(اخلاقی اور تربیتی پہلو)
جیسا کہ پچھلے مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں اسیران جنگ بدر کے دل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر اور مدینہ کے درمیان سفر کے دوران جیت لیے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوچ یہ تھی کہ ان موثر لوگوں کو اسلام کی آغوش میں لایا جائے تاکہ یہ اسلام کی مضبوطی کا سبب بھی بنیں اور جنت کے مستحق بھی قرار پائیں۔ آپ کی اس سوچ کے عین مطابق ان قیدیوں میں سے اٹھارہ تو وہ ہیں جو بہت تھوڑے عرصے میں مسلمان ہو کر درجۂ صحابیت پر فائز ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کا اہتمام کیا تھا اور رسولؐ خدا کے مندرجہ بالا الفاظ نے ان کے دلوں کو جیت لیا تھا۔ ان سب کے نام بھی تاریخ میں مذکور ہیں۔ (1)حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب، (2)عقیلؓ بن ابی طالب، (3)نوفل بن حارثؓ، (4)ابوالعاص بن ربیعؓ، (5)ابوعزیزبن عمیرؒؓ، (6)السائب بن ابی حبیشؓ، (7)خالد بن ہشامؓ، (8)عبداللہ بن ابی السائبؓ، (9)المطلب بن حنطب المخزومیؓ، (10)ابووداعہ الحارث بن ضبیرہؓ، (11)سائب بن عبیدؓ، (12)خالد بن اسیدؓ، (13)عبداللہؓ بن ابیّ بن خلف، (14)وہب بن عمیرؓ، (15)سہیل بن عمروؓ، (16)عبد بن زمعہؓ، (17)قیس بن السائب المخزومیؓ، (18)نسطاسؓ مولیٰ امیہ بن خلف۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کیا۔ آپ نے جنگی قیدی صحابہ کے درمیان تقسیم کردیے تھے اور انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے اپنے قیدی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں، اگرچہ خود بھوکے ہوں۔ مدینہ پہنچنے کے بعد پہلی رات کو تمام قیدی مسجد نبوی کے صحن میں رکھے گئے تھے۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ کوئی قیدی بھاگ نہ جائے، ان سب کو بیڑیاں پہنا دی گئی تھیں۔ قیدیوں کے گرد پہرے کا بھی اہتمام تھا۔ قیدیوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب بھی تھے۔ وہ جنگ میں زخمی ہوگئے تھے۔ زخموں کی وجہ سے ان کے کراہنے کی آواز حجرۂ نبوی میں سنائی دیتی تھی۔ چچا کی تکلیف نے اللہ کے نبی کوبے چین کردیا تھا۔ جنگ کی اعصاب شکن تھکاوٹ کے باوجود آپؐ کو نیند نہ آرہی تھی۔ آپ مسلسل کروٹیں بدل رہے تھے۔ ایک صحابی نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''عباس کے کراہنے کی آواز میری نیند اڑا دیتی ہے۔‘‘
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بے چینی فطری اور تقاضائے بشری کے عین مطابق تھی۔ صحابی نے آپ کی بے قراری دیکھ کر عباس بن عبدالمطلب کی بیڑیاں اتار دیں۔ تھوڑی ہی دیر میں عباس آرام کی نیند سوگئے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آواز نہ سنائی دی تو آپ نے استفسار کیا جس کے جواب میں صحابی نے ماجرا بیان کیا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یا تو سب کی بیڑیاں اتار دو یا عباس کو بھی بیڑیاں پہنا دو۔ یہ تھی مساوات محمدیؐ۔ ہمارے دور میں مساوات محمدیؐ کی اصطلاح تو کچھ لوگوں نے بہت استعمال کی، مگر جس ظلم وستم اور عدوان وبے انصافی سے انھوں نے لوگوں کے حقوق چھینے اسے دیکھ کر انسانیت سرپیٹ کر رہ گئی۔
ماہِ رمضان 2ھ میں شروع ہونے والا کفر واسلام کا معرکہ مسلسل چھ سال تک چلتا رہا۔ 8ھ میں پھر ماہِ رمضان ہی میں وہ لمحہ آیا جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی صورت میں جزیرہ نمائے عرب کے اندر اس معرکۂ حق وباطل کا آخری فیصلہ صادر فرمادیا۔ فتح مکہ محض جنگی کامیابی نہیں بلکہ نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا ہرتابندہ پہلو دیگر جہادی میدانوں کی طرح یہاں بھی انسانیت کی رہنمائی کا پورا سامان فراہم کرتا ہے۔ اس جنگ کا سبب قریش مکہ کی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کو توڑنا اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف قبیلے بنوخزاعہ کا بلااشتعال قتل عام ہے۔ معاہدے کے مطابق قبائل کو آزادی حاصل تھی کہ وہ چاہیں تو قریش کے ساتھ دوستی کرلیں اور چاہیں تو مسلمانوں کے حلیف بن جائیں۔ اصولی طور پر جو قبائل بھی کسی ایک فریق کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرتے، اس معاہدۂ صلح کے بھی پابند تھے۔ مکہ کے قرب و جوار میں رہنے والے دو قبائل بنوبکر اور بنوخزاعہ کے درمیان پرانی دشمنیاں تھیں۔ بنو بکر نے قریش کے ساتھ دوستی گانٹھ لی جبکہ بنوخزاعہ اسلام کے حلیف بن گئے۔
بنوخزاعہ شروع ہی سے حالتِ کفر و شرک میں ہونے کے باوجود، فطری طور پر آنحضورؐ کی طرف میلان رکھتے تھے۔ بنوخزاعہ معاہدے کے پابند تھے اور اس خفیہ سازش سے بے خبر بھی تھے۔ اس دوران ماہ شعبان 8ھ میں جب قریش اور بنوبکر نے بنوخزاعہ کو بے خبری میں جا دبوچنے کا فیصلہ کیا تو اس موقع پر ان کے ایک حلیف بنومدلج نے عہد شکنی سے انکار کردیا اور ان دونوں قبائل سے برأت کا اظہار کرکے الگ ہوگئے۔ واقدی کے بقول بنوخزاعہ اور بنومدلج میں بھی کسی زمانے میں لڑائی ہوئی تھی جس میں بنومدلج کے کچھ لوگ مارے گئے تھے۔ انھیں یہ عصبیت بھی یاد کرائی گئی مگر انھوں نے کہا کہ ہم معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے مغازی للواقدی ج2، ص 782-83 )
بنوخزاعہ اپنے دشمنوں کے ہاتھوں تباہی کے بعد سخت پریشانی کے عالم میں اپنے مقتولین کی تدفین اور زخمیوں کی مرہم پٹی میں مصروف تھے تاہم انھوں نے اپنے ایک ایلچی اور نمایندے عمر و بن سالم الخزاعی کو، جو اس قتل و غارت گری کے دوران اپنی بہادری اور مہارت کی وجہ سے محفوظ رہا تھا، تیز رفتار سواری کے ساتھ مدینہ بھیجا۔ مکہ میں بھی اب سردارانِ قریش کو چین نصیب نہیں تھا۔ ان کا ضمیر بھی ملامت کر رہا تھا اور تمام قبائل بھی ان کو لعن طعن کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کا علم تھا کہ محمد کریمؐ جو رؤف و حلیم ہیں، وہ اپنے حلیفوں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ یں گے اور قریش کی اپنی شرائط پر کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کو معاف نہیں کریں گے۔ آنحضورؐ کی خدمت میں بنوخزاعہ کا نمایندہ پہنچا تو اس نے دردناک اشعار کے ساتھ اپنے قبیلے پر بیتنے والی قیامت کا تذکرہ کیا۔ آنحضورؐ اور صحابہ کرام یہ سن کر بہت غم زدہ اور پریشان ہوئے۔ بنو خزاعہ میں سے کئی لوگ مسلمان بھی ہوچکے تھے۔ ان کے شاعر عمر و بن سالم نے جو فی البدیہہ اشعار کہے، ان میں اس بات کا بھی تذکرہ تھا کہ ہمارے اوپر ایسے وقت میں شب خون مارا گیا جب ہم تلاوتِ قرآن اور رکوع و سجود میں مصروف تھے۔(سیرت ابن ہشام القسم الثانی ص 394-95)
نبی اکرمؐ اور صحابہ نے یہ اشعار سنے تو بہت سے سامعین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ واقعی یہ منظر اور واقعہ ہی ایسا تھا کہ دل پسیجے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ رسولِ رحمتؐ نے یہ دردناک اشعار سننے کے بعد فرمایا یا عمرو بن سالم علینا نصرکمیعنی اے عمرو بن سالم ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمھاری مدد کریں۔ نبی اکرمؐ بڑے رحیم و شفیق تھے۔ دردناک اشعار سن کر مظلومین کے لیے آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھی آئے اور قاتلوں کے متعلق غصے کا اظہار بھی کیا۔ آپؐ مسلسل کہہ رہے تھے کہ بنوخزاعہ کی مدد کرنا میری ذمہ داری ہے۔ میں اپنا یہ فرض ضرور پورا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا: ''اگر میں بنوخزاعہ کی مدد اسی طرح نہ کروں جس طرح اپنی ذات کی مدد کرتا ہوں تو پھر میری بھی مدد نہ کی جائے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام ص395، مغازی للواقدی ج2، ص 791، البدایۃ والنہایۃ، ج1،ص840)
اتنے بڑے ظلم کے باوجود آنحضورؐ جنگ و جدال سے بچ کر معاملے کا منصفانہ حل چاہتے تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپؐ نے قریش کو پیغام بھیجا کہ وہ بنوبکر سے مقتولین کا خون بہا بنوخزاعہ کے مظلومین کو ادا کروائیں، مگر وہ اس پر تیار نہ تھے۔ اس پر آپؐ نے مکہ کا عزم کیا۔ جب آپؐ وادی مرالظہران میں پہنچے جو مکہ سے دس بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، تو آپؐ نے حکم دیا کہ اگر کسی نے روزہ رکھا ہوا ہے تو افطار کرلے۔ واقدی نے اس واقعہ کو حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت ابو سعید خدریؓ کے حوالے سے اپنی مغازی کی ج2، ص801-2 پر نقل کیا ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قدید کے مقام پر بھی ظہر اور عصر کے درمیان لوگوں کے سامنے پانی کا ایک برتن ہاتھ میں لیا، صحابہ اس وقت آپؐ کی طرف دیکھ رہے تھے، آپؐ نے اسی وقت روزہ افطار کرلیا[یہ روزہ بعد میں قضا کیا گیا]۔ قدید کا فاصلہ مکہ سے تقریباً 70 کلومیٹر ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے مرالظہران میں جب افطار کرنے کا حکم دیا تو آپؐ کو اطلاع ملی کہ کچھ لوگوں نے آپؐ کے حکم کے باوجود روزہ رکھا ہے تو آپؐ نے فرمایا اِنَّھُمْ عُصَاۃٌ (وہ لوگ نافرمان ہیں)۔ (البدایۃ والنہایۃ ج1، ص845 بحوالہ صحیح مسلم)۔ [جاری]