مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں نورِ نبوت!

غارِ حرا تیری قسمت کا کیا کہنا کہ تیری آغوش میں سراجِ منیر کا سینۂ اطہر نور قرآنی سے منور ہوا۔ جبریل امین نے سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات کریمہ محمد عربیؐ کے قلبِ مصفٰی پر القا کیں۔ پہلی وحی آنے کے فوراً بعد نبی اکرمؐ نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا تھا۔ حضور پاکﷺ کی سیرت میں یہ بات بہت معروف ہے کہ آپ نے اپنی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجہؓ سے نزول وحی کا تذکرہ فرمایا۔ انھوں نے آپؐ کی تصدیق کی۔ پھر ورقہ بن نوفل کے پاس گئے تو اس نے اپنے علم کی بنیاد پر آپؐ کی نبوت کا اقرار اور اعلان کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اے کاش اللہ اسے مہلت دیتا اور وہ مشکل لمحات میں اللہ کے نبیؐ کے شانہ بشانہ راہِ حق میں قربانیاں دیتا۔ علما و محدثین اور مفسرین و مورخین نے ورقہ بن نوفل کے بارے میں اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ اکثر نے اس کے قبول اسلام کی رائے ظاہر کی ہے۔ یہ درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ احادیث میں اس واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس میں ورقہ بن نوفل کے خیالات کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ قبول اسلام سے پیچھے رہ گئے ہوں۔ البتہ آنحضورؐکی نبوت کے بہت قلیل عرصے بعد بعض روایات کے مطابق انفرادی اور خفیہ دعوت کا کام شروع کرنے سے بھی قبل، ورقہ بن نوفل کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس لیے عمومی طور پر ان کے اظہارِ اسلام یا قبول اسلام کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں لکھا گیا۔ 
ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ سیدہ خدیجہؓ جب آپ پر ایمان لے آئیں تو اسی وقت آنحضورؐ نے اسلامی طریقے کے مطابق نماز پڑھنا شروع کر دی۔ سیدہ خدیجہؓ بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئیں۔ علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم جو آپ کے گھر میں پرورش پا رہے تھے، اس منظر کو دیکھ کر آپ سے پوچھنے لگے کہ آپ لوگ یہ کیا کررہے تھے؟ ان کے جواب میں آنحضور ؐنے فرمایا: دین اللہ الذی اصطفٰی لنفسہ، وبعث بہ رسلہ، فادعوک الی اللہ وحدہ لاشریک لہ، والی عبادتہ، وکفرٌ باللات والعزیٰ۔ یعنی یہ اللہ کا دین ہے، جس کو اللہ نے پسند فرمایا ہے۔ اللہ نے اپنے ہر رسول کو اسی دین کے ساتھ بھیجا ہے۔ تمھیں بھی میں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دیتا ہوں، وہ واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے لات وعزیٰ کی پوجا کرنے والوں کو کافر و مشرک قرار دیا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص470-471)
حضرت علیؓ اس وقت بالکل نوخیز لڑکے تھے۔ انھوں نے یہ بات سنی تو عرض کیا کہ میں پہلی بار یہ بات سن رہا ہوں۔ اس بارے میں میرے لیے اپنے طور پرکوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ میں اپنے والد ابوطالب سے اس بارے میں پوچھوںگا۔ نبی کریمؐ کے دل میں خیال گزرا کہ کہیں نوعمر علی بن ابی طالب اس راز کا لوگوں کے سامنے اظہار نہ کردیں، جسے ابھی اللہ تعالیٰ نے ظاہر کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اس لیے آپ نے ان سے فرمایا: اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں لیکن ابھی اس امر کا کہیں اظہار نہ کرنا۔ اس گفتگو کے بعد ایک رات گزری تو اگلے روز حضرت علیؓ آنحضورؐکے پاس حاضر ہوئے۔ اللہ نے ان کے دل کو اسلام کے لیے کھول دیا تھا۔ انھوں نے آتے ہی کہا: کل آپؐ نے مجھے جو بات کہی تھی وہ پھر دہرائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ وحدہ لا شریک ہے۔ ہم لات وعزیٰ کا انکار کرتے ہیں، تمام جھوٹے خداؤں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ علی بن ابی طالب نے آنحضور ؐکے پورے الفاظ اپنی زبان سے دہرائے اور اسلام میں داخل ہوگئے، مگر انھوں نے آنحضورؐ کے حکم کے مطابق اس معاملے کو خفیہ رکھا۔ انھی ایام میں آپؐ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ نے بھی بغیر کسی حیل و حجت کے اسلام قبول کرلیا۔ 
ابن کثیر بیان کرتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ صحابہؓ یعنی علی اور زید سے بھی قبل حضرت ابوبکرصدیقؓ خود آپ کے پاس آئے اور آپ سے سوال پوچھا: اے محمدؐ کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ نے فرمایا: بلیٰ انی رسول اللہ ونبیہٗ، بعثنی لِابُلِّغَ رسالتہ وادعوک الی اللہ بالحق، فواللہ انہ للحق ادعوک یا ابابکر الی اللہ وحدہٗ لا شریک لہ، ولا نعبد غیرہٗ والموالاۃ علی طاعتہ۔ یعنی ''ہاں بے شک میں اللہ کا رسول اور نبی ہوں۔ اللہ نے مجھے اپنے دین کی تبلیغ کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ اے ابوبکر میں تمھیں بھی اللہ وحدہٗ لاشریک اور اس کی اطاعت کی طرف دعوت دیتا ہوں، وہی معبود حقیقی ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور اس کی اطاعت کو ہی باہمی دوستی کی بنیاد بناتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے قرآن کی نازل شدہ آیات پڑھ کر سنائیں۔ جناب ابوبکر نے بغیر کسی سوچ بچار کے فوراً آپ کی تصدیق کی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اس عمل کی آنحضور ؐزندگی بھر تحسین فرماتے رہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص472)
نبی اکرمؐ وحی آنے سے پہلے بھی صرف اللہ وحدہٗ کی عبادت کرتے تھے۔ وحی آنے کے بعد آپؐ نے باقاعدہ رکوع وسجود کے ساتھ نماز شروع کی۔ آپؐ عموماً گھر میں نماز پڑھتے تھے لیکن بیت اللہ میں بھی تشریف لاتے اور وہاں بھی نماز پڑھتے۔ ابن کثیر نے مورخ ابن اسحاق کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے کہ کوفے کے امرا اور تجار میں سے ایک شخص یحییٰ بن عفیف مکے میں آیا۔ وہ عباس بن عبدالمطلب کا دوست تھا اور انھی کے ہاں مہمان بن کر ٹھہرا تھا۔ حضرت عباس اسے اپنے ساتھ لے کر بیت اللہ میں آئے تو ان کے مہمان نے دیکھا کہ ایک خوب صورت اور سرخ آنکھوں والا نوجوان بیت اللہ میں داخل ہوا اور خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ایک جگہ پہ جم کر کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر بعد ایک نوخیز لڑکا آیا اور اس جوان کے داہنی جانب کھڑا ہوگیا۔ پھر ایک خاتون آئی اور ان دونوں کے پیچھے آکر کھڑی ہوگئی۔ اسی دوران یحییٰ بن عفیف نے دیکھا کہ نوجوان گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھ کے جھک گیا۔ وہ لڑکا اور خاتون بھی اس کے ساتھ اسی انداز میں جھک گئے۔ پھر وہ سجدے میں چلا گیا تو انھوں نے بھی اس کے ساتھ سجدہ کیا۔ 
عباس ابن عبدالمطلب کے مہمان نے ان سے کہا: یہ بہت عظیم کام ہے تو عباس نے جواب میں کہا: واقعی یہ بہت بڑا اور عظیم کام ہے۔ عباس بن عبدالمطلب نے اس گفتگو کے بعد اپنے مہمان سے پوچھا کہ کیا تم اس خوبرو شخص کو جانتے ہو؟ تو اس نے کہا نہیں۔ عباس نے اسے بتایا کہ یہ میرے مرحوم بھائی عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا محمد ؐبن عبداللہ ہے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس لڑکے اور اس خاتون کو جانتے ہو؟ تو مہمان نے نفی میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا یہ لڑکا میرے دوسرے بھائی ابوطالب بن عبدالمطلب کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے اور یہ خاتون میرے بھتیجے محمدؐ کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ محمدؐ کا دعویٰ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ یحییٰ بن عفیف نے کہا کہ یہ تو کمال کا دین ہے۔ 
حضرت علیؓ کے قبول اسلام کی اطلاع جب ان کے والد ابوطالب کو ملی تو انھوں نے پوچھا اے علی! کیا تم مسلمان ہوگئے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یہ سن کر انھوں نے کہا اچھی بات ہے تم اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ رہو اور ان کی مدد بھی کرتے رہنا۔ ان دنوں حضرت علیؓ آنحضورؐکے گھر میں آپؐ ہی کے زیر کفالت تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی انھی دنوں مسلمان ہوئے تھے اور انھوں نے بھی آنحضورؐ کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ فرمایا کرتے تھے کہ قبول اسلام میں سبقت کے حوالے سے مردوں میں حضرت ابوبکرؓ ، عورتوں میں سیدہ خدیجہؓ، غلاموں میں جناب زید بن حارثہؓ اور بچوں میں سیدنا علی بن ابی طالبؓ کے نام ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص473)
حضرت ابوبکر صدیقؓ خود مسلمان ہوئے تو اپنے حلقۂ احباب میں بھی خاموشی کے ساتھ دعوت کا کام شروع کردیا۔ آپ کے احباب کا ایک بڑا وسیع حلقہ تھا۔ آپ سے چھوٹی عمر کے نوجوان قریشی آپ کے حسنِ خلق اور محبت کی وجہ سے آپ سے بہت مانوس تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ کی کاوش سے آنحضورؐ کے پھوپھی زاد بھائی اور سیدہ خدیجہؓ کے بھتیجے زبیر بن العوام بن خویلدؓ مسلمان ہوگئے۔ انھی کے ساتھ بنو امیہ میں سے عثمان بن عفانؓ بھی اسلام کی آغوش میں آگئے۔ ان کے علاوہ طلحہ بن عبیداللہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور عبدالرحمن بن عوفؓ کی صورت میں مکہ کا جوہر قابل دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ ان سب نوجوانوں کے ساتھ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ آنحضورؐکی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ کی مسرت دیدنی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص474)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں