کہ بہترین‘ خالص‘ تازہ اور لذیذ برفی کہاں سے ملتی ہے۔ میٹھا میری بھی کمزوری ہے لہٰذا حاجی صاحب جب بھی برفی لاتے ہیں میرے پاس آ جاتے ہیں اور ہم آدھے گھنٹے میں باآسانی ایک کلو برفی کا صفایا کر دیتے ہیں۔ ہماری عمروں میں بہت فرق ہے لیکن چونکہ حاجی صاحب کو پرانی فلمیں اور گانے بہت پسند ہیں‘ اس لیے وہ میرے پاس آ جاتے ہیں اور مجھ سے یو ٹیوب پر پرانی فلموں کے کلپ اور گانے نکلوا کر مزے سے سنتے ہیں‘ اور سر دھنتے جاتے ہیں۔ اب کی بار وہ آئے تو بہت اداس تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو بولے کہ اپنی اولاد کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ میں نے جلدی سے پوچھا ''کیا ہوا؟‘‘۔ گہرا سانس لے کر بولے ''نافرمان نکل آئی ہے‘ بڑا بیٹا صرف بیوی کا ہو کر رہ گیا ہے‘ چھوٹے نے کاروبار شروع کرنا ہے‘ دونوں مکان میں سے اپنا حصہ مانگتے ہیں۔‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ''لیکن حاجی صاحب آپ کے دونوں بیٹے تو دوسرے شہر میں کام کرتے ہیں اور وہیں رہتے ہیں ناں؟‘‘ حاجی صاحب اداس لہجے میں بولے ''ہاں! گھر میں صرف میں اور میری بوڑھی بیوی رہتے ہیں‘ ہم دونوں اکثر بیمار رہتے ہیں‘ لیکن اولاد کو کسی بات کی پروا ہی نہیں۔‘‘ میں نے فوراً پوچھا ''تو آپ دونوں اپنے کسی بیٹے کے پاس کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ حاجی صاحب مزید دکھی ہو گئے‘ بولے ''یہ تو تم نے وہی بات کی ہے جو میرے بیٹے کرتے ہیں‘ بھئی ہم دونوں اُن کے پاس کیوں جائیں‘ اُنہیں چاہیے کہ وہ ہمارے پاس آ جائیں‘ بڑھاپے میں والدین کا سہارا بننا چاہیے۔‘‘ میں ساری بات سمجھ گیا تھا‘ اس لیے کچھ سوچ کر کہا ''حاجی صاحب! آپ کے دونوں بیٹے اگر آپ کے پاس آ کر رہنا شروع کر دیں تو کیا آپ اُن کے اور اُن کے بیوی بچوں کے اخراجات افورڈ کر لیں گے؟‘‘ حاجی صاحب تُنک کر بولے ''میں کیوں برداشت کروں‘ شادی کر دی ہے‘ اب اپنا کمائیں اپنا کھائیں۔‘‘ کچھ دنوں بعد میری حاجی صاحب کے بڑے بیٹے سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ بھائی تم اپنے والدین کے پاس کیوں نہیں رہتے ہو۔ وہ بے بسی سے بولا ''کیسے رہوں‘ میری نوکری دوسرے شہر میں ہے‘ اِس شہر میں بڑی کوشش کی لیکن کوئی نوکری نہیں ملی‘ میں ماں باپ سے دور نہیں رہنا چاہتا‘ اُن کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘ ابا اماں کو بہت سمجھایا کہ آپ لوگ میرے پاس آ جائیں لیکن وہ کہتے ہیں: رہنا ہے تو ہمارے پاس آ جائو‘ ہم تمہارے پاس نہیں آ سکتے‘ اب آپ ہی بتائیں یہاں آ گیا تو کیا نوکری کروں گا؟‘‘ میں نے کچھ دیر اُس کی بات پر غور کیا پھر پوچھا ''اور میں نے سنا ہے تم لوگ اپنے باپ سے مکان بیچنے کی بھی ضد کرتے ہو؟‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا ''ضد نہیں کرتے‘ التجا کرتے ہیں‘ ابا جی کو اللہ نے بہت کچھ دیا ہے‘ ہم دونوں بھائی کرائے کے مکانوں میں دھکے کھا رہے ہیں‘ ساری کمائی کرائے میں نکل جاتی ہے‘ ابا جی گھر نہ بھی بیچیں تو ان کے پاس اتنا پیسہ موجود ہے کہ وہ ہم دونوں بھائیوں کے لیے مستقل رہائش کا بندوبست کر سکتے ہیں‘ لیکن وہ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد تم اپنے بھلے برے کے خود ذمہ دار ہو‘ میں اپنی دولت سے ایک پیسہ بھی تمہیں نہیں دے سکتا۔‘‘ میں نے اگلے روز حاجی صاحب سے پوچھا کہ آپ ماشاء اللہ کھاتے پیتے انسان ہیں‘ آپ کی اپنی چھ دکانیں کرائے پر چڑھی ہوئی ہیں‘ جن کا کرایہ صرف آپ کو آتا ہے‘ آپ اپنی اولاد کی پریشانی کیوں نہیں دور کرتے‘ اتنا پیسہ کس لیے جمع کر رہے ہیں؟ حاجی صاحب اطمینان سے بولے ''اپنے بڑھاپے کے لیے‘‘۔ میں ہنس پڑا ''حاجی صاحب! بوڑھے تو آپ کب کے ہو چکے‘ میری مانیں اپنی زندگی میں ہی اولاد کی خوشی دیکھیں‘ آپ کی اولاد نافرمان نہیں‘ خود آپ ضدی بنے ہوئے ہیں‘‘۔ حاجی صاحب بھڑک اٹھے ''بھئی مجھے ایسی اولاد کی ضرورت نہیں جو بیوی کی خاطر والدین کا گھر چھوڑ دے‘‘۔ میں نے مسکرا کر پوچھا ''آپ اپنے والد صاحب کے گھر کیوں نہیں رہتے؟‘‘ حاجی صاحب بوکھلا گئے ''وہ... وہ تو جب میں نے آبائی شہر چھوڑا تھا اُسی وقت اِس شہر میں اپنا گھر بنا لیا تھا‘‘۔ میں نے گہرا سانس لیا ''حضور! یہی گزارش تو میں کرنا چاہ رہا ہوں کہ اگر والدین کے گھروں میں رہنا ہی ضروری چیز ہوتا تو آج آپ اپنے والد صاحب کے گھر میں اور وہ اپنے والد صاحب کے گھر میں ہوتے‘ وقت اور حالات ہمیشہ نئی بستیاں آباد کرتے رہے ہیں‘ شادی کے بعد صرف لڑکی ہی رخصت نہیں ہوتی‘ کچھ عرصے بعد لڑکے کو بھی رخصت ہونا ہوتا ہے‘ آپ ماشاء اللہ ایک صاحبِ حیثیت انسان ہیں‘ یاد رکھئے گا‘ آپ جو کچھ کما رہے ہیں‘ بے شک اپنے لیے سنبھال کر رکھتے جائیں لیکن وہ آج نہیں تو کل‘ صرف اور صرف آپ کی اولاد کو جائے گا‘‘۔ حاجی صاحب غصے سے بولے ''مرنے کے بعد بے شک چلا جائے لیکن اپنی زندگی میں تو اُنہیں ایک دمڑی نہیں دوں گا‘‘۔ میں پھر ہنس پڑا ''یعنی آپ نے طے کر لیا ہے کہ اپنی زندگی میں اولاد کو خوش نہیں دیکھنا؟؟؟‘‘ حاجی صاحب چلائے ''وہ اپنی زندگی میں خوش ہیں‘ اُنہیں میری کوئی پروا نہیں‘ اور یاد رکھنا‘ اِن کی اولادیں بھی اِن کے ساتھ یہی سلوک کریں گی‘ جو یہ میرے ساتھ کر رہے ہیں۔‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا ''اس کا مطلب ہے جو سلوک آپ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ آپ اپنے والد صاحب کے ساتھ کرتے رہے ہیں؟؟؟‘‘ حاجی صاحب نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی برفی واپس پلیٹ میں رکھی اور منہ بنا کر چلے گئے...!!!
کوئی مرد اُس وقت تک باپ اور کوئی عورت اُس وقت تک ماں نہیں کہلا سکتی جب تک اُن کے ہاں کوئی اولاد نہ پیدا ہو جائے‘ وہ شوہر اور بیوی تو کہلا سکتے ہیں‘ ماں باپ نہیں۔ جس دن اولاد پیدا ہوتی ہے مرد کو باپ کا اور عورت کو ماں کا خطاب مل جاتا ہے۔ اگر اولاد پیدا نہ ہو یا پیدا ہونے سے انکار کر دے تو کوئی مائی کا لعل خود کو باپ نہیں کہلوا سکتا‘ یہ اولاد کا اپنے ماں باپ پر بہت بڑا احسان ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں آ کر ماں کو ماں اور باپ کو باپ بناتی ہے۔ ہم اپنی اولادوں کے والدین ضرور ہیں لیکن یہ ہمارا اپنی اولادوں پر کوئی احسان نہیں‘ ہماری اولادیں ہمیں خط نہیں لکھتیں کہ ہمیں دنیا میں بلا لیں‘ اُنہیں ہم اُن کی مرضی معلوم کیے بغیر دنیا میں لاتے ہیں‘ لہٰذا اُنہیں پالنا پوسنا اور تربیت کے تمام تر مراحل سے گزارنا ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اولاد کے بھی بہت زیادہ حقوق ہوتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں اُنہیں اتنا اہم خیال نہیں کیا جاتا‘ ہمارے ہاں زیادہ زور والدین کے حقوق پر دیا جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں والدین کو بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ شاید تمام مراعات انہی کو حاصل ہیں اور اولاد کو صرف ان کا کہا ماننا چاہیے۔ نتیجتاً اولاد ساری زندگی اپنے حقوق سے بے خبر رہتی ہے۔ میں نے حاجی صاحب جیسے کئی خوشحال باپ دیکھے ہیں جو شادی کے بعد اپنی اولاد سے قطع تعلق کر لیتے ہیں‘ اپنی دولت سے اپنی اولاد کو کوئی سکھ نہیں دیتے‘ ایسے ہی باپ ہوتے ہیں جن کی اولادیں اُن کے مرنے کی دعائیں کرتی ہیں۔ آئیے اپنی اولاد کے لیے آسانیاں پیدا کریں‘ جس طرح غریب والدین کی خدمت اولاد پر فرض ہے اسی طرح غریب اولاد کا سہارا بننا بھی والدین کا کام ہے‘ ماں باپ کا کوئی نعم البدل نہیں‘ لیکن اولاد کا بھی کوئی نعم البدل نہیں‘ خدا نے اگر آپ کوکچھ دیا ہے تو اُس پر پہلا حق آپ کی اولاد کا ہے...!!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں