"HAC" (space) message & send to 7575

بجٹ

پاکستانی معیشت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ اس میں اپنا کچھ بھی نہیں۔جب بھی اس میں کوئی بہتری نظر آتی ہے تو اسے بغیر کسی توقف کے کسی دوست کی نظرِ کرم کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ فلاں وقت میں فلاں حکومت کی وجہ سے معیشت کا فلاں اشاریہ بہتر ہوا ہے تو یہ بات جھوٹ کے سوا کچھ نہیں‘ معاشی بہتری کا مختصر ترین دورانیہ بھی ہماری خارجہ خدمات کے عوضانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جب حالات ایسے ہوں جیسے آج کل ہیں تو سمجھ لیجیے کہ دوستوں کو ہماری ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے دوستوں کی نظر کرم اسی وقت ہوتی ہے جب انہیں ہماری ضرورت پڑتی ہے۔ کسی کو سوویت یونین کے زمانے میں ضرورت پڑی تو ہم خوشحال ہوگئے‘ پھر افغان طالبان سے نمٹنے کیلئے کوئی آیا تو ہمارے دن اچھے گزرنے لگے اور جب ہمالیہ سے بحیرہ عرب تک چین کوراستے نکالنے کی سوجھی توہم نے بھی چار سڑکیں اپنی مرضی سے بنا کر اپنی معاشی صلاحیتوں کی داد لے لی۔ صنعت کیا ہے‘ ہنرمندی کیا ہے‘ تجارت کیسے ہوتی ہے‘ زراعت کیا ہے‘ یہ سب ریاستی سطح پر ہمارے سوال ہی نہیں۔ یہ ریاستی نظام کے مضافات میں پڑے ان چھوٹے لوگوں کے مسائل ہیں جن کے ہاتھ اس مال تک نہیں پہنچتے جوبوقت ضرورت ہمارے دوستوں کی طرف سے ہم پر لٹایا جاتا ہے۔ ایسے مسائل پر ریاست نے کبھی توجہ دی ہے نہ کبھی ضرورت پڑی ہے اس لیے خراب معاشی صورتحال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ یہ کشکول اٹھا کر دوستوں کے دروازے پردستک دینا شروع کردے۔ ہماری موجودہ حکومت یہی کرسکتی ہے اور یہی کررہی ہے۔اگرقدرت کو ہمار ا مزید امتحان ہی منظور ہے تو ہمیں آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننا پڑیں گی اور رحمتیں ہمارا مقدر ہیں تو ہوسکتا ہے عالمی سیاست پھر کوئی ایسا پلٹا کھا ئے کہ ہمیں کچھ کردار مل جائے اور ہمارے چند دن اچھے گزر جائیں۔
اپنے مبلغ معاشی علم کے زور پر ہمارے کارپردازانِ ریاست کچھ عرصہ پہلے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ معاشی تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ ان سے معیشت نہیں سنبھالی جارہی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ دنیا میں کوئی بادشاہ یا ہمہ مقتدر سیاسی رہنما انہیں پیسے دینے کیلئے تیار نہیں۔ اس کارروائی کی تہہ میں یہ امید کارفرما تھی کہ فلاں بادشاہ سے تعلقات کے عوض اتنے ارب ڈالر اور فلاں صدر سے ذاتی مراسم کے زور پر اتنے ارب ڈالر لے آئیں گے۔اس کارروائی کے دوران جتنے ارب ڈالر گنوائے گئے ان میں سے آدھے بھی آجاتے تورونقِ بازار میں اضافہ ہوجاتا۔ پھر بجلی کی پروا ہوتی نہ قرضوں کی قسطیں دینے کا کوئی بوجھ ہوتا۔ مصیبت یہ ہوئی کہ سارے دعوے جھوٹ نکلے۔ جس بادشاہ یا شہزادے سے بات کی اس نے آئی ایم ایف کی شرطیں مان لینے کا مشورہ دیا‘ نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور محنت کرنے کی نصیحت کرکے رخصت کردیا۔ جب سبھی دوستو ں نے اپنی اپنی مجبوریاں بتا کر منہ دوسری طرف کرلیا توہماری نام نہاد ماہر معاشیات حکومت بجلی بچاؤ اور پٹرول بچاؤ جیسے درویشانہ مشوروں پر اتر آئی۔ اسحق ڈار جو لندن بیٹھ کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کی نوید سنارہے تھے‘ شب بیداری کا اجر سمیٹنے کیلئے گوشہ نشین ہوکر خاموش ہوگئے۔ اب حکومت کے سارے تیس مارخان اترے ہوئے چہروں کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کی مبلغ معاشی قابلیت کمانے کی نہیں خرچ کرنے کی ہے۔ پیسہ کہیں سے آتا تھا‘ خرچ یہ کرتے تھے اور خود کو ماہرِ معیشت کہلواتے تھے۔ ملکی معیشت میں دولت کی تخلیق و تقسیم جیسے نازک مضامین تو ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آسکتے کہ یہ سب کچھ سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ لہٰذا اب سارے پرچۂ سوالات سامنے رکھے‘ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان بیٹھے ہیں۔
اس وقت پاکستانی معیشت کو جن مصائب کا سامنا ہے وہ انتہائی بنیادی نوعیت کے ہیں۔ ان مسائل کے حل کیلئے طویل منصوبہ بندی اور محنت کی ضرورت ہے۔ فرض کرلیجیے کہ آج سے کام شروع ہو تو پانچ سال میں اس کی بنیادیں سیدھی ہوں گی اور اگلے پانچ سال میں ان پر تعمیر ِنو کا کام ہوگا۔ وہ معاشی ڈھانچہ جس کے ہم عادی ہیں‘ نئی دنیا میں چل سکتا ہے نہ چلایا جاسکتا ہے۔ اسے چلانے پر اصرار کرنے کا مطلب ہے روزانہ کی بنیاد پر معاشی تباہی کی طرف قدم بڑھانا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ گھاٹے میں جانے والے کاروبار کو اگر مناسب وقت پر بند نہ کیا جائے تو یہ گھر بھی بکوا دیتا ہے۔بنیادی اصلاحات کا یہ کام وہی کرسکتا ہے جسے اس ڈھانچے کے مصنوعی پن کا احساس ہو اور معاشی زبان میں یہ پتا ہو کہ پاکستان کن شعبوں میں دوسرے ملکوں کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔جس نے بھی یہ کام کرنا ہے یا جس سے بھی یہ کام لیا جانا ہے‘ اسے سب سے پہلے پاکستان کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی بھی تشکیلِ نو کرنا پڑے گی۔ یہ سارے اصول کالج میں پڑھائی جانے والی معاشیات کی پہلی کتاب میں لکھ رکھے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی جب ہم کوئی معاہد ہ کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنی شرائط کے ذریعے ہمیں معیشت کے وہی بنیادی اصول سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کو پاکستان کے سیاسی حقائق کا درست اندازہ تو ہوتا نہیں‘ اس لیے اس کے بتائے ہوئے اقدامات کو ہم کڑوی گولی کا نام دیتے ہیں۔ یاد رہے‘ یہ قطعی ضروری نہیں کہ آئی ایم ایف ہماری ترجیحات کا تعین کرے‘ ہم خود بھی یہ کام کرسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم یہ کام کرنا چاہیں۔ جب ہم انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر تھوڑی سی بھی معاشی حرارت برداشت کرنے کی اہلیت سے محروم ہیں تو پھر آئی ایم ایف کے نسخوں پر چلتے رہنے میں ہی ہماری نجات ہے۔
پاکستان کی معیشت کی اچھائیوں برائیوں کی کسی حد تک درست تفہیم پی ٹی آئی حکومت کو اقتدار کے دوسرے سال میں ہوئی۔ انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ عالمی سیاست کے سوتوں سے پھوٹنے والے امداد کے چشمے خشک ہوچکے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنے پاؤ ں پرکھڑا ہونا ہوگا۔ انہوں نے پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں سرایت کی ہوئی ہمہ گیر کمزوریوں اور اپنی نا پختہ کار ٹیم کے باوجود سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے‘ تعمیرات پر زور دینے‘ زرعی ترقی پر توجہ دینے‘ چھوٹے کاروبار کیلئے آسانیاں دینے جیسے بنیادی اقدامات شروع کردیے تھے۔ اقتدار کے تیسرے سال میں انہیں شوکت ترین جیسا وزیرخزانہ میسر آیا تو ان کاموں میں کچھ تیزی بھی آگئی۔شوکت ترین نے معاشی ترقی کیلئے اوپر سے نیچے کے بجائے نیچے سے اوپر کی سوچ اپنائی تو معیشت کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ حرکت نظر آنے لگی۔ معیشت کے اس فہم کے ساتھ ہلکا سا تڑکا پاکستانی قوم پرستی کا بھی لگا تو اس نے خارجہ پالیسی کو بھی کئی بندھنوں سے آزاد کردیا۔ یوں ملک بہت آہستہ مگر محسوس ہونے والی رفتار سے اپنا رخ درست کررہا تھا۔ ان پالیسیوں کا منطقی نتیجہ کچھ نہ کچھ تکلیف کی صورت میں ہونا تھا۔ جونہی ذرا سی تکلیف آئی‘ فیصلہ ہوا کہ عمران خان کو نکال دیا جائے‘ حالانکہ وہ ان اقدامات کی قیمت اپنی مقبولیت کی کمی کی صورت میں ادا کررہے تھے۔توقع یہ تھی کہ تجربہ کاروں پر مشتمل حکومت دوستوں سے مانگ تانگ کر یہ تکلیفیں کم کریگی۔ مگر فیصلہ سازوں کو یہ بنیادی بات نہیں معلوم تھی کہ جب دنیاکی منڈیوں میں کسی ملک کے بارے میں سیاسی عدم استحکام کا تاثر جاتا ہے تو پھر معاشی تکلیفیں کم نہیں ہوتیں بڑھتی ہیں۔پی ٹی آئی حکومت اپنا وقت پورا کرتی تو تکلیف ضرور ہوتی مگر اس کی شدت وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔یہ جو ہم بجٹ بجٹ کھیل رہے ہیں تو یہ ایک لاحاصل مشق ہے‘ یہاں تک کہ اس کے بنانے اور منظور کرنے والوں کو بھی یہ پتا نہیں کہ معیشت کیا ہے۔ہمارے موجودہ اکابرین میں عقل سلیم کا شمہ بھی ہوتا تو اگلے مالی سال کا بجٹ بناتے ہوئے یہ حساب بھی کرتے کہ آخر بلا وجہ ایک حکومت ختم کرکے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں