اصلی اور پرانا پاکپتن شہر مٹی کے ایک ٹیلے پر آباد ہے جسے ڈھکی کہتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں کی آبادی کی طرح ڈھکیپر مکانات اس طرح بنے ہیں کہ ایک کی چھت پڑوسی کا آنگن ہے۔ ساری کی ساری گلیاں ڈھلوان ہیں یعنی تھکا دینے والی چڑھائی طے کرنا ہوتی ہے اور اترتے ہوئے وہ احتیاط ملحوظ رکھنا ہوتی ہے جو پہاڑ سے نیچے آتے ہوئے روا رکھی جاتی ہے۔ اس ٹیلے پر ہی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ اور ان کے دیگر متوسلین کے مزارات ہیں۔ گویا ڈھکی کو بابا جیؒ کا محلہ کہا جاسکتا ہے اور ڈھکی کے رہنے والوں کو آپؒ کا محلے دار۔ پرانے شہروں کی طرح ڈھکی کی گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اوسط جسامت کا آدمی اگر بازو پھیلا لے تو اس کے ہاتھ گلی کے دونوں اطراف بنے مکانات کی دیواروں کو چھو رہے ہوں گے۔ یہاں آکر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیوریج، پینے کا پانی اور صفائی کے عمومی انتظامات میں دنیا نے جو ترقی کی ہے، وہ ڈھکی کی ڈھلوان نہیں چڑھ سکی۔ پانچ پانچ فٹ چوڑی گلیوں میں ایک فٹ چوڑی کھلی بدرو اس علاقے کی غلاظت لے کر نئے پاکپتن کے سیوریج کے نظام میں ڈالتی ہے۔ اس بدرو کے ساتھ ساتھ پانی کا پائپ ہے جو اس علاقے کے کچھ حصے کو پینے کے پانی کے نام پر ایک ایسا صحت کُش محلول فراہم کرتا ہے جو مویشیوں کو بھی نہیں پلایا جاسکتا۔ یوں تو پاکپتن شہر کے عمومی مسائل وہی ہیں جو پاکستان بھر کے دیگر شہروں کے ہیں لیکن ڈھکی کا ماحول دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ شہری سہولیات کے لحاظ سے یہاں کے لوگ پانچ سو برس پہلے کی زندگی جی رہے ہیں۔
اس علاقے سے میرا تعارف محمد عارف نے کرایا جو خود بھی ڈھکی کا رہائشی ہے اور عارف سے ملاقات کا وسیلہ بنا دنیا ٹی وی کا الیکشن کاررواں جوایک ہفتہ پہلے پاک پتن میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی کوریج کے لیے وہاں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ اس نے شہر میں دنیا ٹی وی کی گاڑیاں پھرتے دیکھیں تو وہ پوچھتے پچھاتے مجھ تک آن پہنچا کہ میں بھی اسی کاررواں کا مسافر تھا۔ اس نے بغیر کوئی تمہید باندھے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بٹھا کر شہر کے ایک حیرت انگیز حصے تک لے جانے کی پیشکش کی تو میں انکار نہیں کرسکا اور ڈھکی آگیا۔ ایک اجنبی کواپنی گلیوں میں بھٹکتا دیکھ کر کچھ لوگ بھی اکٹھے ہوگئے۔ میڈیا سے تعلق کی وجہ سے ان کا خیال تھا کہ وہ مجھے اپنے جن مسائل سے آگاہ کریں گے وہ فوری طور پر حل ہوجائیں گے، اس جھوٹی امید میں بیک وقت کئی لوگ بولنے لگے، لیکن اپنا اپنا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ان سب کو شاید یہ خیال گزرا کہ جو ایک دفعہ ڈھکی کی گلیاں چڑھ جائے اسے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں، اس لیے بیک وقت خاموش بھی ہوگئے۔ خاموشی کے اس بوجھل لمحے میں نے پوچھا کہ آپ لوگ ووٹ تو دیتے ہو، ووٹ لینے والوں کا احتساب کیوں نہیں کرتے؟ سوال کے جواب میں چند لمحے مزید خاموشی رہی تو عارف بولا: ''بھائی صاحب ، ہم ووٹ بھی دیتے ہیں اور احتساب بھی کرتے ہیں، مگر
مصیبت یہ ہے کہ قومی الیکشن میں ووٹ دیتے ہوئے ہمیں ڈھکی کے نہیں ملک کے مسائل کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے، بلدیاتی نظام موجود نہیں کہ ہم ڈھکی کے رہنے والوں کو بلدیاتی اداروں میں بھیج کر اپنے مسائل حل کراسکیں اس لیے قومی مسائل تو شاید سلجھ رہے ہیں لیکن ڈھکی کے مسائل الجھتے جاتے ہیں‘‘۔ عارف نے جو بات کی اس نے مجھے چونکا دیا کہ ہمارا ایک عام آدمی اپنے قومی و مقامی مسائل کا کتنا گہرا شعور رکھتا ہے۔ میں نے کہا: ''اب تو بلدیاتی ادارے بن رہے ہیں، اب ہی کچھ کرلو‘‘۔ میری بات سن کر ڈھکی کی جگت باجی تسنیم کہنے لگی، اب تو ہم نے پورا انتظام کیا ہے، ہمارے لڑکے یہاں سے کونسلر بن جائیں گے لیکن یہ بتائیں کہ الیکشن تو ہوجائیں گے نا؟ میںنے ڈولتے دل سے انہیں اطمینان دلایا کہ بے شک ہوں گے تو عارف پراعتماد لہجے میں بولا: ''حبیب صاحب ، پھر ہمارے مسائل بھی حل ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے دیکھا وہاں موجود دیگر لوگ اس کی تائید میں سر ہلا رہے تھے۔
ایک ڈھکی کی ہی بات نہیں،اپنے بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے اپنے مقامی مسائل حل کرنے کا یقین مجھے الیکشن کاررواں کے مسافر کے طور پر ہر اس شہر میں نظر آیا جہاں بلدیاتی الیکشن ہو رہے تھے۔ بہاولنگر کا غلام محی الدین اپنی برادری کی چند گلیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے خود الیکشن لڑ رہا تھا۔ لودھرا ں کے ایک حلقے میں عام لوگوں نے مل کر ایک نوجوان کو کھڑا کر رکھا تھا اور طے کرلیا تھا کہ کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ قصور کا ایک دودھ فروش صرف اس لیے الیکشن لڑ رہا تھا کہ گاؤں کی مشترکہ چراگاہ بحال کرائی جاسکے جہاں اس کی اور دوسرے گوالوں کی بھینسیں کبھی چراکرتی تھیں۔ چکوال کے ایک محلے میں کھڑے امیدوار کا ساتھ لوگ اس لیے دے رہے تھے کہ وہ یہاں کے واحد پارک کی بحالی کا ذمہ لے رہا تھا۔ کہروڑ پکا کے ایک گاؤں میں لوگوں نے لڑکیوں کے مڈل سکول کو ہائی سکول بنوانے کے لیے اپنا امیدوار بلا مقابلہ منتخب کرا لیا تھا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے میں نے 2002 ء سے لے کر آج تک کا ہر بلدیاتی اور قومی الیکشن کور کیا ہے لیکن 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں عام آدمی کی آنکھوں میں جو چمک دیکھی ہے وہ کبھی نظر نہیں آئی۔ یہ چمک بتا رہی تھی کہ لوگوں نے بلدیاتی نظام کا حقِ ملکیت اپنے نام کرلیا ہے۔ یہ چمک پیغام دے رہی تھی کہ بلدیاتی اداروں کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کو اپنا بندوبست خود کرنا ہوگا۔
بلدیاتی نظام سے عام آدمی کی رغبت تو ظاہر و باہر ہے، لیکن ملک کی چاروں صوبائی حکومتوں کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ یہ بلدیاتی اداروں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ بلوچستان میں جہاں بلدیاتی ادارے سب سے پہلے وجود میں آئے، وہاںکی صوبائی حکومت بلدیاتی اداروںکو فنڈزکی فراہمی میں اس قدر تنگ کر رہی ہے کہ مجبور ہوکر حکمران اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود کوئٹہ کے میئر اور ڈپٹی میئر کو وزیراعلٰی ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنا پڑا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی ایک بہتر بلدیاتی نظام دینے کے دعوے تو کرتے نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صوبے سے بلدیاتی اداروں کو فنڈزمنتقل کرنے کے قواعد و ضوابط کی فائل کو اپنی کرسی تلے دبائے بیٹھے ہیں اور بلدیاتی نمائندے ایک ایک روپے کو ترس رہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کی افتاد طبع اور ان دونوں صوبوں کے بلدیاتی قوانین کی ساخت بتاتی ہے کہ یہ حضرات بھی بلدیاتی اداروں کو تابع مہمل بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کے معاندانہ رویے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اب عوامی دباؤ بلدیاتی نمائندوں اور صوبائی حکومتوں کو اختیارات کی از سرِ نو تقسیم پر مجبور کردے گا۔ جس دن پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی اداروں نے کام شروع کیا اس دن سے ملک میں اختیارات و وسائل کی ایک نئی بحث چھڑے گی جس میں صرف دلیل سے بات ہوگی اور دلیل بلدیات کے حق میں ہے۔