عمران خان پر ہر کوئی یہ الزام عائد کرتا تھا کہ ان سے معیشت نہیں سنبھل رہی تھی۔ مسلسل بڑھتی ہوئی درآمدات کے نتیجے میں ڈالروں کے جس خسارے کا انہیں سامنا تھا‘ وہ بہت سوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے تھا۔ اسی دوران سری لنکا میں جو کچھ ہوا اس سے یہ خوف بھی بڑھ گیا کہ ملک میں ڈالر کم پڑ گئے تو یہاں بھی وہی کچھ ہوگا جو وہاں ہوا۔ اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ ملک برباد ہونے کو ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں لگا تار اضافہ الگ قیامت برپا کررہا تھا۔ عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم دہائی دیتی رہی کہ مہنگائی عالمی حالات کی وجہ سے ہے مگر کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ ایک سبب یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان اپنی عالمی شہرت کے زور پر دنیا سے پیسے مانگ کر نہیں لا سکے۔ غرض یہ کہ یہاں جو کچھ بھی برا ہو رہا تھا وہ عمران خان کے ذمے تھا اور اگر کہیں سے امید کا سورج ابھر سکتا تھا وہ اپوزیشن کی جماعتوں کی کہکشاں تھی۔ یہ طے پاگیا تھا کہ عمران مکمل غلط ہے‘ اپوزیشن مکمل درست‘ وہ یاس کا قاصد ہے‘ یہ امید و رجا کے پیامبر۔ وہ ایک خطرہ ہے اور یہ ایک ڈھال۔ اس ذہنی کیفیت میں وہ ہوا جسے دیکھنے والے بھول پائیں گے نہ کرنے والے۔ ذہنوں سے کبھی یہ داستان محو ہو گی نہ تاریخ اسے نظر انداز کرے گی۔ موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی تو پتا چلا کہ پچھلے والے تو حالات سے لڑ رہے تھے‘ اب والے تو پہلے دن سے ہتھیار ڈالے بیٹھے ہیں۔
عمران خان کو نکالنے کے بعد جو حکومت بنائی گئی ہے‘ حکومت کیا ہے‘ بے چارگی کی تصویر ہے‘ حکومت میں آنے سے پہلے اس کے اتحادی جب لہکتے ہوئے آنے والے روشن دنوں کی بات کرتے تھے تو ہم جیسے کچھ معیشت کے بارے میں سوال کر لیتے تھے۔ یقین مانیے کہ اس طرح کے سوال کرنے والے کو نظر انداز کردیا جاتا۔ اس خودساختہ اعتماد سے بھرے لہجے کا نمونہ کسی نے دیکھنا ہو تو حکومت کی تبدیلی سے چند دن پہلے دنیا ٹی وی کے پروگرام''دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘ میں جناب احسن اقبال کی گفتگو سن لے۔ منظر یہ تھا کہ کامران خان معیشت کے بارے میں سوال پوچھ رہے تھے اور آنجناب کا اصرار تھا کہ معیشت کی ہر بیماری کا علاج تیار کر لیا گیا ہے لیکن تفصیل سے انہیں گریز تھا۔ گویا بائیس کروڑ لوگوں کے معاش سے جڑے سوال کو وہ کسی قابل ہی نہیں سمجھ رہے تھے۔ جیسے ہی اقتدار ملا تو پہلا دھچکا عوام کے ردعمل نے پہنچایا۔ یہ سمجھ رہے تھے لوگ عمران خان کے جانے پر مٹھائیاں بانٹیں گے‘ ہوا یہ کہ لوگ احتجاجاً گھروں سے باہر آگئے۔ ان کا خیال تھا بحیرہ عرب کے اس پار سے امداد آ جائے گی اور ہمالیہ کے اس طرف سے دوست بھی ہاتھ تھام لیں گے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اعتماد ہوا ہوگیا اور حالات کے تھپیڑوں نے قدم ہی اکھاڑ دیے۔
دوسرا دھچکا تو ایسا لگا کہ جس سے جانبر ہونا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ وہ دھچکا ہے اقتصادی سروے کا۔ آنے والوں کو خود ماننا پڑا؛
1۔ عمران خان تقریباً چھ فیصد کی شرح نمو سے ملک چلا رہے تھے۔
2۔ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وہ سبسڈی دے رہے تھے۔
3۔ سبسڈی کا بوجھ کم کرنے کے لیے وہ روس سے تیل خریدنا چاہتے تھے۔
4۔ مہنگائی کی وجہ سے ہی ملک کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہے۔
یہ چار حقائق جب اقتصادی سروے میں سامنے آئے تو عمران خان کی کمزور معاشی پالیسی کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا بیانیہ ہی دم توڑ گیا۔ اب وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل ہر روز بتاتے ہیں کہ تیل کی قیمت نہ بڑھائی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ وہی دلائل جو عمران خان دے رہے تھے‘ آج بھی حکومت کا وظیفہ ہیں۔
اس حکومت کا ایک بنیادی مسئلہ اس کے اعضائے تشکیلی کی معاشی فہم کا ہے جو دراصل معاشی اصولوں پر نہیں بلکہ وقتی سیاسی ضروریات پر استوار ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی‘ ان دونوں جماعتوں نے کبھی ملکی معیشت کو درست کرنے یا اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یہ دونوں جماعتیں خاص قسم کی مصنوعی خوشحالی پیدا کرکے ووٹ کھرے کرنے کی عادی ہیں۔ وضاحت کے لیے پیپلز پارٹی کی مثال لے لیجیے۔ مجھے اس کے ایک سابق وزیر نے بتایا کہ 2008ء سے 13ء کی حکومت کے دوران کچھ وزرا نے طے کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دو گنا ہونی چاہئیں۔ یہ سوچ کر وہ صدر آصف علی زرداری کے پاس گئے اور ان سے منظوری لے لی۔ اس وقت وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ تھے۔ ان سے یہ منصوبہ مخفی رکھا گیا۔ جب کابینہ کے اجلاس میں یہ تجویز آئی تو وزیر خزانہ نے دہائی دی کہ اس طرح افراطِ زر میں اضافہ ہو جائے گا، قیمتیں بڑھ جائیں گی اور تنخواہیں بڑھانے کا کوئی دائرہ نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے‘ یہ بات کسی نے نہیں مانی اور وہی ہوا جو حفیظ شیخ کہہ رہے تھے۔ بعد کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور وہ بری طرح سے الیکشن ہار گئی۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی پالیسی ہے۔ یہ جماعت تنخواہیں بڑھانے سے گریز کرتی ہے مگر قرض اٹھا کر بھی نظر آنے والے منصوبے شروع کر دیتی ہے‘ چاہے ان کی معاشی قیمت بعد میں کتنی بھی کیوں نہ چکانی پڑے۔ اس کو سمجھنے کے لیے بجلی کے منصوبے ہی دیکھ لیجیے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں بجلی گھر بناناضروری تھا۔ مسلم لیگ (ن) کو حکومت ملی تو اس نے دھڑا دھڑ بجلی گھر لگوا بھی لیے اور یہ نہیں دیکھا کہ بجلی کی قیمت کیا ہوگی۔ بالخصوص چینی کمپنیوں سے جس قیمت پر بجلی خریدی جارہی ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ مجھے ایک چینی کمپنی کے صاحبوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ ان کے دنیا بھر میں لگے سبھی بجلی گھروں میں سے پاکستان کے بجلی گھر سب سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ عمران خان حکومت نے بنیادی نوعیت کے ان مسائل کو سیاسی طریقے سے دیکھنے کے بجائے معاشی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ اس نے بے تحاشا تنخواہیں بڑھائیں نہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اندھا دھند معاہدے کیے۔ ظاہر ہے یہ پیشہ ورانہ طرزِ عمل کچھ نہ کچھ معاشی مشکلات کا باعث بنتا ہے‘ ان مشکلات کی وجہ سے جن لوگوں کے مفادات پر زد پڑی وہ حکومت گرانے پر تل گئے۔
حکومت گرانے کے بعد خیال تھا کہ حکومتی خزانے اور ریاست کے قرضے لینے کی صلاحیت کے بل پر جو چمک دمک دکھائی دیتی تھی ایک بار پھر لوٹ آئے گی۔ یہ خیال کرنے والوں کو علم ہی نہیں تھا کہ دنیا کے حالات بدل چکے ہیں۔ اپنی سیاسی ضروریات کا نام معیشت رکھنے والوں نے ریاست کی حالت بھی یہ کردی ہے کہ اب اس کی مالیاتی مضبوطی آئی ایم ایف کی طرف سے چال چلن کے سرٹیفکیٹ کی محتاج ہوچکی ہے۔ وہ دوست جو اپنے اندرونی معاملات میں بھی ہماری طاقت کے محتاج تھے‘ اب کسی اور طرف نظریں پھیر رہے ہیں۔ یہی سب کچھ سمجھ کر پاکستان روس کی طرف مڑا تھا مگر ارادے کی یہ آزادی بھی کسی کو پسند نہ آئی۔ اسی لیے 1980ء اور 90ء کی دہائی میں تشکیل پانے والی ذہنیت سیاسی سرکس برپا کرکے تماشائیوں سے داد چاہتی تھی۔ کرتب دکھایا تو پتا چلا کہ آج کے تماشائی ٹوپی میں سے کبوتر نکلتا دیکھ کر تالیاں نہیں بجاتے بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھانے والے پر نالائق اور نااہل ہونے کے فقرے بھی کستے ہیں۔ یہ تماشائی تو اتنے ہوشیار ہیں کہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹوپی سے نکلنے والا کبوتر اپنی مرضی سے اس میں گھسا تھا نہ اپنی مرضی سے نکلا ہے۔ اس بے چارے کو کیا پتا تھا کہ ٹوپی سے نکلتے ہی بجٹ بھی بنا کر دکھانا ہوگا۔ ایسے پرکٹے کبوتر سے چھتری خالی کرانے کے لیے اب زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ تو ذرا سے اشارے پر ہی واپس ٹوپی میں گھس جائے گا۔