رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ 18مئی 1974ء کو پاکستانی سرحد سے صرف 93میل کے فاصلے پر راجستھان میں کیا تھا۔ تب پاکستان کو دولخت ہوئے تقریباً ڈھائی سال ہو چکے تھے۔ فتح کے نشے میں چور اندرا گاندھی دوقومی نظریہ کو ہمیشہ کیلئے خلیج بنگال میں ڈبو دینے کا دعویٰ کر چکی تھیں۔ جب مشرقی پاکستان علیحدہ ہو چکا تو ایسے حالات میں یہ سوال بہت اہم تھا کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیوں اور کس لئے کیا؟ بھارت اس دھماکہ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا؟ ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ بھارت شروع سے ہی توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا حامل رہا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کی بنیاد توسیع پسندی ، جارحیت اور دہشت گردی پر رکھی گئی ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں بھارتی رہنما اور دانشور اس سے بھی آگے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بعض بھارتی رہنمائوں کا خیال ہے کہ تاریخ میں ایک ایسا وقت گزرا ہے جب ہندو سلطنت کی سرحدیں ایک طرف انڈونیشیا، ملائیشیا، سنگاپور تک اور دوسری طرف دریائے نیل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ جزیرہ عرب بھی اس میں شامل تھا۔ اس ضمن میں بھارت کے مشہور مفکر اور فلسفی پی این اوک (P N OAK) اپنی کتاب Some Blunders of Indian Historical Research کے صفحہ نمبر 231 پر لکھتے ہیں ''کسی زمانے میں ہندو مہاراجہ بکرما جیت کی سلطنت جزیرہ نمائے عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ مہاراجہ نے 58ق م میں(نعوذ باللہ) شہر مکہ میں رام کا مندر تعمیر کیا جسے بعد میں مسلمانوں کے پیغمبر (محمد ﷺ) نے خانہ کعبہ میں تبدیل کر دیا۔ ہندوئوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مکہ ان کا شہر ہے جس میں ان کے دیوتا کا مندر تھا۔ لہذا ضروری ہے کہ ہندو اس مندر کو دوبارہ واپس حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
جہاں تک بھارتی رہنمائوں کے فعل ، عمل اور کردار کا تعلق ہے اس سے بھی ان کے توسیع پسندانہ مہم جویانہ اور متشددانہ عزائم کی تائید وتوثیق ہوتی ہے۔ مثلاً حیدرآباد دکن، جوناگڑھ، مناودر کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ، بھوٹان اور سکم پر چڑھائی، 1962ء میں چین میں گھسنے کی کوشش، پاکستان کے ساتھ تین جنگیں، مشرقی پاکستان میں کھلی مداخلت‘ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی صرف چند ایک مثالیں ہیں۔
18مئی 1974ء اور پھر 11مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکے، ایٹمی میزائل سازی، مہنگے و تباہ کن اسلحہ کے انبار و ذخائر سب اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اسلحہ کے یہ انبار و ذخائر پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کی خیرسگالی و خوشحالی کے لئے نہیں بلکہ ان کو بربادی و بدحالی سے دوچار کرنے کیلئے جمع کئے گئے ہیں۔جبکہ پاکستان کی اسلحہ سازی اور ایٹمی پروگرام صرف اور صرف اپنی بقاو دفاع کیلئے ہے اور دو وجوہات کی بنا پر پاکستان کیلئے ازحد ضروری ہے۔
اولاً اکھنڈ بھارت بھارتی حکمرانوں کا مذہبی، حکومتی اور عسکری جنون و ایجنڈا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے پاکستان کے بارے میں آج بھی وہی عزائم و ارادے ہیں جو 1947ء یا 1971ء کے موقع پر تھے۔ انہوں نے صرف پینترا اور طریقہ واردات بدلا ہے ورنہ ان کی پاکستان دشمنی کے جنون میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
ثانیاً پاکستان ترقی پذیر ملک اور توانائی بحران کا شکار ہے۔ ایٹمی توانائی کو بروئے کار لا کر ہم دفاع اور توانائی کے ان تمام مسائل سے بطریق احسن عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف اور صرف اپنے دفاع وبقاء اورتوانائی بحران کی ضروریات پورا کرنے کے لئے ہے۔ پاکستان نے اپنے دفاع کی خاطر ہی 28 مئی1998ء کو ایٹمی دھما کے کئے۔
28مئی... یوم تکبیر کے نام سے موسوم ہے۔اس لئے یہ بہت عظیم دن ہے۔ تکبیر... کا مطلب ہے ... اللہ اکبر... یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔
تکبیر اللہ کی وحدانیت وعظمت، کبریائی و بڑائی کا اظہار و اقرار اپنی کم مائیگی و بے بضاعتی کا اعتراف ہے۔
تکبیر اللہ سے رشتہ و تعلق جوڑنے اور غیر اللہ سے رابطہ و ناتا توڑنے کا نام ہے۔ مسلمان اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہتھیار‘ خود کوئی طاقت نہیں۔ اصل طاقت خالق ارض وسما کی ہے۔
جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے وزراء کا لب ولہجہ، گفتار و کردار اور اندازواطوار ہی بدل گئے تھے۔ بھارتی رہنمائوں کی پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی حد سے بڑھ گئی۔
بھارتی حکمرانوں کا جوش انتقام اور غیظ وغضب اس حد تک بڑھا کہ سیاچن اور ایل او سی پر بڑے پیمانے پر کارروائی کی خبریں آنے لگیں، یہاں تک کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کہوٹہ ایٹمی پلانٹ) پر بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ حملہ کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں۔ یہ تھا 1998ء کے بی جے پی کے بھارت کا منظر‘ جو پاکستان دشمنی کے جذبات سے ابل رہا تھا۔ پاکستان نے سر جھکانے کی بجائے سر اٹھا کر اور ذلت کی بجائے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ 5ایٹمی ھماکے کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور عالم اسلام کو شادمانی و کامرانی سے سرشار کر دیا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ہی بھارتی حکمرانوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور واجپائی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ہم پاکستان کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکہ اس خطے میں آیا تو اس کے بعد امریکی کھونٹی سے بندھا بھارت ایک بار پھر اچھل کود کر رہا ہے۔ بی جے پی ایک بار پھر اقتدار میں آچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھارت ایک بار پھر سولہ سالہ پرانی روش اور پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
دشمنی، تخریب کاری، دہشت گردی، آبی جارحیت مقبوضہ جموں کشمیر میں مظالم کی انتہا ، ایل اوسی پر پختہ مورچے، بنکر، خاردار تاریں، آہنی باڑیں، اور اب ''را‘‘ اور بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کی طرف سے پاکستان میں اعلانیہ دہشت گردی۔ یہ ہے بھارت کی طرف سے پاکستانی محبتوں کا جواب۔
بی جے پی جہاں پاکستان کے بارے میں سخت گیر موقف رکھتی ہے وہاں مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے، شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے اور دنیا بھر کے ہندوئوں کو بھارت میں لا کر بسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان حالات میں ہم وزیر اعظم میاں نواز شریف سے کہیں گے کہ وہ بھارت کے حوالے سے اپنی حکومت کی ترجیحات اور خارجہ پالیسی کا ازسرنو تعین کریں۔ خوش گمانی اچھی بات ہے لیکن خوش فہمی انسان کو لے ڈوبتی ہے۔قوموں اور ملکوں کے معاملات و معاہدات میں خوش فہمی... اکثر بے رحم، تباہ کن، سفاک اور المناک انجام پر منتج ہوتی ہے۔
28مئی 1998ء کو ہمارا ملک عزت، عظمت، قدرومنزلت ، اور قوت و طاقت کے اعتبار سے افلاک کی رفعتوں اور بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ ہم اپنے حکمرانوں سے کہیں گے کہ وہ اب اپنے موجودہ سفر کا آغاز 28مئی کے اسی پروقار اور باصفا دن سے کریں اور پاکستان کو دوبارہ اس کی عزت و عظمت سے واپس لوٹائیں۔ 28مئی 1998ء کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی تان جن امور ومعاملات پر ٹوٹی ان میں ایک مسئلہ کشمیر تھا۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جب نئے سرے سے پاکستان پر ایٹمی ہتھیار تلف کرنے اور ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدوں میں شریک ہونے کیلئے دبائو ڈالا جانے لگا تو اس وقت ہمارے حکمرانوں نے نہایت دانشمندی سے کام لیتے ہوئے جوہری تجربات کی ممانعت کے سمجھوتے (CTBT) پر دستخطوں کے مسئلہ کو بھارت کے دستخط کرنے کی شرط سے ہٹا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں وضاحت یہ پیش کی گئی تھی کہ جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا تو دونوں ملکوں میں سے کسی کو بھی ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اس جاندار، شاندار، دوٹوک اور مبنی برحقیقت موقف سے بھارت بوکھلا گیا تھا۔مسئلہ کشمیر پر اب بھی ایسے ہی مضبوط اور واضح موقف کی ضرورت ہے ۔ اس لئے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس کے بغیر آزاد، خودمختار اور مستحکم پاکستان کا تصور محال ہے۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس وقت اہل کشمیر نے بھی خوشیاں منائی تھیں۔اہل کشمیرآ ج بھی پاکستان کے نام پر جی،پاکستان کے نام پر شہید اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پاکستان کے پرچم کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ 28مئی کی مناسبت سے ہم بھی سلام پیش کرتے ہیں اپنے قائدسید علی گیلانی، سیدشبیرشاہ،میرواعظ عمر فاروق،مسرت عالم بٹ،یاسین ملک،محترمہ آسیہ اندرابی اور حریت کانفرنس کے دیگر قائدین وکارکنان کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم آپ کے ساتھ ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں