ریاست جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کا سیاہ دن

تحریک آزادی کشمیر کے بہت سے پہلو ابھی تک پردہ اخفا میں ہیں اور کچھ پہلو ایسے ہیں جن پرکماحقہ لکھا نہیں گیا ۔ ان میں سے ایک پہلو 27اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں کشمیر پر کیا جانے والا بھارتی حملہ ہے ۔ لوگ بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ 27اکتوبر کو بھارت نے ریاست جموں کشمیر پر حملہ کیااور اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔تاریخی حقائق کے تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ 27اکتوبر کو ریاست پر حملہ صرف بھارتی فوج نے ہی نہیں بلکہ بھارتی فوج نے برطانوی فوج سے مل کر کیا تھا ۔ اس حملہ کی نوعیت ، حقیقت اور شدت کو سمجھنے کے لئے ہمیں تھوڑا سا ماضی کی طرف پلٹنا ہو گا۔۔ 14اگست کو پاکستان قائم ہوا ، 15اگست کو بھارت نے آزادی کا اعلان کیا اور 15اگست کوہی برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کا عمل اختتام کو پہنچا ۔ پاکستان کو برٹش انڈین آرمی کی تینوں مسلح افواج کی افرادی قوت کا 36فیصد ملا اس 36فیصد کا بھی بڑا حصہ پورے ہندوستان اور اس کے علاوہ برما ، ملایا، انڈونیشیا، فلپائن وغیرہ میں بکھرا پڑا تھا۔ اس کے برعکس بھارت کو جو فوج ملی وہ تعدادمیں زیادہ، متحد ، منظم توپ خانوں، ٹینکوں ، بحری و ہوائی جہازوں سے لیس تھی ۔ متحدہ ہندوستان میں ہلکے اور بھاری اسلحہ کی 16فیکٹریاں تھیں۔ پاکستان کو اسلحہ سازی کی ایک فیکٹری بھی نہ ملی۔ جو اسلحہ ملا وہ بھی ٹوٹا پھوٹا اور ناکارہ تھا۔عسکری اعتبار سے پاکستان کو کمزور کرنے کے کئی مقاصد تھے جن میں سے ایک مقصد پاکستان کو بے دست و پا کر کے کشمیر پر قبضے کی راہ ہموار کرنا تھا۔
بھارتی فوج زمینی راستے سے 27اکتوبر سے بھی پہلے ریاست میں داخل ہو چکی تھی۔ اس مقصد کی خاطر پٹھان کوٹ کے قریب دریائے راوی پر کشتیوں کا عارضی پل بنایا گیا تھا۔ اسی طرح جموں اور کھٹوعہ کے درمیان ہنگامی طور پر پختہ سڑک تعمیر کی گئی۔ 27اکتوبر کی صبح رائل انڈین ائیرفورس کے ایک سو طیارے فوجی سامان جنگ اور رسد لے کر سری نگر کی طرف روانہ ہوئے ۔ ان کے ساتھ نجی فضائی کمپنی کے طیارے بھی تھے۔ طیاروں نے سامان رسد پہنچانے کے لئے ایک ایک دن میں کئی کئی پھیرے لگائے ۔ بھارتی جنگی وقائع نویسوں نے اس مہم کو دنیا کی جنگی تاریخ کا ایک نادر واقعہ قرار دیا ہے ۔ جب یہ طیارے سری نگر ائیرپورٹ پر اترے تو لارڈ مائونٹ بیٹن کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی ، وہ حملہ آوروں کا حوصلہ ان الفاظ میں بڑھا رہے تھے ''میں نے اپنی طویل عمر کی جنگی زندگی میں ایسی کامیاب مہم نہیں دیکھی اس مہم میں حصہ لینے والوں کو میں مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘ جب برطانوی اور بھارتی افواج ریاست پر حملہ آور ہوئیں توپاک آرمی کے پہلے انگریز کمانڈر انچیف جنرل فرینک میسوری چھٹی پر تھے اور جنرل گریسی قائم مقام کمانڈر انچیف کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
تاریخ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ جب پاکستان سخت مشکلات سے دوچار اور اپنے دفاع کے حوالے سے شدید تحفظات کا شکار تھا ایسے وقت میں پاک آرمی کے کمانڈر انچیف کا چھٹی پر چلے جانا اتفاقاً تھا یا کسی سوچی سمجھی پلاننگ کا حصہ تھا۔ بہر کیف اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح لاہو رمیں تھے انہوں نے پاک آرمی کے قائم مقام انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر کے دفاع اور حملہ آور افواج کا راستہ روکنے کا حکم دیا لیکن جنرل گریسی نے کہا '' میں اپنے سپریم کمانڈرفیلڈمارشل آکنلک کی مرضی و اجازت کے بغیر ایسا نہیں کر سکتا‘‘۔ سپریم کمانڈر کی کیفیت یہ تھی کہ وہ جارح فوج کا راستہ روکنے کی بجائے ہنگامی طور پر 28اکتوبر کو بذریعہ طیارہ لاہور پہنچے قائداعظم سے ملاقات کی اور کہا ''اگر پاکستانی فوج کشمیرمیں داخل ہو ئی تو پاکستان آرمی میں کام کرنے والا ہر انگریز افسر اور جوان قطعی طو رپر ملازمت سے علیحدگی اختیار کر لے گا‘‘۔ان حالات و واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ انگریز اور ہندو ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کے لئے کس قدر بے تاب و بے قرار تھے ۔ یہ اس لئے کہ ریاست جموں کشمیر رقبہ کے اعتبار سے ہندوستان کی دوسری بڑی لیکن جغرافیائی اعتبار سے سب سے اہم ترین ریاست تھی۔ مزید یہ کہ یہ ریاست پاکستان کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی تھی ۔ اس لئے انگریز اور ہندو ہر صورت شہ رگ کو کاٹ کر پاکستان کو بے دست وپا کرنا چاہتے تھے۔
27اکتوبر کو بھارتی فوج کا ریاست پر حملہ بہت ہی بھرپور، منظم اور سخت تھا یہ حملہ شہ رگ پاکستان کو کاٹنے اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کیلئے کیا گیادوسری طرف جنرل گریسی جارح فوج کا راستہ روکنے ، کشمیر کا دفاع کرنے اور قائداعظم کا حکم ماننے سے انکارکر چکے تھے۔ کشمیر کے اندر ڈوگرا فوج ، سکھ فوج ، بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے رضاکار مسلمانوں کا قتل عام کررہے تھے۔ کشمیری قوم کے لئے یہ ایک نہایت ہی کٹھن حالات تھے ۔ ''کشمیر ...ایک سیاسی جائزہ‘‘ کے مصنف مرزا شفیق حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :وزیرستان کے قبائل کے ایک وفد نے گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ کشمیر کے مسلمانوں کو ملیامیٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتے ، انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو بچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ چنانچہ غیور و جسور قبائل، سید احمد و شاہ اسماعیل کی تیارکردہ جماعت مجاہدین اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے وہ فوجی جو برٹش انڈین آرمی میں رہ چکے تھے سب نے دشمن کی فوج کو خاک چاٹنے اور پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہاں تک کہ سری نگر مجاہدین کے قدموں سے صرف 17میل کے فاصلے پر رہ گیا۔ سری نگر کا دفاع کرنے والے لیفٹیننٹ کرنل رائے نے اپنے تئیں ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے سری نگر سے باہر نکل کر اور بارہمولہ کی طرف آگے بڑھ کر مجاہدین کا راستہ روکنا چاہا لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کا فیصلہ دلیرانہ نہیں بلکہ احمقانہ ہے چنانچہ مجاہدین کے زوردارحملے کی تاب نہ لا تے ہوئے اس نے پٹن کی طرف پسپائی کا فیصلہ کیا ۔ اسی پسپائی کے چکر میں وہ مجاہدین کے ہاتھوں مارا گیا۔ تب جواہر لعل نہرو بھاگم بھاگ سلامتی کونسل پہنچے اور وہاں جنگ بندی کی دہائی دی ۔ نہرو کی دہائی پرجنگ بندی تو ہو گئی لیکن اس وقت تک مجاہدین ریاست جموں کشمیرکا33958مربع میل علاقہ آزاد کروا چکے تھے۔33958مربع میل خطہ کی آزادی مجاہدین کی شاندار کامیابی اور بھارت کی ایسی ناکامی تھی کہ جس پر وہ آج تک سر پیٹ رہا ہے۔
اگر آج جغرافیائی طو رپر پاکستان کا جائزہ لیا جائے ، اسلام آباد اورکہوٹہ کے نقشے پر نگاہ ڈالی جائے ،پاکستان کے خشک اور بنجر ہوتے کھیتوں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ جمو ں کشمیر کی پاکستان کے لئے کیا اہمیت ہے ۔ اس بات کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے کہ اگر جموں کشمیر کا33958مربع میل علاقہ آزاد نہ ہوا ہوتا تو پاکستان کا نقشہ کیا ہوتا...؟ تب بھارتی فوجی کوہالہ پل پر بیٹھے پاکستان میں جھانک رہے ہوتے۔ اسلام آبادموجودہ جگہ بن پاتا اور نہ کہوٹہ ایٹمی پلانٹ موجودہ جگہ پر تعمیر ہوتا ۔ اسی طرح پاکستان پانی اور بجلی کی پیداوارکے دوسرے اہم ترین منگلا ڈیم سے بھی محروم ہو جاتا۔ 
کشمیر میں جنگ بندی بھارت کی ضرورت اورمجبوری تھی لیکن پاکستان کا جنگ بندی کو تسلیم کرنا فاش غلطی تھی۔ امیر المجاہدین مولانا فضل الہی وزیر آبادیؒ نے پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کے فیصلے کوغلطیہائے عدیم المثال قرار دیا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس موقع پر کی جانے والی جنگ بندی کی غلطی کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں اس جنگ بندی کے بعد آج تک مقبوضہ جمو ں کشمیر کا ایک انچ رقبہ بھی آزاد نہیں کروایا جا سکا ۔ بات یہ ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کابھارتی قبضہ سے آزاد ہونا ازحد ضروری ہے ۔ اس لئے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہمار اجغرافیائی ہی نہیںبلکہ دین ،ایمان ،وفا اور محبت کا رشتہ ہے ۔مسئلہ کشمیر ...تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ پاکستان کی تکمیل مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کیسے آزاد ہو...؟ اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ 1947-48ء میںجس جہادی راہ پر چل کر 33958مربع میل آزاد ہوا اسی جہادی راہ پر چلنے سے باقی ماندہ کشمیر بھی آزاد ہو گا۔ ہم بھارت کے ساتھ بلاوجہ جنگ مول لینے کے حق میں نہیں لیکن اپنے حق سے دستبردار ہونا بھی آزاد قوموں کا شیوہ نہیں۔ اپنے حق سے دستبرداری ہمیشہ جارحیت اورپسپائی کو دعوت دیتی ہے ، جب ایک بار پسپائی کا سفر شروع ہو جائے تو اس کا کوئی اختتام نہیں ہوتا جبکہ جہادکا راستہ کامیابیوں، کامرانیوں اور فتوحات کے دروازے کھولتا ہے۔مسئلہ کشمیر کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے حالیہ بیانات بھی بلاشبہ جرات مندانہ ہیں لیکن بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر بیانات سے حل ہونے والا نہیں بیانات اور مذاکرات کا سلسلہ تو 67سال سے چلا رہا ہے ہم مذاکرات کے خلاف نہیں لیکن کوئی ہمیں بتائے کہ ان بیانات و مذاکرات کا ثمر کیا ہے ...؟ سوائے وقت کے ضیاع کے پاکستان کو کیا ملاہے...؟ با مقصد اور تعمیری مذاکرات کی ضمانت صرف طاقت میں ہے اور طاقت ... جہاد میں ہے ، لہٰذا کشمیر کی آزادی کے لئے ضروری ہے کہ جہاد کا راستہ اختیار کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں