پاکستان کو درپیش مسائل اور اصلاح کی راہ

اقتدار و اختیار کا مالک اللہ ہے۔کامیابی و ناکامی اور عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ جس کو چاہتا عزت دیتا،جس کو چاہتا رسوا کرتا،جس کو چاہتا زمین کا اقتدار و اختیار سونپتا اور جس کو چاہتا اقتدار و اختیار سے محروم کر دیتا ہے ۔طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں اللہ کی ذات ہے۔یہ طاقت جاہ وحشمت اور حاکمیت بندئہ مومن کے پاس اللہ کی امانت ہے۔پس کامیاب ہیں وہ جنہوں نے اس طاقت اور اختیار کو اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق استعمال کیا اور خسارے وگھاٹے میں رہے وہ جنہوں نے اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے تجاوز و انحراف کیا۔یہ وزارت عظمیٰ،یہ صدارت اور یہ امارت بظاہر خوشنما،دلربااور پائیدار نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ آزمائش،امتحان اور ناپائیدار ہیں،پاکستان میں آنے والی حالیہ تبدیلی اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ اسلام آباد کے ایوانوں میں پانچ سال براجمان رہنے والوں کا اقتدار ماضی کا حصہ بن گیا اب ان کی جگہ مسلم لیگ (ن) مسند اقتدار پر متمکن ہے۔ نئے حکمرانوں نے قوم سے بہت سے وعدے کر رکھے ہیں اور قوم نے بھی ان سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل ان گنت ہیں۔ مسائل کا ایک کوہ گراں سراٹھائے کھڑا ہے۔ قوم کو اندرونی مسائل میں سے دہشت گردی، تخریب کاری، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کاسامنا ہے۔ بیرونی سطح پر ڈرون حملے، امن کی آشا میں لپٹی بھارتی جارحیت، افغانستان کی طرف سے درپیش خطرات،پاکستان کے خلاف امریکی عناد، مسئلہ کشمیر اور دیگر اہم قومی مسائل ہیں۔ کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے صحیح تشخیص کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے کہ درست تشخیص کے بغیر کوئی حل موثر اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ بات یقین سے جان لینی اور سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل، دکھوں کا مداوا اور تمام زخموں کا مرہم صرف اور صرف نظام اسلام میں پوشیدہ ہے۔یہاں ایک تاریخی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آج کا پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش 1947ء سے پہلے ایک ہی خطہ تھا،یہاں انگریز قابض تھے اور مسلمان ٹوٹی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔بکھرے مسلمانوں کو اگر ایک لڑی میں کسی نے پرو دیا ،منتشر مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے متحد و متفق اور یک دل و یکجان کر دیا تو وہ کلمہ طیبہ ہے یہ ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیااس کے تمام مسائل کا حل، اس کا استحکام،اسکی بقا اوراسکامقدر اسلام سے وابستہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کو درپیش تمام مسائل پانی کے بلبلے کی طرح ہیں۔ ان مسائل کو تاریکی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ تاریکی کا کوئی مثبت وجود نہیں ہوتا۔ یہ صرف روشنی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ جب روشنی آ جائے تو تاریکی خودبخود ختم ہو جاتی ہے۔ سو مسائل کے حل کیلئے ہمیں اس روشنی کی ضرورت ہے جو انسانی قلوب و اذہان کو منور کرتی اور سیرت و کردار کو جلا بخشتی ہے۔ اس روشنی کا نام قرآن ہے۔ جب قرآن کو ہم اپنی عدالتوں اور اقتدار واختیار کے ایوانوں میں عملاً نافذ کریں گے تو مسائل و مصائب کے یہ بڑے بڑے پہاڑ راہ سے ہٹ جائیں گے اور سیاہ بادل چھٹ جائیں گے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی ناتدبیری مسائل کو زیادہ گھمبیر اور سنگین بنا رہی ہے۔ دانش و حکمت، فہم وفراست اور سوجھ بوجھ کا فقدان ہے۔ ترجیحات کا تعین اور سمت درست نہیں۔ دہشت گردی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے دعوے کئے جاتے ہیں مگر جو ممالک پاکستان کو خاک و خون میں نہلا رہے ،ہمارے پانیوں پر قبضہ کر کے اسے بنجر بنا رہے ،ڈرون حملے کر رہے اور دہشت گردی کا ارتکاب کر رہے ان سے محبت کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں۔ ایسے میں حالات کیوں کر درست ہو سکتے ہیںاور دہشت گردی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟ دہشت گردی کے بعد دوسرا اہم مسئلہ بجلی کا بحران ہے۔ حقیقت میں یہ بحران بھی ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور ناتدبیری کا نتیجہ ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے جس میں دریائوں اور نہروں کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بھارت ہمارے پانی پر قابض ہو رہا ہے جس وجہ سے ہمیں دن بدن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 60فیصد بجلی تھرمل یعنی فرنس آئل اور 40فیصد ہائیڈرو یعنی پانی کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ اس کے برعکس ہونا چاہیے جس وقت تک ہمارا انحصار ہائیڈرو پر رہا اس وقت تک بجلی وافر تھی اور سستی بھی۔ واضح رہے کہ گرمیوں میں ہماری بجلی کی کل کھپت 15سے 16ہزار میگاواٹ ہے جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں تیس ہزار میگا واٹ ہائیڈرو بجلی باآسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہائیڈرو بجلی کے حصول کا سستا ترین اور یقینی ذریعہ ہے۔ہائیڈرو بجلی کی پیداوار کے لیے ضروری ہے کہ بھارت سے اپنا پانی واگزار کروایا جائے۔ ہماری ترجیحات میں مسئلہ کشمیر سر فہرست ہونا چاہئے اس لئے کہ اگر ایک طرف ہماری قومی سلامتی اور ہمارے دفاع کا انحصار اس مسئلے پر ہے تو دوسری طرف بجلی بحران کا تعلق بھی مسئلہ کشمیر سے ہے۔ اگر ہمارے حکمران بجلی بحران کے حل میں سنجیدہ ہیں تو انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آخری حد تک جانا ہو گا ۔ کشمیر زمین کے تنازعے کا نام نہیں بلکہ یہ ڈیڑھ کروڑ زندہ انسانوں کے مستقبل اور ان کی موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ بانی پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔اس شہ رگ کو دشمن کے قبضہ و پنجہ سے چھڑائے بغیر آزاد ،خودمختار،باوقار اور مستحکم پاکستان کا تصور محا ل ہے۔ ریاست جموں کشمیر تاریخی، جغرافیائی، مذہبی اور لسانی اعتبار سے کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہی اس کے باوجود بھارت اس پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان اپنی تشکیل میں مکمل ہو جائے گا اور بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنی تشکیل میں مکمل ہو۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کشمیری النسل پنڈت تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے آبائی وطن کا الحاق پاکستان سے ہوچنانچہ جواہر لعل نہرو نے دھونس اور ظلم سے کام لیتے ہوئے اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیر میں داخل کر دیں حالانکہ ساری دنیا جانتی اور مانتی ہے کہ ریاست جموں کشمیر پر بھارت کا دعوی قطعی جھوٹ ہے۔ نواز شریف بھی کشمیری النسل ہیں ان کا اہل کشمیر کے ساتھ دین اور ایمان کا رشتہ ہے۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا دعوی بھی برحق ہے۔ پس ان پر لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور UNO کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر بجلی کے بحران کی کوئی کوشش موثر، نتیجہ خیز، کارگر اور کامیاب ثابت نہیں ہو سکتی۔ نئی حکومت کو ایک اہم مسئلہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے درپیش ہے۔ کچھ دن پہلے میاں محمدنواز شریف کا اس حوالے سے ایک بیان اخبارات میں شائع ہو چکا ہے کہ ہمیں امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ غالباً اس بیان سے ان کا اشارہ اپنے دو پہلے ادوار حکومت کی طرف ہے۔ میاں نواز شریف کے دونوں ادوار کا دورانیہ تقریباً پانچ برس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ صرف پانچ برس پر محیط ہے۔ ایوب خان کا امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ساڑھے دس برس پر محیط تھا۔اس عرصہ میں ایوب خان کو امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے جو تلخ وترش تجربات حاصل ہوئے اسکی تفصیلات ان کی کتاب ’’Friends Not Master‘‘میں موجود ہیں۔ایوب خا ن نے اپنی اس کتاب میں پاکستان کے ساتھ امریکی وعدہ خلافیوں ،عہد شکنیوں اور کہہ مکرنیوں سے خوب پرد ہ اٹھایا ہے۔ بہتر ہو گا کہ میاں نواز شریف امریکہ کے ساتھ کام کا تیسری مرتبہ تجربہ حاصل کرنے سے(بقیہ صفحہ 13 پر) پہلے اس کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کا معاملہ عجیب وغریب ہے وہ ایک طرف خود کو پاکستان کا فرنٹ لائن کا اتحادی کہتا ہے دوسری طرف وہ پاکستان کو دائیں بائیں اور پچھواڑے سے بھی گھیرے ہوئے ہے اور اس کی کوشش ہے کہ پاکستان اس کے شکنجے و قبضے سے صحیح سلامت بچ کر نکل نہ سکے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان سمیت چھ ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں لیکن کیا یہ طرفہ تماشا نہیں کہ ان چھ ملکوں میں سے افغانستان میں جاری امریکی جنگ سے صرف پاکستان متاثر ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان بہانہ اور امریکہ کا اصل نشانہ پاکستان ہے۔ یہ حقیقت ضرب المثل بن چکی ہے کہ جس کا دوست امریکہ بن جائے اسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ پاکستان بھی اس وقت امریکہ دوستی کی سزا بھگت رہا ہے۔ ڈرون حملے اور اس کے ردعمل میں دہشت گردی و تخریب کاری کی وارداتیں امریکی دوستی کا ثمر ہے۔ پس ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے ملکی اور قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے۔امریکہ اس وقت ڈھلتی چھائوں اور گرتی دیوار ہے ،ڈھلتی چھائوں کسی کو سایہ نہیں دے سکتی اور گرتی دیوار کی زد میں آنے والا اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے لہذا پاکستان امریکہ کے حلقہ غلامی سے جتنا جلدی نکل آئے اتنا ہی بہتر ہے۔ نئی حکومت کو افغان پالیسی کا بھی ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان پاکستان کا دشمن نہیں دوست ہے یہ کبھی پاکستان کے لیے خطرہ نہیں رہا۔افغانستان کی پاکستان سے دوستی کا اندازہ ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے۔ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو یہ پاکستان کے لیے نہایت مشکل وقت تھا۔ اس وقت افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ تھے۔ ظاہر شاہ نے اپنے ایک خصوصی ایلچی کے ذریعے ایوب خان تک جو پیغام بھیجا وہ ایمان کی محبت میں گوندھا ہوا اورمبنی بر اسلام پاک افغان دوستی کی عمدہ مثال تھا۔ ظاہر شاہ کا پیغام تھا ’’اس مشکل وقت میں ہم پاکستان کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان سے ملحق اس کی سرحد بالکل محفوظ ہے۔ لہذا پاکستان اپنے دشمن بھارت کے ساتھ مقابلہ کے لئے مغربی سرحد سے اپنی تمام فوجیںہٹا کر مشرقی سرحد پر منتقل کر دے۔ پاکستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم اپنے برادر اسلامی ملک کو گزند پہنچانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ تھا ماضی کا افغانستان ۔اس کے بعدجب روس افغانستان پر حملہ آور ہوا تواس وقت بھی دونوں ممالک کے عوام نے نصرت و ہجرت ،ایثار وقربانی اور داد و شجاعت کی شاندار تاریخ رقم کی اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ روس کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ اگر آج مغربی سرحد کی طرف سے پاکستان کو کوئی خطرہ ہے تو یہ خطرہ درحقیقت افغانستان سے نہیں بلکہ امریکہ سے ہے۔اس خطرے کا محرک امریکہ ہے۔ جہاں تک افغان عوام کا تعلق ہے وہ پہلے بھی ہمارے بھائی تھے اور آج بھی ہیں۔ امریکہ یوں بھی اب افغانستان میں حالت نزع میں ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے لہذا ضروری ہے کہ افغان عوام کے ساتھ محبت و مودت کے رشتے نئے سرے سے استوار کئے جائیں۔ نواز شریف گیارہ مئی کے بعد سے اب تک کئی بار معاشی دھماکہ کرنے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں وہ کہتے ہیں پہلے ہم نے ایٹمی دھماکے کئے اب ہم معاشی دھماکے کریں گے،معاشی دھماکے کرنے کا عزم خوش آئند ہے۔ ملک کی معاشی حالت واقعی دگرگوں اور ابتر ہے۔ معاشی دھماکہ کرنے سے پہلے میاں نواز شریف کوتھوڑا ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھ لینا چاہئے کہ پاکستان کو ایٹم بنانے کی ضرورت کیوںپیش آئی۔پاکستان کا ایٹم بم بنانا اور28مئی 1999کو دھماکے کرنا ‘یہ سب بھارت کے جنگی جنون کا رد عمل تھا۔ پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں سے لالے کے ہوش ٹھکانے آ گئے تاہم اسکے پاکستان دشمنی کے جنون میں اب بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جس کا سب سے بڑا ثبوت بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل اور بڑھتی ہوئی آبی جارحیت ہے۔ان حالات میں اگر میاں نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر ،اس کے ساتھ اعتماد و پیاراور محبت و دوستی کی پینگیں بڑھا کر معاشی دھماکہ کر لیں گے تو: ایں خیال است ومحال است وجنوں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا،اسکے ساتھ تجارتی رشتے استوارکرنا پاکستان کے لئے سراسر گھاٹے اور نقصان کا سودا ہے۔گزشتہ پانچ سال کی تجارت سے بھارت پاکستان پر پانچ گنا حاوی ہو چکا ہے اور پاکستان اس تجارت میں اکتالیس ار ب کا نقصان اٹھا چکا ہے دریں صورت میاں نواز شریف کوا چھی طرح جان لینا چاہئے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کر کے وہ جو بھی معاشی دھماکہ کریں گے وہ معاشی نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی سالمیت اور عزت و غیرت کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھماکہ ہو گا۔اللہ نہ کرے پاکستان کو کسی ایسی مشکل صورتحال سے دو چار ہونا پڑے۔ نئی حکومت کو بالعموم اسلامی دنیا اور بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے چاہئیں اس لئے کہ سعودی عرب پاکستان کا آزمودہ دوست ہے۔ اس کی دوستی ہمیشہ اغراض و مفادات سے بالاتر رہی ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارا دین وایمان کا رشتہ بھی ہے جو تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط اور پختہ تر ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہمیشہ مثالی تعلقات رہے ہیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ دور حکومت میں ان تعلقات میں خلیج در آئی تھی اب اس خلیج کوپاٹنے کی ضرورت ہے ۔اسی طرح چین بھی پاکستان کا مخلص دوست ہے خطے میں طاقت کا توازن بہتر بنانے کے لئے چین کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا وقت کی ضرورت ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں