مادرِ پارلیمان برطانیہ عظمیٰ میں یوں لکھا ہوا دستور موجود نہیں جیسا ہمارے پاس ہے۔ بہت سا کام سیاسی رسم و رواج پر چل رہا ہے اورجہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے وہاں سادہ اکثریت سے قانون پاس کرکے ہی کام نکل آتا ہے۔ اس ملک میں وزیراعظم کا عہدہ ہو یا اس پر فائز شخص سے اسے خالی کرانا ہو‘ سب کچھ روایات پر ہی چلتا آیا ہے۔ وزیراعظم کا منصب بھی روایت نے تشکیل دیا اور اسے ہٹانے کا طریقہ بھی اسی طرح نکلا جسے آج ہم عدم اعتماد کہتے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں 1742ء سے لے کر 1979 ء تک کے 237 برسوں میں عدم اعتماد کی پچیس تحریکیں کامیاب ہوئیں اور ایسی ہر صورت میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والے وزیراعظم کے مشورے پر دارالعوام (پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں‘ جیسے ہمارے ہاں قومی اسمبلی ہے) کے نئے انتخابات ہوئے۔برطانوی روایت کے مطابق عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے وزیراعظم کا یہ اختیار قائم رکھا جاتا تھا کہ وہ نئے انتخابات فوری طور پر کرا لے۔ وضاحت کے لیے اس کو یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد انہی کے مشورے پر صدر اسمبلی توڑ کر الیکشن کرالیتے تو یہ برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی درست پاسداری ہوتی۔
برطانیہ میں یہ نظام اچھا بھلا چل رہا تھا‘ 1979ء کے بعد تحریک عدم اعتماد کا سلسلہ بھی عملی طور پر رک چکا تھا؛ البتہ کبھی کبھی وزیراعظم اسمبلی توڑنے کی دھمکی دے کر اپنے کچھ مطالبات پارلیمنٹ سے منوا لیتا تھا۔ جس طرح کے نالائق اپنے سیاستدان ہیں اسی طرح کے کبھی کبھار ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ سو وہاں پر برسر اقتدار آجانے والے نالائقوں نے صدیوں کی اس روایت کو2011 ء میں ایک قانون کے ذریعے بدل ڈالا۔ قانون کے مطابق یہ طے پایا کہ اب پارلیمنٹ اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور پانچویں سال کے پانچویں مہینے کی پہلی جمعرات کو عام انتخابات ہوا کریں گے۔ میرا گمان ہے کہ برطانوی مدبروں نے اس بے مثل نالائقی میں ہماری پیروی کی ہو گی کیونکہ حکومت چاہے بدل جائے لیکن پارلیمنٹ اپنا وقت پورا کرے‘ جیسا احمقانہ خیال ہمارے ہی مدبروں کو سوجھتا ہے اور اسی خیال کو عمل میں لا کر ملک کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کررکھا ہے۔ خیر‘ برطانیہ والوں نے ہمارے جیسی بے وقوفی کرلی اور قانون یہ بنایا کہ اب تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد نیا الیکشن نہیں ہوگا بلکہ چودہ دن کے اندر نئی حکومت بنے گی اور پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے گی۔ کہنے کو تو یہ بڑا اچھا ہوگیا لیکن 2016 ء میں برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کا معاملہ آگیا۔ یہاں سے عدم استحکام کا ایسا کھیل شروع ہوا جس نے چار سال تک برطانیہ میں کسی حکومت کو ٹک کر کام نہ کرنے دیا۔ ایک بار الیکشن بھی ہوا مگر استحکام میسر نہ آسکا۔ پچھلے الیکشن میں برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی انتخابی مہم اس بنیاد پر چلائی کہ ملک کو باندھ کر رکھ دینے والے اس قانون سے جان چھڑوائیں گے۔ انہوں نے الیکشن کے بعد فوری طور پر اس قانون پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت شروع کی اور آخرکار مارچ 2022ء میں یہ قانون ختم کرکے وہ صورتحال بحال کردی جو اس سے پہلے تھی‘ یعنی عدم اعتماد کے بعد نیا الیکشن ہی ہونا چاہیے۔
برطانوی سیاستدانوں نے دس برس بعد سہی‘ اپنی غلطی درست کرلی اور سیاست کو ہموار کرلیا۔ پاکستان کے اکابرین یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ پارلیمانی نظام جمہوریت میں حکومت کسی بھی پارلیمان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے پاس ہوتی ہے‘ ایسی جماعت کو حکومت سے نکال کرجو کچھ بچتا ہے اس پر پارلیمان کی تہمت بھی نہیں لگائی جاسکتی۔ سب سے بڑی پارٹی پر عدم اعتماد کے بعد باقی بچ جانے والے کاٹھ کباڑ سے ایک نئی حکومت مارے باندھے کا سیاسی کرتب تو ہوسکتا ہے مگر اس میں حکومت والی کوئی بات نہیں ہوتی۔ سیاسی طور پر اس کرتب کو بطور دلیل استعمال کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے میں کہوں کہ قربانی کی عید کے دن میں دوستوں اور ہمسایوں کے گھروں سے مختلف بکروں کے اعضا لے کر ایک کھال میں اکٹھا کرکے ایک نیا بکرا بنا لوں گا جو دوڑے گا بھی‘ قلانچیں بھی بھرے گا‘ گھاس بھی چرے گا اورسال سوا سال میں اس کا قد کاٹھ بھی بڑھ جائے گا۔ پاکستان میں ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ دنیا کے سیاسی تجربات نظر انداز کرکے اور اپنے ملک کے سیاسی حقائق سے آنکھیں چرا کر ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم نظروں کے اس دھوکے کو نہ صرف حقیقت سمجھیں بلکہ مکمل وفاداری اور اطاعت کے اظہار سے اس جادوگری کی داد بھی دیں۔
اب ذرا آجائیے اپنے دستور کی طرف کہ وہ اس طرح کے معاملات پر کیا کہتا ہے۔ میرے جیسا کوئی عام سا قانون کا طالب علم جب اپنے دستور کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ نکتہ ابھر کرآتا ہے کہ یہ دستور جیسا بھی ہے دراصل ہر ابہام کا علاج عوام کے پاس جاناتجویز کرتا ہے۔ ابہام ختم کرنے کے اس طریقے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ شرط ہے کہ اگر کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہوچکی ہو تو وہ اسمبلی نہیں توڑ سکتا۔ یہ شق بنیادی طور پر پارلیمانی نظام کی روح کے ہی خلاف ہے‘ اسی لیے برطانیہ نے اس طرح کی قانون سازی پہلے کی اور پھر ختم کردی۔ ہمارے ہاں مسئلہ اسی شق کے اطلاق سے پیدا ہوا ہے‘ یہ اطلاقی مسئلہ جب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اپنی رولنگ دے کر ختم کیا تو پھر ایک نیا ابہام پیدا ہوگیا جس کا ذکر دستور میں نہیں۔ اگر یہاں سے دستور کے مزاج کے مطابق عوام کے پاس جانے کا راستہ اختیار کیا جاتا تو ہمیں ان مسائل کا سامنا ہی نہ ہوتا جو آج درپیش ہیں۔ مگر ہم تو پھر ہم ہیں۔ یہ صاف اور کھلا راستہ اختیار کرنے کے بجائے ہم نے تشریحات کے جنگل سے ہوکر گزرنے والی پگڈنڈیاں پکڑیں اور منزل کھوٹی کر بیٹھے۔ اب کارواں کے رہبروں کو راستہ مل رہا ہے نہ محافظوں کو کچھ سوجھ رہا ہے۔
مدت ہوئی کہ ایک بار میں سعودی عرب کے صحرا میں راستہ بھول گیا۔ تپتی ہوئی دوپہر تھی‘ چار وں طرف ریت کے ٹیلے تھے اور دور دور تک زندگی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔میں آگے بڑھتا چلا گیا‘ گاڑی میں موجود میرے ہم سفروں کی پریشانی نے مجھے مزید پریشان کردیا کیونکہ ان کے سامنے چند دن پہلے کی ایک خبر تھی جس کے مطابق اسی صحرا میں گاڑی خراب ہوجانے کی وجہ سے کچھ لوگ بھوک اور پیاس کا شکار ہوگئے تھے۔ ہم سب اپنے اسی طرح کے انجام کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ایک جگہ کچھ اونٹ نظر آئے۔ میں نے گاڑی کا رخ ان اونٹوں کی طرف کیا تو وہاں قریب ہی ایک عرب کا خیمہ بھی تھا۔ یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ وہاں پہنچا تو اس عرب بدو نے روایتی مہمان نوازی کی۔ میں نے راستہ بھول جانے کا بتایا تو اس نے پوچھاآئے کہاں سے ہواور جانا کہاں ہے؟ میں نے بتایا تو اس نے صحرا کے بارے میں میری معلومات کا اندازہ لگانے کے لیے مزید کچھ سوال پوچھے۔ میرے جواب سے اسے یقین ہوگیا کہ مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں۔ اس کے بعد اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرانتہائی شفقت سے پوچھا :تم وہاں پہنچ سکتے ہوںجہاں سے چلے تھے؟ میں نے زورسے کہا: ہاں ہاں بالکل پہنچ سکتا ہوں۔ یہ سن کر وہ بولا: یاد رکھو‘جب کبھی بھٹک جاؤ تو آگے جانے سے بہتر ہے اس طرف جاؤ جہاں سے چلے تھے۔ اس بدو اعرابی کے سکھلائے ہوئے سبق سے مسافر کبھی نہیں بھٹکا۔ کاش ہمارے اکابرین بھی سمجھ لیں کہ عدم استحکام کے اس جنگل سے نکلنے کاراستہ آگے نہیں پیچھے ہے یعنی ہمیں اسی دن کی طرف چلنا ہو گا جب عمران خان نے اسمبلی توڑ کرنئے الیکشن کا اعلان کیا تھا۔