ماضی شان دار، حال زار زار!

آج امت مسلمہ کے خون سے دھرتی کا سینہ سرخ اور مظلومین کی میتوں سے قبروں بلکہ اجتماعی قبروں کا ایک جنگل وجود میں آگیا ہے۔یہود وہنود اور صہیونی وصلیبی ساہوکاروں نے اپنا کاروبار خوب چمکا لیا ہے۔ اسلحہ ان کا بکتا ہے اور مسلمان کے ہاتھوں مسلمان ہی کا خون گرتا ہے۔ سودی کاروبار کے ذریعے عالم اسلام اور تیسری دنیا کو عالمی ساہوکاروں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اپنی اصل سے کٹ گئی ہے اور سراب کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ قیادت کا فقدان ہے اور کرپشن کی فراوانی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں قدم رکھا تو وہاں بھی معیشت اور اسلحہ سازی پر یہود کی اجارہ داری تھی۔ یہود کے تین بڑے قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ یہاں آباد تھے۔ ہرایک اپنی خباثت میں اپنی مثال آپ تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرنے کے باوجود یہ آپؐ کے خلاف ہرسازش کا حصہ بن جاتے تھے۔ ان قبائل میں سے دو کو ان کے اعمالِ بد اور بے وفائی وعہدشکنی کی وجہ سے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے مدینے سے نکال باہر کیا، جبکہ تیسرا قبیلہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تہہ تیغ کردیا گیا۔ 
سب سے پہلے بنوقینقاع کو مدینہ سے جلا وطن ہونا پڑا۔ یہ قبیلہ بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ ایک تو ان کے پاس صنعت و حرفت تھی، دوسرے زرخیز زمینیں اور سر سبز باغات۔ ان لوگوں کی صنعت زرگری اور آہن گری تھی۔ گویا سنار کا نفع بخش پیشہ اور من مانا نفع ان کو مال دار بنانے کاذریعہ تھا۔ زیو ر سازی کی وجہ سے اکثر و بیش تر خواتین ان کی دکانوں اور زرگری کے مراکز پر آتیں تو یہ اپنی فطری خباثت کے مطابق ان کے بارے میں بہت عجیب و غریب ،بعض اوقات تکلیف دہ تبصرے کرتے۔ اس کے ساتھ آہن گر ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا اسلحہ بنانے میں انھوں نے مہارت حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں وہ اوس وخزرج کے درمیان ہر قبائلی جنگ کے موقع پر اپنے اسلحے کی من مانی قیمت وصول کرتے اور اپنی تجوریاں بھر لیتے۔ ساتھ ہی انھوں نے پورے عرب میں اپنی دھاک یہ کہہ کر بٹھا رکھی تھی کہ ہم اپنے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے اپنے پاس ایسا اسلحہ رکھتے ہیں جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ آمدنی اور نفع کے یہ دو ذرائع تو تھے ہی، اس کے ساتھ اس قبیلے کو اپنی زمینوں سے بھی اچھی خاصی پیداوار مل جاتی تھی اور پھر سب سے بڑا ذریعہ سودی کاروبار تھا۔ 
ان تمام اسباب کی وجہ سے بنو قینقاع کے ذہنوں میں یہ خناس سما گیا تھا کہ کوئی قوت ان کا بال بیکا نہیں کرسکتی اور اگر کوئی ان سے ٹکرائے گا تو پاش پاش ہو جائے گا۔ اسلام کی آمد سے قبل ان کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جب کسی مقروض نے قرض اور سود کی رقم بروقت ادا نہ کی تو ان ظالموں نے ان کی خواتین اور بچوں تک کو رہن رکھ لیا۔ ہندو ساہو کاروں کے بھی یہی لچھن تھے بلکہ آج کل بھی ایسی خبریںمنظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ہنود اور یہود آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد اور ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ اسلام دشمنی، سود خوری، مکرو فریب اور گائے پرستی دونوں کی مشترک اقدار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اے ایف پی نے لکھنؤ سے ایک رپورٹ دی تھی، جس کے مطابق شمالی بھارت کے علاقے بندیل کھنڈ میں غریب کاشت کاروں نے ہندو ساہوکاروں کا قرض اور سود ادا کرنے میں ناکامی پر مجبوراً اپنی بیویاں ان کے ہاں گروی رکھ دی ہیں۔ یہ خبر ایک انگریزی کی روزنامہ 9ستمبر 2009ء کی اشاعت میں چھپی تھی۔ اس کے مطابق ایک سوشل ورکر منوج کمار نے بتایا کہ انڈیا میں چھوٹے درجے کے کاشت کاروں کو بنک نہ تو قرضے دیتے ہیں، نہ ان کے اکائونٹ کھولتے ہیں۔ یہ لوگ مجبوراً پرائیویٹ ہندو ساہوکاروں سے رجوع کرتے ہیں اور وہ انھیں اپنی من مانی شرائط پر پیسے دیتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے اس علاقے میں قحط کی کیفیت رہی ہے، اس کے نتیجے میں کاشت کاروں کے پاس اب اور کوئی چارۂ کار نہیں رہ گیا تھا کہ وہ دمڑی کے بدلے چمڑی پیش کردیں۔ اس کے نتیجے میں یہ ننگِ انسانیت عمل جاری و ساری ہے کہ غریب کاشت کاروں کی بیویاں (بعض اوقات جوان بیٹیاں) ان ساہوکاروں کے قبضے میں چلی جاتی ہیں۔ 
تمام مورخین نے دورِ نبویؐ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ 2 ھ کے ماہِ شوال میں ایک مسلمان خاتون ایک یہودی کی دکان پر کوئی سودا سلف خریدنے گئی۔ کچھ یہودی اوباش نوجوان اس موقع پر جمع ہوگئے اور اس بنتِ اسلام کی عزت پر حملہ کرنا چاہا۔ اس نے مزاحمت کی تو اس کے کپڑے پھاڑ دیے اور وہ بازار میں نیم عریاں ہوگئی۔ ایک مسلمان اتفاق سے اس وقت بازار میں موجود تھا۔ اس کی غیرت ایمانی کو گوارانہ ہوا کہ اس کی ایک بہن کی عزت پر حملہ ہو اور وہ اس واقعہ کی رپورٹ کرنے کے لیے خاموشی سے چلاجائے۔ اگر چہ وہ تنہا تھا مگر اس نے اس دکان دارپر، جو اس وقوعہ کا اصلی کردار تھا، حملہ کرکے اسے جہنم و اصل کر دیا۔ اس واقعہ کو دیکھتے ہی تمام یہودی اس مسلمان پر پل پڑے مگراس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ نتیجتاً اسے جامِ شہادت نوش کرنا پڑا۔ یہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ اس میں ہر لحاظ سے زیادتی یہودیوں کی تھی۔ وہ جرم پر جرم کیے چلے جارہے تھے، اس کے باوجود نبی اکرمؐ نے بڑے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اس مسئلے کو نمٹانے کے لیے آپؐ چند صحابہؓ کے ساتھ خود چل کر یہودیوں کے اس محلے میں گئے۔ ظاہر ہے جو کیس وقوع پذیر ہوگیا تھا اس کا فیصلہ تو ہونا ہی تھا مگر مزید قتل و غارت گری اور خون خرابے سے روکنے کے لیے آپؐ نے انھیں پُر امن رہنے کی تلقین بھی فرمائی۔ اپنے جرم پر نادم ہونے کے بجائے وہ بدبخت آنحضورؐ کی شان میں بھی گستاخی اور بد زبانی کے مرتکب ہوئے۔ اب نبی اکرمؐ نے باقاعدہ اعلان کرکے ان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
بنو قینقاع کی مسلسل خباثتوں کی وجہ سے اب جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ غزوۂ بدر کے بعد نبی اکرمؐ نے انھیں نوٹس دیا جس میں مسلمان خاتون کی بے حرمتی، ایک مسلمان کا قتل اور پھر آنحضورؐ مصالحانہ کاوشوں کے جواب میں الٹا یہود کی بد کلامی و بد تمیزی، ان کی فرد ِجرم کے اہم حصے تھے۔ سنجیدگی سے سوچنے کی بجائے یہودیوں نے اسے مذاق میں اڑا دیا۔ پس نبی اکرمؐ نے 15شوال 2ھ کو فیصلہ کیا کہ اب اس ناسور کا کام تمام کر دیا جائے۔ جب ان لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے تئیں بڑی تیاریاں کیں اور یہ بڑ بھی ہانکی کہ عرب کے مشرک قبائل تو جنگ لڑنا جانتے نہیں تھے‘ ہمارے مقابلے پر یہ لوگ آئیں گے تو انھیں پتہ چلے گا کہ مردانِ میدان کس طرح جنگ کا حق اد اکرتے ہیں۔ نبی اکرمؐ نے حضرت ابو لبابہؓ بن عبد المنذر انصاری کو مدینہ میں قائم مقام مقرر کیا اور خود صحابہؓ کی ایک فوج لے کر قبیلہ بنو قینقاع کی طرف پیش قدمی کی۔ حضرت حمزہؓ کے ہاتھ میں عَلَمِ نبوی تھا۔ یہودیوں نے جب یہ علمِ اور مجاہدین کا دستہ دیکھا تو ان کی ساری ڈینگیں کافور ہوگئیں۔ چھتوں پر کھڑی عورتیں بھی خوف زدہ ہوگئیں اور جنگی سورمائوں کی بھی ہوا اکھڑ گئی۔ یہ ایسی جنگ ہے کہ جس کا فیصلہ قتل ومقاتلے کے بغیر ہوا اور جس کے واقعات بھی تاریخ میں بہت مختصر ہیں۔ اگرچہ بعض یہودیوں نے اپنے قبیلے کے سرداروں کو ناصحانہ مشورہ دیا کہ جنگ ان کے بس میں نہیں لیکن سرکش سرداروں نے مقابلے کی ٹھانی۔ آنحضورؐ نے حکم دیا کہ ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا جائے۔ یہ محاصرہ کم و بیش دو ہفتے جاری رہا۔ 
اب یہودیوں کو احساس ہوا کہ وہ ''نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ کی صورتِ حال سے دوچار ہوگئے ہیں تو انھوں نے آنحضورؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ان کا خیال تھا کہ اب ان سے سخت انتقام لیا جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے آنحضورؐ کے سامنے درخواست پیش کی کہ آپ ہمارے مال و جائیداد میں سے جو چیز چاہیں، اپنے قبضے میں لے لیں اور ہماری اور ہمارے بال بچوں کی جان بخشی کر دیں۔ ہم رضا کارانہ طور پر یہاں سے نقل مکانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگرچہ یہ یہودی اپنے جرائم کی وجہ سے اور تورات کے جنگی احکام کی رو سے عام معافی کے مستحق نہیں تھے مگر آنحضورؐ نے اپنی دائمی رحمت اور عفوودرگزر کی وسعت کے عین مطابق ان کی جان بخشی کی اور مدینہ سے جلاوطنی کا حکم دے دیا۔ آج ہم اسی نبی مہربانؐ کا کلمہ پڑھتے ہیں، مگر ان کی تعلیمات سے لاتعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہود وہنود اور صلیبی اور صہیونی ہم پر مسلط ہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین ہمارے گھر، کھیت کھلیان اور باغات سے دشمن ہمیں محروم کرکے غاصبانہ قبضہ کرلیتے ہیں۔ اس پستی سے نکلنے کے لیے اپنی اصل کی طرف رجوع کرنے اور تبدیلیٔ قیادت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں