منظور ہے؟

ہم دونوں نے طے کیا کہ پہلے لاہور کے امیر ترین علاقے سے آغاز کریں گے۔ صبح ٹھیک 10 بجے میں اور الطاف شہر کے ایک پوش علاقے میں پہنچ گئے اور ایک مہنگے پرائیویٹ ہسپتال کی پارکنگ میں گاڑی لگا لی۔ الطاف ایک دُکھی انسان ہے۔ میرے ساتھ والے آفس میں ہوتا ہے۔ کام کاج کوئی نہیں کرتا۔ محنت سے جان جاتی ہے لیکن بڑے یقین سے کہتا ہے کہ ''مجھ پر کسی نے بندش کی ہوئی ہے‘‘۔ الطاف کو یقین ہے کہ اس پوری دنیا میں صرف وہی ایک دُکھی اور پریشان انسان ہے‘ باقی سب لوگ عیش کر رہے ہیں‘ وہ اپنے علاوہ ہر بندے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا ہے اور اُنہیں دنیا کے خوش قسمت ترین انسان قرار دیتا ہے۔ میں اُس سے متفق نہیں تھا لہٰذا ہم نے ایک دلچسپ سروے کا پروگرام بنایا۔ ہم نے سوچا کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں چلتے ہیں‘ وہاں لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہیں کوئی پریشانی یا دُکھ تو نہیں؟؟؟ ہسپتال کی پارکنگ میں ابھی ہم آ کر رکے ہی تھے کہ کالے رنگ کی ایک چمکدار سی گاڑی آ کر رکی۔ اس میں ایک خوبصورت نوجوان جینز پہنے بیٹھا ہوا تھا۔ الطاف نے جلدی سے مجھے کہنی ماری ''لو بھئی! دیکھو یہ کتنا مطمئن نظر آ رہا ہے‘ گاڑی بھی ہے‘ کپڑے بھی اچھے پہنے ہوئے ہیں‘ شکل و صورت سے کھاتا پیتا بھی لگ رہا ہے‘ شرط لگا لو اِسے کوئی دُکھ نہیں ہو سکتا...‘‘ ہم دونوں بھاگ کر اس کے پاس پہنچے۔ الطاف نے جلدی سے پوچھا ''سنئے... کیا آپ کو کوئی دُکھ ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی نوجوان چونک کر رک گیا۔ کچھ دیر غور سے ہم دونوں کی طرف دیکھا‘ پھر اچانک اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے‘ بے اختیار الطاف کا ہاتھ پکڑ کر بولا ''میرے دو سال کے بیٹے کا آج آپریشن ہے‘ دماغ میں رسولی ہے‘ اللہ سے دعا کیجئے گا...‘‘۔ الطاف ایک دم بت بن گیا۔ میرے جسم سے گویا جان ہی نکل گئی۔ ہم دونوں کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور نوجوان آنکھیں صاف کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے اوسان بحال ہوئے تو ایک لینڈ کروزر ہمارے قریب آ کر رک چکی تھی۔ اُس میں سے ایک ادھیڑ عمر شخص نیچے اترا‘ جس کے ہونٹو ں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور اس نے کافی مہنگا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ الطاف اسے دیکھتے ہی جھوم اٹھا اور میرے کان میں سرگوشی کی ''یہی ہے...‘‘۔ میں نے ادھیڑ عمر سے سلام لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ اُس نے چونک کر میری طرف دیکھا‘ پھر مسکرا کر ہاتھ ملایا اور ہم دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ میں نے بڑی متانت سے پوچھا ''سر! آپ کو زحمت تو ہو گی لیکن ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ کو کوئی دُکھ ہے؟‘‘ اُس نے چونک کر میری طرف دیکھا اور جواب دینے کی بجائے مزید مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ میں نے بوکھلا کر پیچھے سے آواز دی... ''سر بتا تو دیجئے کہ کیا آپ کو کوئی دُکھ ہے...؟؟؟‘‘ وہ میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے ہسپتال کے گیٹ سے اندر داخل ہو گیا۔ الطاف نے قہقہہ لگایا... ''دیکھا! یہ ہوتا ہے مطمئن اور مغرور انسان‘ جو بڑی سی گاڑی میں آتا ہے‘ مسکراتا ہے اور ہم جیسے دو ٹکے کے بندوں کی بات کا جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتا...‘‘ اتنے میں دوسری طرف سے آواز آئی... ''میرے صاحب مغرور نہیں ہیں‘‘۔ ہم دونوں بیک وقت مڑے‘ سامنے لینڈ کروزر کا ڈرائیور کھڑا تھا۔ کچھ دیر وہ ہمیں دیکھتا رہا پھر قریب آ کر بولا ''میرے صاحب تو بہت اچھے ہیں‘ ہم سب ملازمین کا بہت خیال رکھتے ہیں‘ ٹائم پر تنخواہ دیتے ہیں اور کوئی ایمرجنسی ہو تو چھٹی بھی دے دیتے ہیں‘‘۔ الطاف نے طنزیہ لہجے میں کہا ''ظاہری بات ہے اتنی دولت ہو گی تو اچھائی تو خود بخود نظر آئے گی‘ تمہارے صاحب صرف تم لوگوں کے ساتھ ہی اچھے ہوں گے‘ ہمیں تو انہوں نے اپنی دولت کے نشے میں جواب تک دینا گوارہ نہیں کیا...‘‘ ڈرائیور بولا ''وہ کسی کو بھی جواب نہیں دیتے‘‘۔ الطاف جل بھن کر بولا ''توبہ ہے! خاموشی کے اتنے شوقین ہیں تو اپنی زبان ہی کٹوا دیں‘‘۔ ڈرائیور آہستہ سے بولا... ''اُن کی زبان چار سال پہلے ہی ایک حادثے کے نتیجے میں کٹ چکی ہے...‘‘ ہمارے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ الطاف نے خجالت سے منہ دوسری طرف کر لیا۔ ہم نے سوچا کہ ہسپتال میں تو سبھی مریض اور دکھی لوگ ہی آئیں گے لہٰذا کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں مسکراتے چہرے آتے ہیں۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور ایک فائیو سٹار ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں آ گئے۔ یہاں ہر طرف زرق برق لباس پہنے‘ خوشبوئوں میں بسے لوگ طمانیت کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے اور خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ہم نے ایک نوجوان جوڑے کو تاڑا جو ہنس ہنس کے ایک دوسرے سے باتیں کر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم اُن کی ٹیبل پر تھے اور اُن سے بھی وہی سوال پوچھ رہے تھے جو ہم نے باقیوں سے پوچھا تھا۔ ہمارا سوال سنتے ہی دونوں کے چہروں پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ نوجوان نے لڑکی کی طرف دیکھا اور لڑکی نے نظریں جھکا لیں۔ الطاف نے بے چینی سے نوجوان سے پوچھا ''آپ کو بھلا کوئی دُکھ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ نوجوان نے ایک زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ الطاف کی طرف دیکھا اور شکایت آمیز لہجے میں بولا ''کیا شادی کے دس سال بعد بھی اولاد کا نہ ہونا کوئی دُکھ نہیں؟؟؟‘‘ الطاف جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ اُس روز ہم نے لاہور کی مختلف لوکیشنز پر امیر‘ غریب‘ اور مڈل کلاس کے ایک سو کے قریب لوگوں سے یہ سوال پوچھا اور جوابات سن کر ہمارے ہوش اڑ جاتے رہے۔ کسی کو کینسر تھا‘ کسی کی ایک ٹانگ مصنوعی تھی‘ کسی کی گاڑی کی قسط جمع کرانے کی آخری تاریخ گزر چکی تھی‘ کسی کی شادی ناکام ہو گئی تھی‘ کسی کی بیٹی اغوا ہو چکی تھی‘ کسی پر جھوٹے مقدمے بنے ہوئے تھے‘ کسی کی نوکری چلی گئی تھی‘ کسی کا ویزہ ریجیکٹ ہو چکا تھا‘ کسی کی ماں آخری سانسیں لے رہی تھی‘ کوئی اپنے ابنارمل بچے کے لیے پریشان تھا‘ کسی کا جگر جواب دے چکا تھا‘ کوئی ڈائلسس پہ زندہ تھا‘ کسی کے گردے ختم ہو چکے تھے‘ کسی کی اوپن ہارٹ سرجری طے ہو چکی تھی‘ کسی کے پلاٹ پر قبضہ ہو چکا تھا‘ کسی کا بجلی کا میٹر کٹنے والا تھا‘ کسی کا گیس کا میٹر کٹ چکا تھا‘ کسی پر چھ ماہ کا کرایہ چڑھا ہوا تھا‘ کسی کے ہاں دو دن سے فاقے چل رہے تھے‘ کسی کی بیٹیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہوتی جا رہی تھیں‘ کسی کے گھر میں اولاد کی وجہ سے بے سکونی تھی‘ کسی کے دل میں سوراخ تھا‘ کوئی قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا‘ کوئی بیٹی کے جہیز کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا تھا‘ کسی کو تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی‘ کسی کا سب کچھ اپنوں نے لوٹ لیا تھا‘ کسی کی تین تین بیٹیاں طلاقیں لے کر گھر واپس آ بیٹھی تھیں‘ کسی کی آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں اور کوئی بڑھاپے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے اکیلا رہ گیا تھا... اتنے سارے دُکھ سن کر ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے دُکھ کتنے کم تر ہیں۔
ہم سب کسی نہ کسی دکھ کا شکار ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کو دیکھ کر یہی سوچتا ہے کہ کاش میں اِس جیسا ہو جائوں‘ لیکن یقین کیجئے ایسا ہو جائے تو ہمارے ہوش اڑ جائیں‘ ہماری نظریں دوسرے کے صرف سُکھ دیکھ رہی ہوتی ہیں اور یہی سکھ ہم لینا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے‘ اپنی مرضی کے کسی بھی ایسے شخص کا تصور کیجئے جسے آپ کامیاب ترین اور خوش قسمت ترین انسان سمجھتے ہیں‘ اور خدا سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی اس جیسا بنا دے... لیکن دعا کرتے وقت یاد رکھئے گا‘ قبول ہو گئی تو دوسرے شخص کی زندگی کا پورا پیکج آپ کا مقدر ہو گا‘ اُس کا ہر سُکھ ‘ اُس کا ہر دُکھ... بولیں! منظور ہے؟؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں