علی احسن محمد مجاہدشہیدؒ (1948-2015ئ)۔۔۔(2)

علی احسن محمد مجاہد نے اس نازک لمحے ہم سب کی ترجمانی کرتے ہوئے گلوگیر لہجے میں کہا ''پاکستان ہمارا وطن تھا اور ہے، ہم اسے اللہ کے نام پر وجود میں آنے کی وجہ سے مسجد کا درجہ دیتے ہیں۔ اگر اس کی جگہ بنگلہ دیش بن گیا تو ہمیں کہیں بھاگ کے نہیں جانا ہے، اسی سرزمین پر اللہ کے دین کے لیے حالات کے مطابق کام کرنا ہے۔ مجھے آنے والے وقتوں میں پیش آمدہ آزمائشیں نظرآرہی ہیں، مگر اللہ کی نصرت سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ہم اپنے کسی عمل پر شرمندہ نہیں ہیں، کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ ہم نے ہر کام اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے کیا ہے۔ اللہ کے راستے میں جان بھی چلی جائے تو اس میں کوئی گھاٹا نہیں۔ ہجرت کرنا پڑے تو یہ بھی سنت رسولؐ ہے۔ 
دوستو! ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں، لیکن مجھے نہیں معلوم آنے والے کل ہم میں سے کون کس حال میں ہوگا اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ہم دوبارہ آپس میں اس عارضی زندگی میں مل پائیں گے یا نہیں۔ البتہ مجھے یہ یقین ہے کہ اگر ہم نے اپنا نظریہ اور راستہ نہ بدلا تو اللہ کی جنتوں میں ہم ضرور ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں گے۔‘‘ یہاں تک بات کرتے کرتے میرے بنگالی بھائی کی آواز رُندھ گئی۔ وہ ملی جلی انگریزی اور اردو میں بات کررہے تھے اور میں نوٹ کررہا تھا۔ انھوں نے اپنے آنسو پونچھے اور میں نے بھی اپنے آنسو خشک کیے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ میرے قائد نے ہم سب کو حکم دیا کہ یہاں سے نکل جائیں اور منتشر ہوجائیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اس لمحۂ موجود میں تم سب یہاں سے چلے جاؤ اور میں تم سب سے بعد میں یہاں سے نکلوں گا۔ ہم ان کے حکم کی اطاعت پر نکل گئے، مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جس کے دل میں خواہش نہ ہو کہ کاش میں اپنے قائد کے ساتھ رہوں۔ بہرحال اطاعت لازمی تھی، ہم سب وہاں سے منتشر ہوگئے۔‘‘ اس دوست کی داستان قدرے طویل اور انتہائی ایمان افروز تھی۔ مجھے خوشی ہوئی کہ برادرم سلیم منصور خالد نے بھی ماہنامہ ''عالمی ترجمان القرآن‘‘ ماہِ دسمبر2015ء میں یہی مضمون زیادہ تفصیل اور بلاغت کے ساتھ لکھ دیا۔
بنگلہ دیش بن جانے کے بعد علی احسن محمدمجاہد بھائی کے والد جناب مولانا محمد علی پر ایک کیس بنا جس میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران جب عید کا موقع آیا تو علاقے کے تمام لوگوں نے جن میں عوامی لیگ کے کارکنان اور رہنما بھی شامل تھے، بہت بڑا مظاہرہ کیا کہ عید سے قبل مولانا کو رہا کیا جائے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اس صورت حال کے پیش نظر حکومتی اہل کاروں کو حکم دیا کہ وہ موصوف کو عید کی نماز پڑھانے کے لیے پیرول پر رہا کردیں۔ نمازِ عید کے بعد انھیں پھر جیل بھیج دیا گیا۔اس پر دوبارہ عوامی احتجاج نے شدت اختیار کرلی۔ آخر کار شیخ مجیب الرحمن نے فریدپور کے عوامی لیگی رہنماؤں کی درخواست پر مولانا کو ان جھوٹے کیسوں سے بری کردیا۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی اس نے ایک بے گناہ کو جیل سے رہا کردیا۔ اب اسی کی بیٹی ایک نہیں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے باوجود ابھی تک خون سے سیر نہیں ہوئی۔ نہ معلوم وہ کتنے مزید لوگوں کو جرم بے گناہی میں موت کی وادی میں دھکیلے گی۔ اس ظالم کو معلوم نہیں کہ ایک ایک جرم کا حساب دینا پڑے گا۔ علی احسن محمد مجاہد کے بڑے بھائی اس وقت بھی فریدپور میں جماعت کے رہنما ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے بھائی کی شہادت پر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان کا بھائی بالکل بے گناہ تھا اور اس نے آخری دم تک کسی قسم کی کمزوری یا بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے زندگی بھر اللہ کی عبادت اور بندوں کی خدمت کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔ آخری لمحات میں اللہ کی رحمت کے ساتھ یہی سرمایہ اس کا حوصلہ بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ 
علی احسن محمد مجاہد نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ روابط میں ہمیشہ انھی کی خدمات سے جماعت نے استفادہ کیا۔ علی احسن محمد مجاہد ڈھاکہ سٹی جماعت کے امیر رہے۔ پھر مرکز میں انھیں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب کے ساتھ بطور قیم زندگی کے آخری لمحے تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مشرقی پاکستان ہو یا بنگلہ دیش، علی احسن محمد مجاہد طالب علم رہنما ہوں یا جماعت اسلامی کے قائد، انھوں نے ہر تحریک میں اگلی صفوں میں قیادت کے منصب پر اپنے فرائض ادا کیے۔ صدر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں آمریت کے خلاف طلبہ کی تحریک میں علی احسن محمد مجاہد کی خدمات یادگار ہیں۔ صدر ایوب خان کے دور میں راقم الحروف کو تین بار پس دیوارِ زنداں جانا پڑا۔ علی احسن محمد مجاہد بھی دو مرتبہ گرفتار ہوئے۔ وہ ہم سے ایک آدھ سال جونیئرتھے، مگر ان کا نام اس دور میں بھی پورے ملک میں معروف تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے احباب سب گواہی دیتے ہیں کہ جب بھی کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوئی تو مشاورت کے دوران مشکل عقدے علی احسن محمد مجاہد کے ذہن رسا اور وزنی استدلال کے ذریعے بآسانی حل ہوجاتے رہے۔ 
علی احسن محمد مجاہد نے جنرل حسین محمدارشاد کے خلاف بننے والے اتحاد میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ جنرل ارشاد نے 1979ء سے 1986ء تک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے فرائض ادا کیے۔ بیچ میں اس نے فوجی انقلاب کے ذریعے 1982ء میں حکومت پرقبضہ کرلیا۔ دھاندلی کے ذریعے وہ انتخاب بھی جیت گیا اور 1990ء تک ملک پر بطور صدر حکمران رہا۔ جنرل ارشاد کے خلاف تمام پارٹیوں نے زبردست مہم چلائی۔اس مہم میں خالدہ ضیاء کی پارٹی نے سات جماعتی اتحاد بنایا، جبکہ حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے دس پارٹیوں کو اپنی ساتھ ملا کر گیارہ رکنی اتحاد قائم کیا۔ کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پانچ پارٹیوں نے آپس میں ایک تیسرا اتحاد بنا لیا۔ جماعت اسلامی اس تحریک میں تنہا جدوجہد کرتی رہی۔ ارشاد کے آمرانہ نظام کے خلاف یہ تینوں اتحاد اور جماعت اسلامی یک زبان تھے کہ آمریت کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ملک میں عبوری حکومت کے تحت آزادانہ انتخابات کے ذریعے نئی انتظامیہ کو راستہ دینا چاہیے۔ 
اس جدوجہد میں جماعت اسلامی اگرچہ تنہا تھی، مگر علی احسن محمد مجاہد جماعت کے ترجمان اور سیکرٹری جنرل کے طور پر تمام اتحادوں کے درمیان ہمزۃ الوصل کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ عجیب بلکہ قابل فخر بات ہے کہ جماعت سے اختلافات کے باوجود یہ سب پارٹیاں مجاہد صاحب پر اعتماد کرتی تھیں اور مشترکہ لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے ان کے دیے گئے خطوط پر سب پارٹیاں اتفاق کر لیا کرتی تھیں۔ یہ جدوجہد اس لحاظ سے بڑی مفید ثابت ہوئی کہ جنرل ارشاد کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت وجود میں آئی۔ اس کے تحت انتخابات ہوئے اور یہ انتخابات سب لوگوں کے نزدیک آزادانہ تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں بی این پی کی حکومت بنی۔ جماعت اسلامی نے حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کی بجائے اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن میں رہے گی، مگر تعاونوا علی البر کے جذبے کے تحت حکومت کی ہر درست پالیسی کی حمایت اور ہر غلط اقدام کی مخالفت کرے گی۔ 
اس عرصے میں پروفیسر غلام اعظم صاحب نے ایک فارمولا پوری قوم کے سامنے پیش کیا کہ دستور میں ترمیم کرکے نگران حکومت کے تحت انتخابات کرانے کا مستقل نظام بنایا جائے۔ ساری پارٹیوں نے اسے تسلیم کیا، مگر حکمران بی این پی پارٹی نے اس سے اختلاف کیا۔ بالآخر احتجاج کے نتیجے میں حکومت کو یہ فارمولا تسلیم کرنا پڑا اور مجوزہ ترمیم منظور ہوئی۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اس احتجاجی تحریکی میں تمام اپوزیشن پارٹیوں بشمول جماعت اسلامی نے مشترکہ جدوجہد کی۔ اگر یہ لوگ واقعی غدار تھے تو حسینہ واجد اس زمانے میں ان کے ساتھ اتحاد کرکے غداری کے الزام سے کیسے بچ سکتی ہے؟ اے ظالم قاتلہ! ''شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔ اس ترمیم کے تحت جتنے بھی انتخابات ہوئے ان پر پوری قوم کو یکسوئی اور اطمینان ہوا۔ عوامی لیگ نے بعد میں اپنے اقتدار کے دوران اس ترمیم کو منسوخ کرکے اپنی من مانی کے ذریعے انتخابات کروانے کی جو رسم ڈالی اس کے خلاف آج تک پوری قوم سراپا احتجاج ہے۔ 
2001ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی 18نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی جبکہ خواتین کی دو نشستوں پر بھی انھیں کامیابی ملی۔ اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بی این پی کی درخواست پر مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ امیر جماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی اور قیم جماعت علی احسن محمدمجاہد مرکزی کابینہ کے رکن بنائے گئے۔ نظامی صاحب کے پاس پہلے زراعت اوراس کے بعد صنعت کی وزارتیں رہیں جبکہ علی احسن محمد مجاہد کے پاس سوشل ویلفیئر کی وزارت کا قلم دان تھا۔ ان دونوں حضرات کو کارکردگی کی بنا پر عالمی اداروں نے بہترین قرار دی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ان دونوں وزرا کو شفاف ترین وزرا کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ (جاری )

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں