دوستوںکا اصرار اور یادداشت کا امتحان

برطانیہ کے دلچسپ تجربے کو پڑھ کر کئی دوستوں نے متوجہ کیا کہ آپ نے افریقہ میں بہت وقت گزارا ہے، وہاں کا بھی کوئی دلچسپ تجربہ ہوگا، اسے بھی بیان کریں۔ خیر افریقہ میں تو بہت دلچسپ واقعات کا ایک پورا البم ہے، البتہ سفر ہی کے حوالے سے ساؤتھ افریقہ کے شہر پورٹ الزبتھ کا ایک سفر بھی بہت یادگار ہے۔ اس سفر کا بھی کئی دوستوں سے زبانی تذکرہ ہوتا رہا۔ 1997ء میں ساؤتھ افریقہ کے سفر میں ملک بھر کے شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پورٹ الزبتھ کافی مشہور ہے۔ مئی کے کچھ دن یہاں گزرے۔ یہاں پر میرے میزبان جناب ڈاکٹر آدم دودت تھے۔ ان کا آبائی تعلق تو انڈیا (گجرات) سے تھا، مگر کئی نسلوں سے وہ یہیں مقیم تھے۔ بہترین معالج اور انتہائی نیک داعیٔ حق! ان کے بچے بسلسلہ تعلیم امریکہ اور یورپ میں مقیم تھے اور دونوں میاں بیوی ایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ فجر کی نماز کے لیے ہم گاڑی میں مسجد جاتے، یہ مسجد ڈاکٹر صاحب ہی کے زیر انتظام تھی۔6 مئی کو یہاں سے ایک مقامی ایئرلائنز کے ذریعے مجھے بلوم فونٹین جانا تھا۔ فجر کی نماز کے لیے ہم مسجد پہنچے تو دروازہ ابھی مقفل تھا۔ شاید ہم زیادہ ہی جلدی آگئے تھے۔ ہمارے پہنچتے ہی مسجد کا موذن جو افریقی مسلمان تھا،آپہنچا۔ اس نے دروازہ کھولا اوراذان دی۔ اس ماحول میں یہ اذان بلالی ہی محسوس ہوئی۔ عجیب لطف آیا۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کلمات جلیلہ کو پوری دنیا میں خصوصاً اس بلالی دنیا میں عام کردے! مسجد نہایت خوب صورت بھی تھی اور اس میں بیٹھ کر دل کو عجیب طمانیت و سکون بھی مل رہا تھا۔ 
اذان فجرکے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ انتظار کیا۔ پھر جماعت کھڑی ہوئی۔ نمازیوں کی تعداد پچیس کے قریب تھی۔ مسجد بڑی شاندار ہے مگر اس کے قرب و جوار میں زیادہ مسلمان آباد نہیں ہیں۔ خالی پلاٹوں پر مسلمانوں کے آباد ہونے کا امکان ہے جس کے بعد اس مسجد کی رونقیں دو بالا ہو جائیں گی۔ مجھے بتایا گیا کہ نماز جمعہ میں یہاں بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ بعض عناصر نے یہاں نماز جمعہ شروع کرنے کی مخالفت بھی کی مگر ان کی دال نہ گلی۔ یہاں جمعہ کے روز اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے کہ بقول ڈاکٹر دودت آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔ نماز کے بعد مختصر درس حدیث ہوا۔ کئی دوست سوال جواب کرنا چاہتے تھے مگر مجھے آج صبح ہی کمبرلی (Kimberly)براستہ فونٹین جانا تھا اس لیے یہ پروگرام مختصر ہی رہا۔ مسجد سے گھر آئے۔ میں نے جلدی سے غسل کیا۔ ڈاکٹر دودت اور ان کی اہلیہ ناشتہ لگانے لگے۔ بہت کھلا باورچی خانہ اور وسیع ڈائننگ ٹیبل اور اسی مناسبت سے میزبانوں کا دل بھی بڑا۔ میز پر اتنے انواع و اقسام کے ماکولات و مشروبات چنے گئے تھے کہ ناشتے میں گویا ظہرانہ اور عشائیہ بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ میں سفر کے دوران کھانے پینے میں خاصی احتیاط برتتا ہوں۔ آج تو مجھے پی ای (پورٹ الزبتھ) سے ایک چھوٹے ہوائی جہاز میں سفر کرنا ہے اور چھوٹے جہازوں میں میری طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ ایک جانب میری ذاتی مجبوری ہے اور دوسری جانب میرے میزبانوں کا اہتمام اور محبت، پھر اصرار اور ترغیب!
ناشتے سے فارغ ہوئے، سامان مختصر اور تیار تھا۔ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈاکٹر دودت راستے میں مختلف مقامات کا تعارف کراتے رہے۔ پی ای براعظم افریقہ کے جنوب میں خشکی کا آخری سرا ہے۔ اس سے ورے پھر سمندروں کا عظیم سلسلہ چلتا ہے۔ پی ای کے جنوب میں جو سمندر ہے وہ بحر ہند اور بحراوقیانوس کا سنگم ہے، مشرق میں جو سمندر آسٹریلیا تک پھیلتا ہوا چلا گیا ہے وہ بحر ہند ہے اور مغرب میں براعظم جنوبی امریکہ تک وسیع و عریض پانی کا سلسلہ بحراوقیانوس ہے۔ یوں یہ شہر اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہے۔ کیپ ٹائون جو پی ای کی سیدھ میں سمندر کے کنارے آباد ہے یہاں سے تقریباً سات آٹھ سو میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ رات کو پی ای کے حسن کا ایک منظر دیکھا تھا، اس وقت صبح کے خوشگوار ماحول میں ایک دوسرا خوب صورت نظارہ دامن دل کھینچ رہا تھا۔ 
ٹریفک بہت زیادہ تھی۔ لوگوں کوعلی الصبح اپنے دفاتر، تجارتی مراکز، تعلیمی اور فنی اداروں نیز بندرگاہ اور فیکٹریوں میں پہنچنا ہوتا ہے۔ سڑکیں کشادہ اور ٹریفک پولیس چوکس ہے مگر گاڑیاں بہت زیادہ ہیں۔ راستے میں ایک بڑے پلازہ کے پاس سے گزر ہوا تو ڈاکٹر دودت نے بتایا کہ ان کا ذاتی کلینک اس عمارت میں ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس علاقے میں ڈاکٹروں کے خاصے کلینک واقع ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ ایئرپورٹ کی طرف جارہے تھے مگر ڈاکٹر صاحب مجھے تسلی دے رہے تھے کہ سیٹ کنفرم ہے، جہاز چھوٹا ہے، ہم چند منٹ قبل بھی پہنچ گئے توکوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے رش سے بچنے کے لیے ایک سروس روڈ پرگاڑی ڈال دی۔ وہ چونکہ ہر راستے سے واقف تھے اس لیے ہم ایئرپورٹ آپہنچے۔ 
ڈاکٹر صاحب کو گاڑی پارک کرنے میں خاصی دشواری ہوئی۔ گاڑی سے اتر کر ہم دونوں 'چیک اِن‘ ہال کی طرف تیزی سے بڑھ گئے۔ ایک خاتون جو پارکنگ کائونٹر پر بیٹھی گاڑیوں کی پارکنگ فیس سلپس جاری کر رہی تھی ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنی ساتھی لڑکی سے کہنے لگی ''بوڑھے آدمی خاصے سمارٹ ہیں، اتھلیٹ رہے ہوں گے...‘‘ ہم سن کر محظوظ ہوئے۔ شاید ہر بوڑھا آدمی ایسی بات سن کر خوش ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ محترمہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں یا مذاق فرما رہی تھیں۔ بہرحال ہم نے اس سے کہاں تعرض کرنا تھا۔ جہاز کے وقت نے ہمیں اتھلیٹ بننے پر مجبور کر دیا تھا ورنہ ہم کہاں کے اتھلیٹ ہیں۔ 
ایئرپورٹ کا گھڑیال آٹھ بج کر پندرہ منٹ کی خبر دے رہا تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے جہاز کا ٹائم تھا۔ کائونٹر پر بیٹھی سمارٹ لڑکی ہماری طرف متجسس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پی ای کا ایئرپورٹ زیادہ مصروف نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے ٹکٹ پیش کی، مجھے بورڈنگ کارڈ ملا اور ہوائی کمپنی کی ملازم لڑکی نے کہا ''سر ایک منٹ بعد مسافروں کو کال کیا جا رہا ہے۔ میں آپ کے لیے محفوظ سفر اور بخیریت منزل پر پہنچنے کی دعا کرتی ہوں...‘‘ ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جواب میں اس کے حق میں دعا کی۔ 
میں نے ڈاکٹر آدم دودت صاحب سے الوداعی معانقہ کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہوئے جدا ہوئے۔ میں انتظار گاہ کے ایک دروازے سے ایئرپورٹ کے رن وے کی طرف روانہ ہوا۔ چند مسافر اور تھے۔ عجیب اتفاق کی بات کہ ہوا اس قدر تیز تھی جیسے آندھی، مگر نہ تو کوئی گرد وغبار تھا نہ وحشت۔ کپڑے اڑے جاتے تھے مگر اس ساحلی شہر کی یہ ہوا خوشگوار تھی۔ اس شہر کو تیز ہوائوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور لطیفہ ہوا۔ 
مجھ سے آگے ایک سفید فام نوجوان خاتون ہوائی جہاز کی طرف چلی جا رہی تھی، جہاز قریب ہی چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ خاتون کے دونوں ہاتھوں میں دو ہلکے پھلکے بیگ تھے۔ اس نے سکرٹ اگرچہ معقول حد تک لمبا پہن رکھا تھا مگر تھا سکرٹ ہی، میکسی (طویل لباس) نہ تھا۔ طوفانی ہوا اس کے ساتھ جو اٹھکیلیاں کر رہی تھی اس سے خاصی کوفت ہوئی۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور معاشرت و لباس کتنی بڑی نعمت ہے اس کا جگہ جگہ احساس ہوتا ہے۔ میں تیز قدم اٹھاتا ہوا اس خاتون سے آگے نکل گیا۔ اس نے اپنی روایات کے مطابق موسم کے بارے میں ایک آدھ جملہ کہا۔ میں نے بھی مروتاً جواب دیا۔ اس نے اگلا جملہ جو کہا تو میں چونکا۔ اس نے بھی میرے سبک رفتار ڈگ بھرنے کو اتھلیٹک سے تعبیر کیا کہ ''نوجوانی کے اچھے دنوں میں آپ اتھلیٹ رہے ہوں گے...‘‘۔ میں نے ہوں ہاں سے کام چلایا اور جہاز کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا۔ مغربی معاشرے اور یورپی اقدار کے مطابق مجھے ذرا رک جانا چاہیے تھا کہ ایسے مواقع پر ''لیڈیز فسٹ‘‘ کا اصول اپنایا جاتا ہے مگر میں نے اس وقت یہی مناسب سمجھا کہ میں جلدی سے جہاز پر سوار ہوجائوں۔ 
جہاز فوکر تھا اور اس میں غالباً چوالیس نشستیں تھیں۔ مسافروں کی کل تعداد 19 تھی جن میں چار خواتین اور 15 مرد تھے۔ پورے جہاز میں میرے اور ایئرہوسٹس کے سوا تمام لوگ سفید فام تھے۔ جہاز میں ایک ایئر ہوسٹس تھی اور ایک مرد میزبان۔ ایئرہوسٹس ہندی نسل کی تھی۔ جہاز میں کوئی افریقی سوار نہیں تھا۔ اپنے مقررہ وقت سے ایک ثانیہ کی تاخیر کے بغیر جہاز متحرک ہوا۔ رن وے پر چلتے چلتے جہاز رک گیا۔ حد نگاہ تک کھلا میدان تھا۔ لمبے چوڑے رن ویز تھے۔ کپتان نے بتایا کہ ایک دوسرا جہاز ہم سے پہلے پرواز کر رہا ہے اس لیے ہمیں چند دقیقے انتظار کرنا پڑے گا۔ وہ جہاز فضا میں بلند ہوا تو ہمارا جہاز بھی چل پڑا اور ایک آدھ منٹ میں ہم بھی آسمان کی بلندیوں کی طرف محو پرواز تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں