نابینا صحابی کا عظیم مقام!....(2)

سورۂ عبس کی شان نزول کے بارے میں اہلِ علم کی تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ حضورﷺکو خدا کا رسول اور قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کرچکے تھے۔ دوسری طرف ابن زید آیت 3 کے الفاظ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی کا مطلب لَعَلَّہٗ یُسْلم۔ شاید کہ وہ اسلام قبول کرلے، بیان کرتے کرتے ہیں۔ (ابن جریر)۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ ارشاد بھی ہے کہ تمھیں کیا خبر شاید وہ سُدھر جائے یانصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ اور یہ کہ جو خود تمھارے پاس دوڑ کر آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت ان کے اندر طلبِ حق کا گہرا جذبہ پیدا ہوچکا تھا، وہ حضورﷺ ہی کو ہدایت کا منبع سمجھ کر آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے تھے کہ ان کی یہ طلب یہیں سے پوری ہوگی، اور یہ بات ان کی حالت سے ظاہر ہورہی تھی کہ انھیں ہدایت دی جائے تو وہ اس سے مستفید ہوں گے۔
ثالثاً:حضورﷺ کی مجلس میں جو لوگ اس وقت بیٹھے تھے، مختلف روایات میں ان کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے۔ اس فہرست میں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس زمانے میں پیش آیا تھا جب رسول اللہ ﷺکے ساتھ ان لوگوں کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی نہ بڑھی تھی کہ آپ کے ہاں ان کی آمدورفت اور آپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہوگیا ہو۔ یہ سب امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سورۃ بہت ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیان دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نابینا سے بے رخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اس سورۃ میں نبیﷺ پر عتاب فرمایا گیا ہے۔ لیکن پوری سورۃ پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عتاب کفار قریش کے ان سرداروں پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ حق کو حقارت کے ساتھ رد کررہے تھے اور حضورﷺ کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں آپ اختیار فرمارہے تھے۔ آپؐ کا ایک نابینا سے بے رخی برتنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں کو معزز اور ایک بے چارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے، اور معاذاللہ یہ کوئی کج خُلقی آپؐ کے اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ بلکہ معاملے کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی دعوت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر اس کا رُجحان اس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے بااثر لوگ اس کی دعوت قبول کرلیں تاکہ کام آسان ہوجائے، ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں میں دعوت پھیل بھی جائے تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی طرز عمل ابتدا میں رسول اللہ ﷺ نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرّک سراسر اخلاص اور دعوتِ حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگوں کی تعظیم اور چھوٹے لوگوں کی تحقیر کا تخیّل۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھایا کہ اسلامی دعوت کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے، بلکہ اس دعوت کے نقطۂ نظر سے ہر وہ انسان اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور، بے اثر، یامعذور ہو، اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ (تفہیم القرآن، ج6، ص252-250)
دونوں عظیم مفسرین حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور سیّد مودودیؒ نے اس موضوع پر نہایت پُرمغز تحریریں لکھی ہیں۔ ان کے اندر دونوں بزرگوں نے پورا پس منظر بھی بیان کیا اور آنحضورﷺ کی اسلام کو تقویت پہنچانے کی کاوشوں کا بھی احاطہ کیا ہے۔ بعض مستشرقین اور نام نہاد سکالرز وقتاً فوقتاً فتنے اٹھاتے رہتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کے خالص کلام ربانی ہونے پر ذہنوں کو الجھاؤ میں ڈالنے کی شرانگیز کوششوں کی جسارت بھی کرتے ہیں۔ یہ آیات اور ان کے علاوہ قرآن پاک کے بہت سے دیگر مقامات پر آنحضورﷺ کو اللہ رب العالمین نے جن امور پر متوجہ کیا ہے وہ اس بات کی بھی علامت ہیں کہ اللہ خود اپنے نبی ﷺ کو تربیت وتزکیہ کے مرحلوں سے گزارتا تھا۔ آپؐ کا معلّم اور مربی خود خالق کائنات ہے۔ قرآن مجید کا منزّل من اللہ ہونا، اس کے معجزنما کلام ومضامین کے علاوہ بالخصوص اس موضوع پر نازل ہونے والی آیات کی روشنی میں بالکل واضح ہے۔ اللہ رب العالمین نبی رحمت ﷺ کو کسی بات پر قرآن پاک میں متوجہ کرتے ہیں تو ساتھ آپؐ سے اپنی محبت واپنائیت اور رسولِ حق ہونے کی عظمت کو بھی واضح کردیتے ہیں۔ 
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سردارانِ قریش کی ذہنیت اور سوچ کیا تھی، وہ قرآن وحدیث میں کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ وہ آنحضورﷺ کو کئی مرتبہ پیش کش کرتے تھے کہ آپ اپنی مجلس سے کم تر اور حقیر لوگوں کو نکال دیں تو ہم آپ کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کفار اپنے تئیں بڑا سمجھتے تھے اور اہلِ ایمان بلالؓ، صہیبؓ،عمارؓ، خبابؓ اور دیگر بلند پایہ صحابہ کو کم تر جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھی مواقع پر فرمایا:اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں اور اس کی خوش نودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں (اے نبیؐ!) انھیں اپنے سے دور نہ پھینکو۔ ان کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں۔ اس پر بھی اگر تم انھیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔(الانعام6:52) ۔ نیز سورۃ الکہف میں فرمایا:اور (اے نبیؐ!) اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح وشام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے ا پنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ (الکہف18:28) 
رہا یہ سوال کہ حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓکوئی گرے پڑے آدمی تھے تو یہ انتہائی بے وزن تخیّل ہے۔ ان کا پیدایشی نابینا ہونا ایک معذوری ضرور ہے، مگر ان کا خاندانی مقام ومرتبہ کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ اسلام میں سابقون صحابہ میں ان کا نام ہے۔ ان کا خاندان قریش کے معزز گھرانوں میں سے تھا۔ انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آنحضورﷺ کے حکم سے حضرت مصعب بن عمیرؓکے ساتھ وہ بھی تعلیم وتدریسِ قرآن کا فرض ادا کرتے تھے۔ نابینا ہونے کے باوجود انتہائی بلند ہمت اور پرعزم انسان تھے۔ نبی اکرمﷺ سے کہا کہ میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم مدینہ ہی میں رہو۔ انھوں نے کہا میں اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر سورۂ النساء کی آیات نمبر95،96نازل ہوئیں۔ جن میں اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہورہے ان کو بھی اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے گا۔ اللہ نے سب مخلص اہلِ ایمان کے لیے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے۔ ابن ام مکتومؓ تو ان لوگوں میں سے ہیں جو معذور تھے، وہ بلاعذر گھر بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کو نبی اکرم ﷺ نے کم وبیش تیرہ مرتبہ مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ یہ وہ مواقع تھے جب آنحضورﷺ کسی غزوہ میں تشریف لے گئے۔ (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، اردو ترجمہ، ج2، حصہ ہفتم،مکتبہ خلیل، ص665-664)۔ 
حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓزندگی کے آخری دنوں میں عملاً قتال وجہاد میں بھی شریک ہوئے اور اپنی دیرینہ خواہش پوری کرلی۔ مورخین کے مطابق حضرت عمربن خطابؓکے دورِ خلافت14ھ میں ایران کے مقابلے پر قادسیہ کی جنگ میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ بھی شہید ہوئے۔ سالارِ لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص سے آپ نے مطالبہ کیا کہ مجھے اس سخت جنگ میں جھنڈا دے دیجیے۔ اس وقت انھوں نے زرہ پہن رکھی تھی اور انھوں نے فرمایا کہ میں ہر گز پیچھے نہیں ہٹوں گا، ویسے بھی مجھے حملہ آور نظر نہیں آرہے ہوں گے کہ میں آگے پیچھے ہوں۔ چنانچہ انھوں نے جھنڈا لیا اور اپنی جگہ پر ڈٹ گئے۔ اس معرکے میں وہ شہید ہوئے۔ سیکڑوں دیگر صحابہ بھی ان کے ساتھ شہید ہوئے۔ شہادت کے بعد دیکھا گیا کہ انھوں نے جھنڈا نہایت ہی مضبوطی کے ساتھ پکڑ رکھا تھا۔ تیسرے دن مسلمان فوج نے شاندار فتح پائی اور اسی روز حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم کی شہادت بھی ہوئی۔ (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، اردو ترجمہ، ج2، حصہ ہفتم،مکتبہ خلیل، ص665-664)۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں