حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے مسلمان ہونے کے بعد یہود میں سے جو لوگ اسلام کی آغوش میں آئے ان میں ثعلبہ بن سعیہؓ، اسید بن سعیہؓ اور اسد بن عبیدؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بعد میں کعبؓ الاحبار اور بعض دیگر اہلِ کتاب بھی اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔ ام المومنین حضرت صفیہؓ بنت حُیَیْ کا قبول اسلام تو بہت معروف ہے۔ اس کا تذکرہ ہم نے تفصیلاً اپنی کتاب روشن قندیلیں میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ رسول رحمتؐ تلواروں کے سائے میں جلد سوم میں بھی ''غزوہ بنوقریظہ‘‘ کے تحت ان کا تذکرہ آیا ہے۔ مورخ ابن ہشام نے ان اہلِ کتاب کے قبول اسلام کے حوالے سے قرآن پاک کی متعلقہ آیات لکھی ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ کتاب میں سے صاحبِ خیر شخصیات کو ان بری صفات سے مستثنٰی قرار دیا ہے جن میں یہود عمومی طور پر مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مگر سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ، ایسے بھی ہیں جو راہِ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں، اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہ کی جائے گی، اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلامؓ کے قبول اسلام سے یہودیوں کو بہت تکلیف ہوئی۔ وہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مسلسل زہریلا پراپیگنڈہ کیا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور الٹے سیدھے سوال کرتے۔ ایک مرتبہ سلام بن مشکم، نعمان بن اوفیٰ، محمود بن دحیہ، شأس بن قیس او رمالک بن سیف آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ہم تمھاری اتباع کیسے کریں کہ تم نے ہمارا قبلہ ترک کردیا ہے اور تم عزیر کو ابن اللہ بھی نہیں مانتے۔ ان بے ہودہ سوالوں کے جواب میں آپؐ نے فرمایا: خدا کی قسم تم جانتے ہو، میرے پاس جو کچھ آیا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اس کے بارے میں تورات میں سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔ پھر آپ نے قرآن پاک کی یہ آیات ان کو سنائیں:یہودی کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیںجو اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں ان لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار ان پر، یہ کہاں سے دھوکا کھارہے ہیں۔ انھوں نے اپنے علما اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح بن مریم کو بھی۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول، ص570)
جس طرح آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہود اسلام اور اہلِ اسلام کے بدترین دشمن تھے، اسی طرح آج بھی بحیثیت مجموعی یہودی اور بت پرست اسلام کے بدترین دشمن ہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں فرمادیا ہے: ''تم اہلِ ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے، اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب ترین ان لوگوں کو پاؤ گے جنھوں نے کہا تھا کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ ان میں عبادت گزارعالم اور تارک الدنیا فقیر پائے جاتے ہیں اور ان میں غرورِ نفس نہیں ہے۔ ‘‘
آج کے دور میں یوں تو بہت سی شخصیات ہیں جو یہودیت اور عیسائیت چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں آئیں، مگر ان میں سے چند ایک تو بہت ہی باکمال ہیں جو عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔ آسٹریا سے تعلق رکھنے والے لیوپولڈویز نے اپنی زندگی کے حالات جو خود بیان کیے ہیں اتنے دل چسپ ہیں کہ آدمی پڑھتا چلا جائے تو وقت گزرنے کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔ وہ ایک یہودی خاندان میں 1900ء میں پیدا ہوئے۔ یہ یہودی خاندان محض یہودی نہیں، صہیونیت کا علم بردار تھا۔ اس خاندان کا یہ چشم وچراغ بچپن ہی سے مہم جُو تھا۔ اس کی مہم جوئی چودہ سال کی عمر میں شروع ہوئی، جب وہ گھر سے بھاگ کر فوج میں ملازم ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے کئی تجربات کیے۔ جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں وقت گزارا۔ فلمی دنیا اور صحافت کے ریگزاروں میں آبلہ پائی کی، تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں عرب دنیا کی طرف سفر کرنے کا شوق پیدا کردیا۔ اس کا ماموں یروشلم میں مقیم تھا۔ یہ اس کے پاس جاپہنچا۔
اللہ کو کیا منظور تھا، اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیوپولڈ1926ء میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوگیا۔ اس نے اپنا نام محمداسد رکھا۔ کئی سال سعودی عرب میں گزارے اور کئی کتابیں لکھیں، جن میں مشہور ترین کتاب ''روڈ ٹو مکہ‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مزید دس کتابیں بھی بہت مقبول ہوئیں۔ محمد اسد پاکستان بھی آئے اور 1947ء میں انھیں پاکستان کی شہریت دے دی گئی۔ یہاں انھوں نے کئی اہم مناصب پر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی کتاب ''دی مسیج آف دی قرآن‘‘ بھی بہت معروف ہے۔ محمد اسد نے اسلام کے بارے میں اتنا جامع انداز میں لکھا ہے کہ اس سے ان کی اسلام سے محبت ہی نہیں دقیق مطالعہ اور تحقیق کابھی اندازہ ہوتا ہے۔ محمداسد کا پورا خاندان صہیونیت کی محبت میں مبتلا تھا، مگر اللہ نے اسے توفیق دی کہ اس نے تنقیدی نقطۂ نظر سے ہر مذہب کا مطالعہ کیا اور یکسوئی کے ساتھ اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں دے دیا۔ محمد اسد کی وفات 20فروری1992ء کو سپین کے شہر مجاس (Mijas) میں ہوئی۔ علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح سے محمد اسد کے ذاتی تعلقات تھے۔ ان کا نقطۂ نظر اسلامی ریاست کے بارے میں بالکل واضح تھا، مگر پاکستان کے حالات کو دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہوگئے تھے۔ وہ جن امیدوں کے ساتھ پاکستان آئے اور اس کی شہریت اختیار کی وہ پوری نہ ہوسکیں۔ محمد اسد اخوان المسلمون کی تحریک اور سیدحسن البناؒ کی شخصیت سے بھی بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں جابجا ان کا تذکرہ کیا ہے۔
دوسری اہم شخصیت محترمہ مریم جمیلہ مرحومہ کی ہے۔ وہ بھی نیویارک کے ایک یہودی خاندان میں 1934ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین بھی محمداسد کے خاندان کی طرح صرف یہودی نہیں بلکہ صہیونی تنظیم کے سرگرم مؤیّد تھے۔ مریم جمیلہ نے بہت چھوٹی عمر میں تقابل ادیان کے موضوع پر اپنی تحقیق شروع کردی۔ چنانچہ سارے مذاہب کا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرلیا کہ اسلام ہی ایک سچا دین ہے جو اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے۔ اس وسیع مطالعے کے نتیجے میں انھوں نے دنیا بھر کی اہم اور معروف اہلِ علم شخصیات کے ساتھ خط وکتابت کی۔ بالخصوص مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ سے طویل خطوط کا تبادلہ ہوا۔ یہ مراسلت کتاب کی صورت میں بھی مدوّن ہو کر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں طبع ہوئی۔ بہت سی کتابوں کی یہ مصنفہ 24مئی1961ء کو ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں اور پھر ساری زندگی پاکستان ہی میں گزاری۔ مریم جمیلہ کی اپنی کتابیں بھی بہت ایمان افروز ہیں اور ان پر مختلف لوگوں نے جو تحقیقی مقالہ جات اور کتابیں لکھی ہیں وہ بھی اسلامی ادب کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں۔
امریکہ سے آنے کے بعد اپنی وفات اکتوبر2012ء تک مریم جمیلہ امریکہ نہیں گئیں۔ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کرچکی تھیں۔ وہ خود جماعت اسلامی کی سرگرم کارکن تھیں اور ان کے میاں جناب محمدیوسف خاں مرحوم جماعت کے بہت معروف رہنما اور مولانا مودودیؒ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے۔ ان بندگانِ خدا کے علاوہ معروف شخصیات جو اسلام کی گود میں آئیں اور قابل ذکر ولائق تحسین خدمات سرانجام دیں، ان کی تعداد کثیر ہے۔ ان میں فرانسیسی ڈاکٹر اور مصنف مارس بکائل (Maurice Bucaille) کا نام بہت نمایاں ہے۔ ان کی کتاب ''دی بائبل، دی قرآن اینڈ سائنس‘‘ ایک انتہائی وقیع اور تحقیقی کاوش ہے۔ مصنف نے قرآن کی حقانیت کو اپنی سائنسی معلومات کے ساتھ موازنہ کرکے پورے استدلال کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ فرانس میں یہ شخص 19جولائی1920ء کو پیدا ہوا اور اپنی وفات17فروری 1998ء تک سعودی عرب، مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں نہایت قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ سعودی عرب میں شاہ فیصل اور مصر میں انوارالسادات کے ذاتی معالج کے طور پر بھی کام کیا۔
ہم اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امریکی مسلمان ملک شہباز(شہید) جن کا عیسائی نام میلکم ایکس تھا،برطانوی نو مسلم یوسف اسلام، امریکی نومسلم سیاست دان کیتھ ایلیسن، جرمن سکالر احمدوان ڈینفر اور مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں دیگر اہلِ ایمان کے حالات اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں کہ کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے والے بعض نفوس اپنے اندر خیر کے جذبات رکھتے ہیں جو کسی بھی وقت شعلہ جوالا بن کر انھیں منزل سے ہم کنار کردیتے ہیں۔ اللہ ہی کے ہاتھ اور اختیار میں ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے، مگر بندے کے اپنے اندر انابت موجود ہوتو رب کریم ہدایت سے محروم نہیں رکھتا۔