نبی اکرم ﷺ تمام خوبیوں کا مرقع تھے۔ حلم و بردباری، صبر و استقامت، عفو و درگزر، جرأت و صلابت، جود و سخا، ذہانت و ذکا اور سخت اشتعال انگیز صورتِ حال میں اپنے مقام رفیع کے مطابق تحمل و برداشت جیسی خصوصیات آپ ﷺ ہی کی جامع شخصیت میں نظر آسکتی ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی میں حدیبیہ کا معاہدہ ایک بہت ہی اہم اور نازک مرحلہ تھا۔ معاہدے کی شرائط بظاہر کفار کے حق میں اور اہلِ اسلام کے خلاف نظر آتی تھیں۔ وہیں سے عمرہ کیے بغیر واپس چلے جانا بھی صحابہ کے دل کو ناگوار گزر رہا تھا مگر اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات تو یہ تھی کہ ابوجندلؓ جو مکہ میں قبولِ اسلام کی پاداش میں زنجیروں میں جکڑے گئے تھے، کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے حدیبیہ آپہنچے اور آپﷺ کے قدموں میں گرگئے۔ اس وقت تک آپﷺ معاہدہ کرچکے تھے جس کے مطابق مکہ سے مسلمان ہوکر مدینہ آنے والوں کو واپس بھیجنے کی شرط طے پاگئی تھی۔ ابوجندلؓ کو جب واپس کیا جا رہا تھا تو صحابہ کے دلوں پر آرے چل رہے تھے مگر سوچیے کہ دشمنوں کی تکلیف پر بھی بے چین ہو جانے والے رحمۃ للعالمین ﷺ کے دل کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس کے باوجود آپﷺ نے معاہدے کی پابندی کی اور اپنے جاں نثار ابوجندلؓ کو اللہ کی حفاظت میں دے کر شفقت و پیار کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ یہ سب واقعات ہر صاحبِ علم کو تفصیلاً معلوم ہیں۔
اس طرح بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ مسلمانوں نے دب کر معاہدے کی شرائط مان لی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے اسے فتح مبین قرار دیا تو واقعی یہ فتح مبین ثابت ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب قریش نے آنحضور ﷺ کے ساتھ معاہدہ کرکے آپﷺ کی حیثیت اور اسلامی ریاست کے وجود کو عملاً تسلیم کرلیا۔ عرب کے اس معاشرے میں یہ بہت بڑی پیش رفت تھی۔ اسی طرح سے قریش نے جنگ بندی کا جو معاہدہ کیا تو اسلامی ریاست کو جزیرہ نمائے عرب میں اپنے سب سے بڑے دشمن کی طرف سے امن میسر آگیا۔ چنانچہ اس دوران آنحضورﷺ نے اپنی قوت کو مجتمع کیااور اپنی ریاست کو مزید منظم اور مضبوط بنایا۔ اس طرح مدینہ میں کسی حد تک دشمن کے حملوں سے عام آبادی کو بھی امن و اطمینان نصیب ہوا۔ پھر نبی اکرم ﷺ نے تمام ممالک کے بادشاہوں اور ان کے ذریعے ان کی اقوام کو اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے۔ آپﷺ پوری بشریت کی طرف ہادی بنا کر مبعوث کیے گئے تھے۔ اس عرصہ میں آپﷺ نے اپنا عالمگیر فریضہ بطریق احسن ادا کیا۔
قریش اس سے قبل خود کو دین ابراہیم کا پیروکار اور بیت اللہ کا مجاور اور اجارہ دار سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اہلِ اسلام صابی (بے دین) تھے۔ اب رسمی طور پر ہی سہی اس معاہدے کے ذریعے انھوں نے مسلمانوں کو نہ صرف ایک سیاسی قوت تسلیم کرلیا بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی ان کے وجود کو ان معنوں میں تسلیم کرلیا کہ اگلے سال مسلمان اجتماعی طور پر خانہ کعبہ کا طواف اور مناسک عمرہ ادا کریں گے۔ تین دن اُن کا مکے میں جو قیام رہے گا اس میں قریش اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جائیں گے۔ اس معاہدے نے یہ بات پورے عرب میں تمام لوگوں کے دلوں میں ثبت کردی کہ اگر مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بزور قوت نکالا گیا تھا تو قریش کو بھی اس معاہدے کی بدولت اپنے گھروں سے نکلتے ہی بنی۔
ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ پچھلے طویل عرصے میں جتنی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے اس سے کہیں زیادہ اب مختصر وقت میں اسلام کی طرف رجوع کرنے لگے تھے۔ کئی قبائل جو حالات کے انتظار میں تھے اب سنجیدگی سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس عرصے میں وہ فتوحات بھی حاصل کیں، جن کے نتیجے میں اسلامی ریاست اور اس کے شہری طویل عرصے کی معاشی تنگی اور فقرو فاقہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ فتح کے یہ اثرات تو بالکل ظاہر تھے اور سب لوگوں کو نظر آرہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی قدم قدم پر اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفار کی قوت زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور مسلمان سیاسی و عسکری میدان ہی میں نہیں فکری اور نظری میدان میں بھی مسلسل آگے بڑھتے چلے گئے۔
ایک مسئلہ جو مسلمانوں کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بنا وہ ابو جندلؓ اور ان کی طرح دیگر مسلمان نوجوانوں کی مدینہ آمد پر پابندی تھی۔ قریش اسے اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے تھے لیکن یہی چیز ان کے لیے وبالِ جان بن گئی۔ ابو جندلؓ کو ان کے ساتھیوں نے بندی خانے سے نکال لیا اور یہ لوگ ایک پہاڑ پر مقیم ہوگئے۔ اسی طرح سے ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں نے بھی مکہ کے باہر ڈیرے ڈال لیے۔ یہ مدینہ کے شہری نہیں تھے اس لیے ان کے کسی عمل کی ذمہ داری بھی نبی اکرم ﷺ یاریاست مدینہ پر عاید نہیں ہوتی تھی۔ ان نوجوانوں کا وجود قریش کے تجارتی قافلوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا۔ چنانچہ خود قریش نے آنحضورﷺ سے درخواست کرکے اس شرط کو ختم کروایا اور یہ مسلمان باعزت اور آزادانہ مدینہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس شرط کی معاہدے میں شمولیت کو کافر اپنی بڑی کامیابی اور مسلمان اپنی ناکامی سمجھ رہے تھے مگر اب سب کو معلوم ہوا کہ یہ شرط عملاً اہلِ ایمان کے حق میں اور کفار کے خلاف تھی۔ فتحِ مبین کا فیصلہ خود خالقِ کائنات نے فرما دیا تھا۔ سب سے اہم بات اس وقت لوگوں کی سمجھ میں آئی جب مکہ سے مسلمان خواتین کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے مدینہ آپہنچیں۔ اس حوالے سے کئی مثالیں تاریخ میں مذکور ہیں مگر ہم اختصار کے ساتھ یہاں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ اللہ نے جسے فتح مبین قرار دیا وہ واقعی کس قدر بڑی اور واضح فتح تھی۔ جب حضرت اُمِّ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں تو ان کے بھائی صلح حدیبیہ کے معاہدے کو بنیاد بنا کر انھیں واپس لینے کے لیے آگئے۔ سورۃ الممتحنہ اس عرصے میں نازل ہوچکی تھی اور اس میں ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کو کافروں کے حوالے کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ (سورۃ الممتحنہ60:10)
اگر مسلمان انھیں یہ کہتے کہ ہمیں اللہ نے ان خواتین کو واپس کرنے سے روک دیا ہے تو کافروں کے لیے یہ دلیل کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی۔ آپﷺ نے حضرت ام کلثومؓ کے برادران سے فرمایا کہ جس معاہدے کا تم حوالہ دے رہے ہو، اس میں مردوں کا ذکر تو ہے، تمھارے سفیر نے عورتوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: کَانَ الشّرْطُ فِی الرِّجَالِ دُوْنَ النِّسَآئِ۔ پس سردارانِ قریش ناکام ہوئے اور فتح مبین یہاں بھی ظاہر ہوئی۔
حدیبیہ کا صلح نامہ طے ہونے کے بعد سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوا کہ کون لکھے۔ یہ کوئی اہم بات نہیں تھی البتہ سہیل بن عمرو نے کہا کہ اس معاہدے کو علی بن ابی طالب لکھے یا عثمان بن عفان۔ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علیؓ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انھوں نے معاہدے کے آغاز میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا تو سہیل بن عمرو نے رحمان کے لفظ پر اعتراض کیا۔ قریش کے لوگ اللہ کے صفاتی نام رحمان کو نہ جانتے تھے نہ مانتے تھے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اُسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔(الفرقان25:60)
آنحضورﷺ نے سہیل سے پوچھا کہ کیا لکھا جائے تو اس نے کہا: بِسْمِکَ اللّٰھُمَّ لکھیں۔ چنانچہ یہی الفاظ لکھے گئے۔ اسی طرح جب یہ لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے تو سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ ہم تو ان کو رسول اللہ نہیں مانتے ۔ حضرت علیؓ کے لیے بڑا مشکل تھا کہ وہ اپنے قلم سے رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیں۔ چنانچہ آنحضور ﷺ نے خود قلم پکڑ کر ان الفاظ پر پھیر دیا اور فرمایا کہ لکھو یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبد اللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے۔
اللہ رب العالمین نے اس پورے واقعہ اور معاہدہ کا تذکرہ کرنے کے بعد خود اپنی گواہی اور شہادت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔ سورۃ الفتح میں نہ صرف آنحضور ﷺکی رسالت پر اللہ نے شہادت دی ہے بلکہ آپﷺ کے جاں نثار صحابہ کی بھی تعریف و تائید کی ہے۔ صحابہ کرامؓ واقعی سیرت رسولﷺ کا عکس تھے۔ ہمارے لیے بھی وہی روشنی کے مینار ہیں۔ آج ہم فتح مبین کے متمنی تو ہیں مگر نہ وہ ایمان و ایقان ہے، نہ وہ اخلاص و اطاعت جو صحابہ کی پہچان تھی۔ پھر تمنا کیسے پوری ہو؟ اللہ ہمیں صحابہ کرامؓکی روشن زندگیوں کو اپنانے کی توفیق بخشے۔