خانہ کعبہ کی تعمیرِنو

محمد عربی ﷺدنیا میں ایک یتیم کی حیثیت سے تشریف لائے۔ آپﷺ یتیم ہونے کے باوجود ایسے خاندان کے چشم و چراغ تھے، جہاں آپؐ کو ہر طرح کی سہولیات کے ساتھ پروان چڑھایا گیا۔ والدہ کی وفات کے بعد دادا جان اور ان کی وفات کے بعد شفیق و مہربان چچا آپؐ کے سرپرست رہے۔ یہ دنیاوی سرپرستی اپنی جگہ مگر اللہ رب العالمین نے آپؐ کو سید کونین اور خاتم المرسلین کا جو مقام بخشا تھا، وہ تخلیق کائنات کے روزِ اول سے آپؐ کا مقدر اور آپؐ کی شان تھی۔ وحی ربانی چالیس سال کی عمر میں آئی، مگر آپؐ نے وحی سے قبل بھی ایک شاندار اور قابلِ تحسین زندگی گزاری۔ دوست اور دشمن سبھی اس بات کے معترف تھے کہ درِ یتیم کے اندر کوئی اخلاقی عیب اور جھول نہیں۔ وہ صادق و امین ہیں، خوش خلق اور مہمان نواز ہیں، مظلوموں کے حامی اور مصیبت زدگان کے سرپرست ہیں۔ آپؐ کی نبوت سے قبل کی زندگی کا اہم واقعہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہے۔ جب اس واقعہ کا تذکرہ سنا یا پڑھا جائے تو مسلم اور غیر مسلم ہر شخص پکار اٹھتا ہے کہ سنگریزوں کے درمیان یہ خالص ہیرا اپنی چمک دمک میں بے مثال اور اپنی قدرو قیمت میں بے نظیر ہے۔ 
خانہ کعبہ کی تعمیر سیدنا ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ مل کر مکمل کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو جو عزت وشرف عطا فرمایا ہے وہ دنیا کے کسی عبادت خانے یا مقام کو عطا نہیں ہوا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ بیت اللہ کی حدود زمین سے لے کر آسمانوں کی بلندیوں تک جاتی ہیں اور تخلیق کائنات کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے زمین کے اس ٹکڑے کو یہ مقام عظیم عطا فرما دیا تھا۔ سیدنا ابراہیمؑ کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ کی عمارت کو کئی مرتبہ مرورِزمانہ اور ارضی وسماوی حادثات کی وجہ سے نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ آنحضورﷺ کے دورِ جوانی میں بھی خانہ کعبہ کی تعمیر کو پانی کے ایک تیز ریلے نے جو پہاڑوں کے اوپر سے آیا، خاصا نقصان پہنچایا جس سے اس کی دیواریں گر گئیں۔ 
قریش مکہ نے اس گھر کی تعمیر نو کے لیے باہمی منصوبہ بنایا۔ اس وقت آنحضورﷺ کی عمر 35 برس تھی۔ آنحضورﷺ بھی دیگر قریشی سرداروں اور عوام کے ساتھ تعمیر کعبہ میں مصروف ہوئے۔ لوگ پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور اس کے لیے اپنے کندھوں پر اپنے تہہ بند کے نچلے حصے کو ڈال دیتے۔ بعض لوگوں کے ستر کے حصے کھل جاتے۔ آنحضورﷺ نے ایک بار پتھر اٹھاتے ہوئے اپنے تہہ بند کا پہلو اپنے کندھے پر ڈالا۔ آپؐ کو آواز آئی: عورتک۔ یعنی اپنے پردے کا خیال رکھو۔ پہلی آواز سننے کے بعد ایک جانب سے آپ کے چچا ابوطالب کی بھی یہ آواز آئی۔ وہ فرما رہے تھے: یابنَ اخی اجعل ازارک علی رأسک یعنی اے بھتیجے اپنے تہہ بند کا دامن اپنے سر پر ڈال لے۔ آپؐ نے فرمایا: میری بھول کے باعث جو کچھ ہوگیا سو ہوگیا اب میں کبھی اپنا ستر ننگا نہ ہونے دوں گا۔ فما رؤیت لرسول اللہ ﷺ عورۃ بعد ذالک یعنی اس واقعہ کے بعد کبھی آنحضورﷺ کا ستر زندگی بھر کسی نے نہیں دیکھا۔ 
اس مرتبہ تعمیر کعبہ میں قریش کے سرداروں میں سے ولید بن مغیرہ کا نام بہت نمایاں نظر آتاہے۔ اس نے خانہ کعبہ کی چھت کے لیے جدہ سے ایک تباہ شدہ بحری جہاز کی لکڑیاں خریدیں۔ یہ جہاز ایک رومی عیسائی کی ملکیت تھا، جس کا نام مورخ ابن سعد نے باقون لکھا ہے۔ ولید بن مغیرہ کو جب اطلاع ملی کہ ایک جہاز بندرگاہ پر آکر رکا ہے جس کے کافی حصے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں تو وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ وہاں پہنچا اور یہ لکڑیاں خرید لیں۔ روایات کے مطابق جب رومی تاجر باقون کو پتا چلا کہ قریش اس لکڑی کو خانہ کعبہ کی تعمیر میں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ مکہ آیا تاکہ اس مقام کو دیکھ سکے جس کا تذکرہ ان کی مقدس کتابوںمیں ملتا ہے۔ قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیر سے قبل کہا: لَوْبَنَیْنَا بَیْتَ رَبِّنَا یعنی کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے پروردگار کا گھر بنائیں۔ چنانچہ سب نے اتفاق سے خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ 
خانہ کعبہ کی جو دیواریں کھڑی تھیں ان کو منہدم کرنے پر سب کا اتفاق ہوا تو سب سے پہلے ولید بن مغیرہ نے دیوار کے پتھر گرانا شروع کیے۔ اس موقع پر وہ مسلسل کہے جارہا تھا: اللّٰہُمَّ اِنَّمَا نُرِیْدُ الْخَیْرَ۔ اے اللہ تیرے گھر کو شہید کرنے کا کام خیر اور بھلائی کے لیے کررہے ہیں۔ یعنی کوئی بے ادبی اور تیری نافرمانی مقصود نہیں ہے۔ (طبقات ابن سعد، ج۱،ص145)۔ 
جب دیواریں شہید کردی گئیں اور بنیادیں بھی کھود دی گئیں تو تعمیر کعبہ کا مرحلہ آیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ کون کس حصے کی تعمیر کرے۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ ہی نے تجویز پیش کی کہ خانہ کعبہ کی چاروں دیواروں کی تعمیر کے لیے قبائل کے درمیان قرعہ اندازی کرلی جائے۔ اس تجویز کے مطابق تعمیر کا نقشہ یوں بنا۔ 
1-حجراسود کے کونے سے لے کر شمالی کونے (حطیم) تک خانہ کعبہ کی مشرقی دیوارکی تعمیر، جس میں خانہ کعبہ کا دروازہ بھی آتا ہے دو قبائل کے حصے میں آئی۔ یہ تھے بنی عبدمناف اور بنی زہرہ۔ بنی عبدمناف ہی میں آنحضورﷺ کا خاندان آتا ہے۔ 
2-رکن حجر(شرقی) سے رکن حجر (غربی) تک یعنی حطیم کی جانب کا حصہ بھی دو خاندانوں کے ذمے لگا اور یہ تھے بنی اسد بن عبدالعزیٰ اور بنی عبدالدار بن قصّی۔ 
3-مغربی جانب کی دیوار (رکن حجر سے لے کر رکن یمانی تک) کی تعمیر کی ذمہ داری بھی دو قبائل بنو تَیم اور بنومخزوم کے حصے میں آئی۔ ولید بن مغیرہ (خالد بن ولید کاوالد) بنومخزوم ہی میں سے تھا، جبکہ بنوتَیم حضرت ابوبکرصدیقؓ کا قبیلہ تھا۔
4-رکن یمانی سے حجر اسود تک چار قبائل کو تعمیر کرنا تھی۔ بنوسہم، بنوجمیح، بنو عدی اور بنوعامر بن لوی۔ 
تعمیر کعبہ کا کام خوش اسلوبی سے شروع ہوگیا۔ تمام بڑے بڑے سردار بنفس نفیس اس میں شریک تھے۔ یہ بھی بہت خوبی کی بات ہے کہ تمام برائیوں میں ملوث ہونے کے باوجود قریش کے تمام لوگوں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ تعمیر کعبہ میں صرف حلال کمائی استعمال کی جائے گی۔ ہر ایک کی زبان پر مختلف اشعار تھے۔ بیت اللہ شریف کے اندر قریش کا یہ متحدہ عمل ایک تاریخی اہمیت کا حامل یادگار واقعہ ہے۔ اس کام میں اس وقت ایک مشکل پیش آگئی جب حجراسود کو اس کی جگہ نصب کرنے کا مرحلہ آیا۔ ہر قبیلے کے سردار کی یہ خواہش تھی کہ حجراسود کو وہی اس کی جگہ پر نصب کرے۔ اس پر توتکار شروع ہوئی تو جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ 
آخر ایک بزرگ سردار جس کا نام مورخین نے ابوامیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم بیان کیا ہے، نے یہ کہا کہ اللہ کے گھر میں لڑائی جھگڑا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اس وقت اس شخص کی عمر قریش میں سب سے زیادہ تھی۔ اس نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ خوش اسلوبی سے ہونا چاہیے۔ چنانچہ سب نے قرار داد منظور کی کہ دیکھو باب بنی شیبہ سے سب سے پہلے کون شخص اندر آتا ہے۔ وہ جو بھی ہو اسی کو حَکم مان لیا جائے۔ اب سب لوگ بڑے تجسس اور شوق سے باب بنی شیبہ کی طرف دیکھنے لگے۔ سب سے پہلے جو شخص نمودار ہوئے وہ سیدالاولین والآخرین محمدبن عبداللہ علیہ الصلواۃ والسلام تھے۔ آپ کی عمر اس وقت 35سال تھی۔ انھیں دیکھ کر تمام کے تمام لوگ پکار اٹھے۔ ہذا الامین قد رضینا بما قضی بیننا۔ یعنی یہ امین تشریف لے آئے ہیں وہ اس معاملے میں جو بھی فیصلہ کریں گے ہم اس پر راضی ہوں گے۔ (طبقات ابن سعد، ج۱، ص146، البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم بیروت، ص423)۔
آنحضورﷺ کو جب ساری صورت حال کے بارے میں بتایا گیا تو آپؐ نے اپنی خداداد ذہانت وصلاحیت سے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل فرما دیا۔ آپؐ نے اپنی چادر زمین پر بچھا دی اور اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کے اندر رکھا، پھر فرمایا: ''چاروں جانب تعمیر کے لیے قبائل کے درمیان جس طرح دیواریں تقسیم ہوئی ہیں، اس کے مطابق ان چاروں فریقوں میں سے ایک ایک شخص کو قرع اندازی سے منتخب کرلیا جائے۔‘‘ چنانچہ ربع اول میں سے عتبہ بن ربیعہ کا نام آیا۔ ربع ثانی سے ابوزمعہ، ربع ثالث سے ابوحذیفہ بن المغیرہ اور ربع رابع سے قیس بن عدی کے ناموں پر قرعہ نکلا۔ اب آپؐ نے فرمایا: ''آپ چاروں قائدین آگے آئیں اور چادر کا ایک ایک کونہ پکڑ لیں۔‘‘ جب انھوں نے کونے پکڑ لیے تو آپ نے فرمایا: ''اب اسے اوپر اٹھائیں۔ جب انھوں نے چادر اوپر اٹھائی اور وہ حجر اسود کے مقام تک بلند ہوگئی تو آپؐ نے وہ پتھر اپنے دست مبارک سے اٹھا کر اس کی جگہ پر نصب کردیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں