عالمی سفر کا ایک تلخ تجربہ

1974ء میں پہلی بار ملک سے باہر قدم رکھا۔ پھر ایک طویل عرصے تک عالمی سفر کے اس چکر نے اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ساری زندگی میں کسی بھی ائیرپورٹ پر تفتیشی عمل سے گزرنے کا کبھی تجربہ نہ ہواسوائے ایک مرتبہ کے۔ اب بیرونی سفر سے اپنی کمزور صحت کی وجہ سے احباب کی دعوت آنے پر معذرت ہی کرتا ہوں، پھر بھی ان کا اصرار جاری رہتا ہے۔ کبھی کبھار کسی مجلس میں دوست احباب پرانے سفروں کا حال پوچھنا شروع کر دیتے ہیں تو کئی دلچسپ واقعات ان کے سامنے پیش کرتا ہوں، لیکن ایک مرتبہ جو تفتیشی عمل سے گزرنا پڑا، وہ سب سے زیادہ یادگار ہے۔ ممکن ہے کئی اور ابنائے وطن کو بھی کہیں ایسی صورت حال پیش آتی رہی ہو۔ امریکہ میں تو اکثر مسافروں کے ساتھ توہین آمیز رویہ کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس لیے مدت ہوئی میں امریکی سفر سے مجتنب رہتا ہوں، حالانکہ مجھ پر ویزے کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ جس واقعہ کو آج میں یاد کر رہا ہوں، اس کا تعلق امریکہ بہادر سے نہیں برطانیہ عظمیٰ سے ہے، جو اب عظمیٰ نہیں صغریٰ ہے۔ جہاں لندن میں ایک مسلمان کے میئر بننے کے موضوع پر پوری دنیا میں دلچسپ مکالمے ، مذاکرے اور مباحث ہو رہے ہیں۔ 
میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، وہ آج سے چھ سال پرانا یعنی 2010ء کاہے۔ مجھے مانچسٹر ائیرپورٹ پر یہ تلخ تجربہ پیش آیا تھا۔ ہم پی آئی اے سے سفر کر رہے تھے اور میری فلائیٹ لاہور سے مانچسٹر تھی۔ پی آئی اے کے عملے نے جہاز کے اترنے سے قبل مسافروں کے درمیان برطانیہ کے امیگریشن فارم تقسیم کیے جو بمشکل آدھے لوگوں کو مل سکے۔ باقی لوگوں نے خود کائونٹر پر جاکر بمشکل فارم حاصل کیے۔ معلوم ہوا کہ کئی مسافر فارم پر کرنا نہیں جانتے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے رشتہ دار جو ان کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جاتے رہتے ہیں، زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ اور ان پڑھ ہوتے ہیں۔ مسافروں کی ایک بڑی تعداد برٹش شہری تھے۔ انھیں فارم پر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جہاز سے اتر کر پاکستانی نژاد برطانوی شہری تو بغیر کسی انتظار کے اپنی راہ لیتے رہے جبکہ پاکستانی شہری غیر ملکی ہونے کی حیثیت سے کافی دیر تک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہے۔ 
تین کائونٹر کام کر رہے تھے مگر مہر لگنے میں خاصا وقت صرف ہو رہا تھا۔ ہر پاسپورٹ کو بار بار الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا اور بعض مسافروں سے سیکورٹی کے لوگ بھی آکے سوال و جواب کرنے لگتے۔ میں ذہناً ہر صورتِ حال کے لیے تیار تھا کیونکہ چند سال قبل پچھلے سفر میں اسی مانچسٹر ایئرپورٹ پر مجھے ایک بڑا تلخ تجربہ ہوا تھا۔ جس روز میں پاکستان سے مانچسٹر گیا، اس روز تو بغیر کسی حیل و حجت کے پاسپورٹ پر مہر لگی اور میں سامان لینے کے لیے متعلقہ بیلٹ (Belt)پر چلا گیا۔ دو ہفتے بعد جب میں ناروے اور یورپ کے دیگر ممالک میں کچھ دنوں کے لیے گیا تو واپسی پر اسی ایئرپورٹ پہ امیگریشن کائونٹر پر ایک انڈین خاتون بیٹھی تھی۔ مجھے قطار میں کھڑے دیکھ کر ہی وہ ذرا سی دیر کے لیے اپنی سیٹ سے اٹھ کر گئی اور تھوڑی دیر بعد سیکورٹی کا ایک کارندہ اس کے پاس آکھڑا ہوا۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ میرے بارے میں کچھ مشورے ہو رہے ہیں۔ نہ ہی کبھی ایسا کوئی تجربہ زندگی بھر ہوا تھا۔ بہرحال جب اپنی باری پہ کائونٹر پر پہنچا تو خلافِ توقع امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ ایک جانب رکھ دیا اور سیکورٹی کے نوجوان کو اشارہ کیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھ کر عجیب و غریب قسم کے بے ہودہ سوال کرنے لگا۔ 
کیا آپ پاکستان کی مسلح افواج میں ملازم رہے ہیں؟ میں نے کہا کبھی نہیں۔ آپ کسی ایسی تنظیم سے وابستہ رہے ہیں کہ جو عسکریت پسند ہو؟ میں نے جواب دیا ہرگز نہیں۔ آپ کا کوئی مرکز پشاور میں ہے جس کو آپ چلا رہے ہیں؟ جواب نفی میں دیا۔ کیا آپ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سفر کرتے رہتے ہیں؟ میں نے کہا میں دنیا بھر میں سفر کرتا ہوں، آپ میرے پاسپورٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا معزز شہری ہوں، پھر بھلا پاکستان میں سفر کیوں نہ کرتا ہوں گا۔ آپ افغانستان بھی جاتے ہیں؟ میں نے کہا نیٹو فوجیں وہاں کسی کو سیر و سیاحت کے لیے جانے دیتی ہیں؟ نہیں وہاں کے عسکریت پسندوں سے آپ کے راہ و رسم ہیں؟ میں نے کہا قطعاً نہیں۔ آپ کسی سرکاری شعبے میں ملازم ہیں یا رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ایک تحقیقی ادارے میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں جو اسلامی لٹریچر تیار کرتا ہے۔ فیملی، بچے، ہر بچے کے بارے میں سوال پہ سوال، غرض بہت ہی عجیب و غریب قسم کے سوالات کرنے کے بعد وہ اٹھ گیا اور مجھے کہا کہ آپ یہیں بیٹھیے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو میرا پاسپورٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کا ایک ایک صفحہ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر کہنے لگا کہ آپ نے انگریزی کہاں سیکھی ہے؟ میں نے کہا انگریزی پاکستان میں سیکھی ہے جہاں سے میں نے پوسٹ گریجوایشن کی ہے۔ آپ کا برطانیہ آنے کا مقصد کیا ہے؟ میں نے اپنے بریف کیس میں سے یوکے اسلامک مشن کا دعوت نامہ اور شیڈول نکال کر دیا۔ اسے دیکھ کر پھر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا تو کیا آپ یہاں لیکچر دینے کے لیے آئے ہیں؟ میں نے کہا بالکل۔ آپ ہی کو کیوں دعوت دی گئی ہے؟ میں نے کہا میرے میزبانوں کا پتا اس خط پر لکھا ہوا ہے، ان سے پوچھ لیں کہ مجھے کیوں دعوت دی گئی ہے؟ 
اس سکیورٹی کارکن کے کچھ سوالات تو ایسے غیرمتعلق اور لچر تھے کہ ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس نے کہا اچھا آپ جینوئن مسافر ہیں۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ میں نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ نہیں آئوں گا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنا کام ختم کر چکا ہے اور اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس دوران مجھے ایئرپورٹ پر لینے کے لیے جو دوست آئے ہوئے تھے انھوں نے امیگریشن اور سکیورٹی حکام سے رابطہ کرکے میرے بارے میں پوچھا کہ ہمارے ایک معزز مہمان ناروے سے آ رہے تھے، انھیں مانچسٹر کی مسجد میں جمعہ کا خطاب کرنا ہے اور ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ اُن کا کیا مسئلہ بنا ہے؟ چنانچہ نیچے سے ایک خاتون اوپر آئی اور اس سکیورٹی والے سے کچھ کہہ کر چلی گئی۔ میں نے سکیورٹی افسر سے کہا کہ آپ نے میرا پون گھنٹہ ضائع کیا ہے، میں آپ کے پندرہ منٹ ضرور لوں گا۔ وہ معذرت کرنے لگا لیکن میں نے کہا میں تو ضرور آپ کا وقت لوں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ برطانیہ عظمیٰ کے ملازم ہیں اور میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے وطن کے لیے خیرسگالی بڑھانے کے بجائے اس ملک کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ سن کر اس کارنگ بدل گیا۔ میں نے کہا آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک معزز اور سینئر سٹیزن ہوں۔ قانونی ویزے پر یہاں آیا ہوں۔ آپ کے سفارت خانے نے تسلی کے بعد مجھے ویزا دیا ہے اور ایک رجسٹرڈ قانونی تنظیم کا مہمان ہوں۔ آپ نے مجھے جو ٹارچر کیا ہے وہ تو کیا ہے لیکن مجھے آپ کی ذہانت پر بھی شک ہے۔ کیا دہشت گرد اور پرامن شہری میں فرق کرنا آپ کے لیے ناممکن ہے؟ پھر میں نے کہا کہ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ اپنا نام مجھے بتائیں تو اس نے صرف اتنا بتایا ''سنی‘‘۔ 
میں نے کہا مسٹر سنی آپ کو بھارت نژاد امیگریشن لیڈی نے گمراہ کیا ہے اور میں اپنے احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ اس پر وہ معذرتیں اور تردید کرنے لگا اور اس نے کہا کہ یہ ہماری سرکاری ذمہ داریاں ہیں کیونکہ آج کل حالات بڑے خطرناک ہیں۔ بہرحال آئیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ اس دوران اس نے کائونٹر پر جاکر میرے پاسپورٹ پر مہر لگوائی۔ پاسپورٹ مجھے دیا اور میں نے کہا شکریہ، مجھے آپ کی کمپنی کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمدللہ اس مرتبہ کوئی تلخ تجربہ نہیں ہوا۔ جب میں کائونٹر پر پہنچا تو کائونٹر پر بیٹھے انگریز نوجوان نے میرا پاسپورٹ کھول کر ویزا دیکھا اور بڑے مودبانہ اور مہذبانہ طریقے سے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے وزٹ کا مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یوکے اسلامک مشن کا سالانہ (Annual) کنونشن ہو رہا ہے جس میں‘ میں ان کا مہمان مقرر ہوں۔ اس نوجوان نے مسکرا کر مجھے کہا Have a nice stay in U.K.، پھر مہر لگائی اور میرا پاسپورٹ مجھے دے دیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں