چلئے اپنے وزیراعظم شہباز شریف کی بات مان لیتے ہیں اور پاکستان میں ان کے تجویز کردہ گرینڈ ڈائیلا گ یا مکالمۂ کبیر کی تیاری کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ملکی مسائل کا حل نکلے گا اور کچھ معاملات کو سیاست سے نکال کر ان پر یکسوئی پیدا کی جائے گی۔ظاہر ہے مکالمہ کرنے کی تجویز کو کسی بھی جمہوری معاشرے میں مسترد تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ملک کو ایسے کون سے مسائل درپیش ہیں جن کا حل ایک مکالمۂ کبیر پر موقوف ہے۔ اسی سے جڑا ہوا یہ سوال بھی ہے کہ مکالمہ کن کن کے درمیان ہو گا‘ کیا ہیئت مقتدرہ میں شامل سبھی لوگ کسی گول میز پر بیٹھیں گے یا سیاسی جماعتیں آل پارٹیز نما کسی جلسے میں ملکی مسائل کا کوئی متفقہ حل پیش فرمائیں گی؟ یہ بھی مان لیں کہ ملک کے اندر ایک مکالمۂ کبیربرپا ہوچکا‘ مسائل کی نشاندہی ہو گئی‘ ان کے حل کی فہرست بن گئی‘ کچھ کو سیاسی قرار دے دیا گیا اور کچھ پر متفق علیہ کی مہر لگ گئی‘ سب کچھ ہو گیا‘ تو اس کے بعد مسائل کے گرداب سے نکلنے کیلئے اس قوم کی ناخدائی کون کرے گا؟ اس کیلئے کوئی الیکشن وغیرہ کا تکلف ہو گا یا مکالمۂ کبیر میں شامل لوگ آپس میں ہی فیصلہ کر گزریں گے کہ فلاں صدر ہو گا اور فلا ں وزیراعظم ہوجائے گا‘ فلاں کا بیٹا فلاں صوبے کا والی ہوگا اور فلاں کی بیٹی فلاں علاقے کو زیر نگیں رکھے گی یا فلاں بزرگ کی اولاد آنے والے نسلوں کی رہنمائی کیلئے اپنی خدمات فراہم کرے گی؟ آخر ایسے کون سے سوالات ہیں جن کے جوابات اس مکالمے کے مہیب و عظیم مندوبین کے شہ دماغوں میں تو موجود ہیں مگر اس قوم کی فہم سے بالا ہیں۔
ان سبھی سوالوں کے جوابات ہمارے دستور میں موجود ہیں۔ مکالمہ چاہے کبیر ہو یا حقیر‘ اس کی جگہ اور کرداروں کا تعین ہمارے دستور نے واضح لفظوں میں کردیا ہے۔ اس کے مطابق پارلیمنٹ یعنی صدر‘ سینیٹ اور قومی اسمبلی مل کر جو ادارہ بناتے ہیں وہاں ہر طرح کی بات ہوسکتی ہے۔ پارلیمنٹ کو تمام اداروں کی ماں کہا جاتا ہے‘ اس کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ یہ کسی ادارے کو ختم کردے‘ اس کی طاقت بڑھا دے‘ کم کردے یا کسی خاص مقصد کیلئے کوئی ادارہ تخلیق کرلے۔یہاں بات کرنے کے اہل بھی وہ ہوتے ہیں جنہیں عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے بات کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اسی وجہ سے زمین و آسمان کے درمیان کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر پارلیمنٹ میں بات کرنے پر قدغن ہو اور یہاں کی گئی کوئی ایسی بات نہیں جس پر کہنے والے کو کسی بھی سزا کا مستوجب سمجھا جائے۔ایسے ایک آزاد‘ بااختیار اور نمائندگی کے حامل ادارے کی موجودگی میں الگ سے کسی گرینڈ ڈائیلاگ کی بات کی جائے تو دراصل یہ اس ادارے کی ناکامی کا اعلان ہے اور اگر ایسی تجویز دینے والا خود اس ایوان کا قائد بھی ہو تو اس کے بیان کو پارلیمنٹ کی غیر فعالیت کے ثبوت کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ہماری موجودہ پارلیمنٹ جب2018 ء کے الیکشن کے بعد وجود میں آئی تھی تو اس وقت اپنی اسی طاقت کا مظہر تھی جو دستور اس سے منسوب کرتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ ملک میں ایسے کئی مسائل پیدا ہوئے جن پر بحث اور ان کا حل پارلیمنٹ کو نکالنا تھا۔ اُس وقت ہمارے وزیراعظم حزبِ اختلاف میں تشریف فرما تھے لیکن انہوں نے ان مسائل پر بحث وتمحیص بند کمروں میں کی‘ سیاسی مفادات کا لین دین کیا اور خفیہ طور پر طے پانے والے معاملات پر پارلیمنٹ میں موجود اپنی پارٹی کے ارکان سے مہر لگوا لی۔ بلا شبہ آنجناب اس وقت تنہا نہیں تھے‘ ان کی شریک اقتدار جماعت کے سربراہ جناب آصف علی زرداری بھی ان کے شریک تھے۔ اس وقت کی حکومت بھی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس عمل کا حصہ تھی مگر اس کی حیثیت ایک تابع مہمل سے زیادہ نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کی کمزوری کا دوسرا یا اب تک کا آخری مرحلہ بھی جناب شہباز شریف کی قیادت میں ہی طے کیا گیا۔ عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد انہی کی سرکردگی میں لائی گئی‘ وفاداریوں کی خرید و فروخت انہی کی نگرانی میں ہوئی اور پاکستانی سیاست کو تین براعظموں تک پھیلا کر مطلوبہ نتائج انہی کی قیادت میں حاصل کیے گئے۔اس کے بعد پارلیمنٹ کی توقیر ان کی نظروں میں جو ہو سکتی ہے وہ اس مکالمۂ کبیر کی تجویز سے ہی واضح ہوجاتی ہے۔
گرینڈ ڈائیلاگ بظاہر ہمہ گیر اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشرے کا ہر شخص اس میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرے گا‘ لیکن پاکستانی تجربہ یہ نہیں۔ پاکستان کے بارے میں ایک گرینڈ ڈائیلاگ 2006 ء میں لندن میں برپا ہوا تھا جس میں اس وقت کی دو سب سے بڑی جماعتوں‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے حصہ لیا تھا۔ اس نام نہاد گرینڈ ڈائیلاگ میں یہ طے کیا گیا کہ آئندہ سیاستدان عوام کے نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ واحد حکمران طبقے کے طور پر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔ دنیا بھر میں سیاستدان خود کوئی طبقہ نہیں ہوتے بلکہ مختلف طبقات کے نمائندگی کرتے ہیں‘ اس ڈائیلاگ میں پہلی بار سیاستدان خود ایک طبقہ بن گئے اور انہوں نے عوامی ردعمل سے خود کو محفوظ بنانے کیلئے ایک طریق کار وضع کیا جسے چارٹر آف ڈیموکریسی یا میثاق جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اس دستاویز میں اتفاق کیا گیا کہ سیاستدان ایک دوسرے کی بدعنوانی کی نشاندہی کرنے سے گریز کریں گے۔ جب یہ طے ہوگیا تو پھر اسی کے بطن سے بدنام زمانہ قومی مفاہمتی آرڈیننس نکلا جس نے سیاستدانوں کو بطور طبقہ احتساب سے مبرا قرار دے دیا۔ اگرچہ یہ آرڈیننس عدالت نے ختم کردیا تھا لیکن اس کی روح پر عمل ہوتا رہا اور احتساب کی ہر کوشش ناکام رہی۔ مستقبل میں بھی کسی کا احتساب نہ ہونے پائے اس کیلئے چند دن پہلے ہماری پیاری پارلیمنٹ نے 2006ء میں پارلیمنٹ سے باہر ہونے والے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے کسی بحث کے بغیر ہی احتساب کے قوانین اڑا دیے۔
ہمار تجربہ ہے کہ پارلیمنٹ سے باہر کوئی بھی گرینڈ ڈائیلاگ دراصل حکمران طبقات کے درمیان وسائل اور اختیار کی پرامن تقسیم کے سوا کچھ نہیں اور بدقسمتی سے پارلیمنٹ ان عوام کش معاہدوں پر ربڑ کی مہر کی طرح تصدیق کے نشان ثبت کرتی رہی ہے۔ یہی صورتحال جاری رہتی اگر پاکستانی سیاست میں عمران خان اقتدار کے نئے دعویدار کے طور پر نہ ابھر آتے۔عوام کا حقِ نمائندگی لے کر یہ نئی جماعت ریاستی معاملات میں بھی دخیل ہوگئی۔ان حالات میں اگر واقعی کسی کو مکالمۂ کبیر میں دلچسپی ہے تو اس کا محل پارلیمنٹ ہے جہاں عمران خان آج بھی سب سے بڑی قوت ہیں۔ ایسی قوت کی موجودگی میں پارلیمنٹ کے اندر جو بھی مکالمہ ہو گا وہ پاکستان کے سیاسی حالات کو مکمل طور پر بدل کررکھ دے گا اس لیے میثاق جمہوریت میں شامل سبھی فریقوں کے فائدے میں ہے کہ یہ مکالمہ پارلیمنٹ سے باہر ہو جہاں عمران خان کی125 سیٹیں اور متحدہ قومی موومنٹ کی سات سیٹیں برابر ہوجائیں۔ اس انہونی مساوات کے ساتھ مکالمے کا جو بھی نتیجہ نکلے ظاہر ہے وہ عوام کی امنگوں کا مظہر تو نہیں ہوگا‘اور یوں ایک نئی سیاسی قوت کو بھی کاٹ چھانٹ کر اوقات میں لایا جاسکے گا۔ایک بار ایسا ہو جاتا ہے تو آئندہ کئی سالوں تک موجودہ حکمران طبقے کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہوگا اور راوی ان کی اگلی نسل کیلئے بھی چین ہی چین لکھ دے گا۔
گرینڈ ڈائیلاگ میں پوشیدہ چالاکی اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ جمہوری معاشروں میں مکالمہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ کسی تھڑے پر بیٹھے ہوئے دوستوں کے درمیان سیاست پر گپ شپ سے لے کر پارلیمنٹ تک یہ ایک لمحے کیلئے نہیں رکتا۔ اس مکالمے کی حتمی اور اعلیٰ ترین شکل انتخابات ہیں‘ جن میں عوام ہر طرف کی دلائل سن کر فیصلہ کرتے ہیں۔ حالات کے جبر نے وزیراعظم شہباز شریف کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ اصل گرینڈ ڈائیلاگ یعنی انتخابات کرا کر ملکی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ انتخابات کے علاوہ کوئی بھی مکالمۂ کبیر بے معنی مشق ہے یا کسی نئی سازش کا پیش خیمہ۔