سیاستدانوں کی خوبی کہیے یا خامی‘ دلچسپ جملے‘ نادر ترکیبیں‘ تشبیہات‘ استعارے اور اسمائے صفت استعمال کرکے اپنی بات کہہ ڈالتے ہیں۔ اپنے حریف کا نام رکھنا یا موقع ملتے ہی فقرے کسنا ان کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم کی ان مسلمانوں کے حوالے سے جو کانگریس میں شامل تھے‘ رائے کچھ مختلف تھی‘ اسی لیے وہ مولانا ابولکلام آزاد کو کانگریس کا شو بوائے کہا کرتے تھے‘ یعنی ایسا شخص جسے نمائش کے لیے رکھا گیا ہو۔ مولانا ظفر علی خان جو بیک وقت صحافی‘ سیاستدان اور شاعر تھے‘ اپنے حریفوں پر شاعری کے زور پر ایسے ایسے حملے کر جاتے کہ چوٹ تادیر محسوس ہوتی رہتی۔ گاندھی جی اور بھارت کی موجودہ ہندوتوا کے فلسفیوں میں سے ایک دمودر ساورکر سے ناراض ہوئے تو فرمایا:
بھارت میں بلائیں دو ہی تو ہیں‘ ایک ساورکر ایک گاندھی ہے
اک جھوٹ کا چلتا جھکڑ ہے‘ اک مکر کی اٹھتی آندھی ہے
ساورکر اور گاندھی آنجہانی ہوگئے مگر یہ شعر عشروں کی مسافت طے کرتے ہوئے بھی مرجھایا نہیں۔ یوںمعلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کی روحیں آج بھی یہ شعر سن کر کسمساتی ہوں گی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو‘ خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہا کرتے تھے۔ ایوب خان کے دور کے اختتام پر بات چلی کہ پاکستان میں 1956ء کا آئین بحال کردیا جائے۔ بھٹو کو سیاسی طور پر اس میں اپنی شکست دکھائی دے رہی تھی‘ انہوں نے کہا: '1956ء کا آئین کوئی چپل کباب ہے جو نان پر رکھ کر غریب کودے دیا جائے‘۔ ان کے اس فقرے نے عملی طور پر مغربی پاکستان کے جغادری سیاستدانوں کو بے دست و پا کرکے رکھ دیا اوربھٹو ایوب خان کے خلاف واحد آواز بن گئے۔ دور کیوں جائیے‘ میاں نواز شریف کو دیکھ لیجیے‘ انہوں نے خلائی مخلوق اور محکمہ زراعت جیسی ترکیبیں سیاسی روز مر ہ میں ایسے داخل کیں کہ بظاہر سیاست سے بالکل غیرمتعلق الفاظ پاکستا ن کے سیاسی ماحول میں پوری بات واضح کردیتے ہیں‘ بلکہ یوں کہیے کہ 2018ء کے الیکشن میں ان کا کل سیاسی اثاثہ یہی دو ترکیبیں تھیں۔ اسی طرح عمران خا ن نے جو الفاظ سیاست میں داخل کیے‘ ان پر ہزار اعتراض کر لیں‘ مگر ان میں کئی ایسے ہیں کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ مثلاً ایک پالش کا نام لے کر انہوں نے میاں شہباز شریف کے حکومت میں آنے کی پوری کیفیت واضح کردی ہے۔ ہمارے اداروںمیںجب لفظ نیوٹرل استعمال ہونے لگا تو انہوںنے اس لفظ کو ایسے ایسے معنی پہنائے کہ بخدا عام بول چال میں بھی کبھی لفظ نیوٹرل زبان پر آجائے تو کہنے والا کہہ کر ہنس دیتا ہے اور مخاطب سن کر کھلکھلا اٹھتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ انہوں نے ایسی ترکیب منسوب کی ہے کہ ہمارے خیبر پختونخوا والے جو ٹرکوں کے کاروبار سے منسلک ہیں، اس کا صحیح مزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح اپنی حکومت گرائے جانے کے محرکات کو وہ سازش سے موسوم کرتے ہیں۔ اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر ان کے پاس امریکا میں پاکستان کے سابق سفیرکے لکھے ہوئے خط کے مندرجات ہیں جو ابتدائی طور پر چندمنتخب صحافیوں کو دکھائے گئے اور اب پاکستان بھر کے علم میں ہیں۔ اب اسے عمران خان کی قدرتِ کلام کہیں یا ان کی مقبولیت کا پیمانہ سمجھیں کہ ملک بھر میں کسی کے بھی سامنے اُن کی ایجاد کردہ ترکیبیں ادا کریں تو سننے والا فوری طور پر عمران خان کا بیانیہ دہرا دے گا۔ سیاست دانوں کا کمال ہے کہ وہ بعض اوقات سیاق و سباق اور اکثر اوقات حالات کی رعایت سے لفظوں کو ایسے معنی دے ڈالتے ہیں کہ بڑے بڑے قادرالکلام ادیب اور صحافی بھی ان کے سامنے پانی بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے بھٹو اور ضیا الحق کے درمیان کشمکش پر ولی خان مرحوم نے کہا تھا 'قبر ایک ہے اور بندے دو‘۔ ان کا کہا حالات کی بہترین تفہیم بھی تھا اور ضیا الحق کو مشورہ بھی۔
سیاست دانوں کو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی جو آزادی میسر ہوتی ہے وہ اداروں کو نہیں ہوتی۔ سیاست دان خیال‘ رائے اور نظریہ بیان کرتا ہے۔ ادارے کی مجبوری ہے کہ صرف حقائق بیان کرے۔ اگر کسی ادارے کا کوئی شخص اپنی سرکاری حیثیت میں کسی سوال کے جواب میں ہی سہی‘ کوئی اسم صفت استعمال کرے تو بات کسی اور طرف چل نکلے گی۔ اداروںکو ریاضی کے سوالوں کی طرح طے شدہ فارمولے کے تابع درست جواب دینا ہوتے ہیں‘ منظر نگاری نہیں کرنا ہوتی کیونکہ انہیں سب کچھ قاعدے‘ قانون کی عینک سے دیکھنا ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھانے دار اپنی ضمنی میں ظلم‘ ستم‘ بربریت جیسے لفظ استعمال نہیں کرتا بلکہ سیدھے سبھاؤ جرم کی نوعیت سے متعلق قانونی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ یہ وکیل کا کام ہے کہ وہ جج کے اندر انسانی جذبات کو ابھارنے کے لیے حقائق کی ترجمانی کرتے ہوئے کون سا اندازِ بیان اختیار کرتا ہے۔ یہ جو ایک بار پھر عمران خان حکومت کے گرانے کے پیچھے غیرملکی سازش کے ہونے یا نہ ہونے کی بحث چلی ہے‘ دراصل اداروں کی طرف سے اسمائے صفت کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ ہے۔ امریکی سفارتکار کی گفتگو اور واقعات کی ترتیب کو ہماری نیشنل سکیورٹی کمیٹی خود مداخلت قراد دے کر اس کی مذمت کر چکی ہے۔ جس خط کے مندرجات کے مذمت کی گئی تھی وہ خط تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے ایک دن پہلے لکھا گیا تھا۔ جب عمران خان بطور وزیراعظم یہ مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی میں لے کر آئے تو اس وقت سیاسی طور پر کمزور ترین حکمران تھے۔ اس کمیٹی کے تجربہ کار اراکین بہ آسانی کہہ سکتے تھے کہ یہ معمول کی خط و کتابت ہے جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت نہ صرف اسے مداخلت قرار دے کر اس کی مذمت جاری کی گئی بلکہ اس کے بعد نئے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں جو اجلاس ہوا اس میں پہلے والے بیان کی توثیق کردی گئی۔ ان دو اجلاسوں کے بعد عمران خان کے پاس بطور سیاستدان یہ مکمل جواز ہے کہ وہ اس مداخلت کے ساتھ لاحقے سابقے لگا کر اپنی سیاست کے لیے استعمال کریںکیونکہ مداخلت بذاتِ خود وضاحت کے لیے مقدار و کیفیت کی محتاج ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مداخلت کی سازش ہوئی یا مداخلت سے پہلے سازش ہوئی یا ایک سازش کے تحت مداخلت کی گئی توان میں کون سا جملہ ہے جوان دو تحریری بیانات کے خلاف ہے جو یکے بعد دیگر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں کے بعد جاری کیے گئے؟ اگر اس طرح کے کسی بھی جملے کو غلط قرار دیا جائے توعمران خان ایسا کرنے والے پر بہ آسانی اپنی مخالفت کا الزام لگا سکتے ہیں‘ کیونکہ جب بھی لفظوںکے ساتھ کھیلا جائے گا تو اس کھیل کا ہرکھلاڑی میدان میں اتر آئے گا۔ کوئی لغت کے ورق پلٹے گا تو کوئی سازش کے نئے معنی بتلائے گا۔ کوئی عربی والا ثلاثی مجرد کا باب مفاعلہ بتا کر مداخلت کو بھی سازش قرار دے ڈالے گا۔ سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی لفظ سیاستدان کے لبوں سے پھسل کر عوام کی زبانوں سے ادا ہونے لگے تو جان لیجیے کہ بات لوگوں کے ذہن میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس لیے سیاسی اصطلاح بن جانے والے لفظوں کے استعمال اور ان کی تشریح و تعبیر سے گریز کیا جانا چاہیے۔ ورنہ 'یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں‘۔
سیانے کہتے ہیں کہ جب سیاستدان کی شہرت اس کی گلی سے نکل جائے تو پھر گلی گلی جاتی ہے۔ اگر کوئی سیاستدان ووٹ لے کر دنیا کے پانچویں بڑے ملک کا وزیراعظم بھی رہ چکا ہو تو اسے کچھ کہنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کے پاس اپنے لفظوں کو نئے معنی دینے کا اختیار تو ہوتا ہی ہے‘ دوسروں کے لفظوں کو اپنے معنی پہنانے کی قدرت بھی ہوتی ہے۔ جب کسی کا ایسے سیاستدان سے واسطہ پڑ جائے تو بہترین راستہ خاموشی ہے۔ جتنا بولتے جائیں گے‘ جگ ہنسائی ہوتی جائے گی۔