فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار ہونا بے شک پاکستان کی کامیابی ہے۔ موجودہ حکومت اس کامیابی کی مبارک باد تو ضرور وصول کر سکتی ہے لیکن اس کا سہرا درحقیقت تحریک انصاف کی حکومت کے سر ہی جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جولائی 2018ء میں پاکستان کو ایسے ملکوں کی فہرست میں ڈالا گیا جہاں کا مالیاتی نظام دہشت گردوں تک رقوم کی فراہمی کو مکمل طور پر نہیں روک سکتا۔ گویا تحریک انصاف کو‘ جو پاکستان ملا وہ گرے لسٹ کا پاکستان تھا اور جن اقدامات کی بنیاد پر پاکستان کو اس فہرست سے نکالا گیا وہ 31مارچ 2022ء تک لیے گئے تھے۔ یعنی عمران خان اگر یہ دعویٰ کریں کہ دراصل انہوں نے پاکستان کو اس لسٹ سے نکلوایا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی آ رہی ہے کہ پاک فوج کی نگرانی میں جو خصوصی سیل بنایا گیا تھا‘ اس نے دن رات کام کرکے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط کی پابندی کروائی اور ملک کی سبھی وزارتوں کے درمیان موافقت اور مطابقت پیدا کرکے اس مصیبت سے جان چھڑوائی۔ بہت خوب‘ کسی کو یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں ہونا چاہیے کہ جو عمران خان کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور جو کچھ پاک فوج کی طرف سے کہا جارہا ہے وہ زیادہ درست ہے۔ اس خاکسار کو اس بات سے زیادہ غرض نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی شاباش وصول کرنے والا کون ہے‘ البتہ دو سوال ہیں جو ذہن میں ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے کلبلاتے رہتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر ہم ایف اے ٹی ایف کی مشکوک فہرست میں شامل ہی کیوں ہوئے؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں مجھے 1992ء کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میں سعودی عرب سے واپسی پر کراچی ایئر پورٹ اترا۔ جیسے ہی ایئر پورٹ سے باہر نکلا تو مجھے ایسے کئی لوگوں نے گھیر لیا جن کے ہاتھوں میں ڈالر‘ ریال اور درہم تھے اور وہ چاہ رہے تھے کہ میں انہیں بیرونی کرنسی دے کر روپے لے لوں۔ چونکہ فقیر کے رختِ سفر میں کچھ تھا ہی نہیںاس لیے میں ان کے نرغے سے نکل گیا۔ ان میں سے ایک ایسا تھا جو میری ظاہری حالت سے دھوکا کھا گیا اور مجھے اسامی جان کر پیچھے ہو لیا۔ تھوڑی دور جاکر اس نے مجھے ایک سعودی ریال کا پاکستانی روپوں میں جو متبادل بتایا وہ اس سے کافی زیادہ تھا جو بینک کے ذریعے پیسے بھیجنے پر ملتا تھا۔ صحیح پوچھیں تو مجھے اس دن زندگی میں پہلی مرتبہ بلیک مارکیٹ اور چور بازار جیسی ترکیبوں کی سمجھ آئی۔ اس کے بعد میں معاشی صحافت میں آیا تو پھر بہت کچھ پتا چلا۔ یہ بھی دیکھا کہ سوئس بینکوں والے بریف کیسوں سے حکومت‘ جو معیشت کی نگران ہوا کرتی ہے‘ مصلحتاًآنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔ کراچی کے جوڑیا بازار میں ایک تاجر کے پاس میں جب بھی جاتا تو وہ اپنے ملازم کے ذریعے ڈالر منگوا رہے ہوتے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ ڈالروں کا کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے سڑک پر چلتی ہوئی ٹریفک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا: 'ایدھر تیرے کو حکومت دکھائی پڑتی ہے؟‘ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ پھر بولے: 'جیدھر حکومت نہیں وہاں یہی ہونے کا‘۔ میں اپنی نو آموزی کی وجہ سے ان کی بات پوری طرح نہیں سمجھ پایا۔ کچھ عرصے بعد پشاورکے بازاروں میں اندھا دھند کرنسی کا کاروبار دیکھا تو سمجھ آیا کہ وہ تاجر کیا فرما رہے تھے۔ اس زمانے میں افغانستان میں طالبان کی پہلی حکومت تھی اور پاکستان دنیا کے ان تین ملکوں میں سے تھا جس نے ان کی حکومت کو تسلیم کررکھا تھا۔ پشاور میں کرنسی کے حالات دیکھ کر سمجھ آیا کہ طالبان حکومت کی مدد کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ حکومت اس طرح کے معاملات میں اپنی آنکھیں مصلحتاً بند رکھے۔پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو پھر بیرونی دباؤ پر ہم نے کچھ اقدامات کیے جن میں سے ایک ملک میں بیرونی کرنسی کے نظام کو سختی سے سٹیٹ بینک کے ماتحت کرنا تھا۔ یہ قانون بنانے کے باوجود ہماری حرکتیں ٹھیک نہیں ہوئیں اور 2008ء میں ہمیں پہلی بار گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔ پہلی بار ہمیں گرے لسٹ میں اس لیے ڈالا گیا کہ ہمارے ملک کی ایک بڑی ایکسچینج کمپنی منی لانڈرنگ میں پکڑی گئی تھی اور گوجرانوالہ سے اس کا مکمل نیٹ ورک سامنے آیا تھا۔ ہم نے 2010ء تک اس معاملے پر آنیاں جانیاں دکھائیں‘ جب ہمیں گرے لسٹ سے نکالا گیا تو پھر سے وہی کام شروع ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس کا ایک اہم ملزم امریکا پہنچ گیا جہاں وہ منی لانڈرنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا مگر ہمارے ہاں کسی کو کچھ نہیں کہا گیا۔
2012ء میں ہم دوبارہ اس فہرست میں ڈالے گئے‘ اس وقت بیرون ملک رونما ہونے والے چند واقعات تھے جن کی وجہ سے یہ ہوا۔ ہم نے ایک بار پھر خود کو تھوڑا بہت سنبھالنے کی کوشش کی‘ جب کام نکل آیا تو بات پھر وہیں آن پہنچی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ ہر شہر سے ہنڈی اور حوالے کا کام شروع ہو گیا۔ ہمارے قوانین ایسے بن گئے کہ یہاں سے رشوت اور جرائم کا پیسہ بھی کسی دوسرے ملک سے ہو کر واپس آجاتا تو ہم خوش ہوکر وصول کرنے لگے۔ قانون کے اسی سقم کا فائدہ جب کچھ متشدد عناصر نے بھی اٹھانا شروع کردیا تو 2018ء میں ہمیں ایک بار پھر اسی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ اب کی بار بھی ہمارا ابتدائی خیال یہی تھا کہ دکھاوے کے لیے کچھ کرکرا کے نکل جائیں گے لیکن ہماری حرکتوں سے تنگ آکر ہمارے دوستوں نے بھی یقینی بنایا کہ ہم اب قانون سازی کرکے ہی اس میں سے نکلیں۔ ورنہ تواس فہرست میں شامل ہونے کے ایک سال بعد تک اس مسئلے کو پاکستان میں کسی نے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا۔ جب دوستوں نے بھی ٹھنڈے میٹھے انداز میں قانون سازی کا مشورہ دیا تو پھر چشمِ فلک نے یہ نظارے بھی دیکھے کہ من و عن تمام قوانین راتوں رات پاس ہونے لگے۔ حالت یہ ہوئی کہ قانون کی روشنائی نہیں سوکھتی تھی اور پارلیمنٹ سب کچھ منظور کر لیتی تھی۔ جب سارے قوانین میں وہ شمے شوشے بھی ڈال دیے گئے جو ایف اے ٹی ایف نے تجویز کیے تھے‘ تو پھر پاکستان کو اس لسٹ سے نکالنے کا عندیہ دیا گیا‘ اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھ دی کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان آکر یہاں کے مالیاتی نظام کا مکمل جائزہ لے گی تب اسے گرے لسٹ سے نکالا جائے گا۔ خوشی کی بات ہے کہ اب یہ ہو جائے گا مگر افسوس صرف یہ ہے کہ جو بات مجھے نوجوانی میں کراچی ایئرپورٹ پر سمجھ آگئی تھی‘ میری ریاست کو سمجھنے میں تیس برس لگے۔
دوسرا سوال جو مجھے تنگ کرتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ پاکستان کا گرے لسٹ میں آنا جانا لگا رہے گا یا اب اس عظیم قوم کے اکابرین خود ہی اپنی حرکتوں پر غور فرما لیں گے؟ اس سوال کے جواب میں نیک تمناؤں کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر اکابرین ماضی سے کچھ سیکھتے تو پاکستان کا 2008ء میں گرے لسٹ میں جانا کافی ہوجاتا۔ 2012ء اور 2018ء میں یہ نوبت ہی نہ آتی۔ اکابرین نے کچھ سیکھا ہوتا تو 2019ء میں پچاس ہزار سے زائد کی ادائیگی پر شناختی کارڈ کی شرط لگا کر واپس نہ لیتے۔ اکابرین کے اندر سیکھنے کی صلاحیت ہوتی تو ان کا پیسہ بریف کیسوں کے ذریعے ملک سے باہر جاتا نہ پکڑا جاتا۔ اکابرین اگر معمولی عقل سے بھی کام لیتے تو وہ کسی کے کہنے پر نہیں اپنے ملک کی خاطر نظام بہتر بناتے۔ اگر اکابرین واقعی ماضی سے کچھ سیکھ لیتے تو بلا وجہ ایک حکومت کی جگہ دوسری حکومت نہ آتی۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ ہم کچھ نہیں سیکھتے‘ میں اسی لیے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر خوش بھی ہوں اورمستقبل کے بارے میں پریشان بھی۔