قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ شہ رگ بنیے کے قبضے میں ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک گزشتہ اجلاس میں مظلوم کشمیریوں کی حمایت کرکے جو مثبت تاثر قائم کیا گیا تھا، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعد کے ایام میں اس کا اثر زائل کردیا گیا۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم وستم جاری رکھنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کی کئی مزید بٹالینز بھیج دی ہیں۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پیلٹ بلٹس کے استعمال سے ہزاروں معصوم بچوں کو بینائی سے محروم اور لاتعداد کشمیری عوام کو گولیوں سے بھون کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ برہان مظفروانی شہید کے بعد تو وادیٔ کشمیر قتل گڑھ بن چکی ہے۔ ظالم بھارتیوں نے اہلِ کشمیر پر زمین تنگ کردی ہے، مگر کشمیری عوام ان شاء اللہ آزادی کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرکے دم لیں گے۔ خطۂ کشمیر، ارضِ فلسطین، شام اور میانمار کا علاقہ دھرتی کے مظلوم ترین گوشے ہیں۔
کشمیر جنت نظیر کی سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کے قریب لوگ جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں۔ ہزاروں مرد و خواتین لاپتہ ہیں اور ہزاروں بھارتی عقوبت خانوں میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں دخترانِ کشمیر کی عفت پامال کی جا چکی ہے ۔پاکستان اس مسئلے کا اہم فریق ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تحریکِ حریت کشمیر، پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کا برملا اظہار کرتی ہے۔ افسوس پاکستانی حکومتیں یکے بعد دیگرے مسلسل قوم و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو نہ صرف پس پشت ڈالنے کی مرتکب ہوئی ہیں بلکہ حریت پسند کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مجرم بھی ہیں۔
حکمران بلاوجہ بھارت کی محبت میں دیوانے ہوئے جارہے ہیں۔ جو شخص کشمیر سے محبت رکھتا ہے وہ بھارت کو پسندیدہ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ خونِ شہدا کی قدر و قیمت سے تو نابلد ہیں ہی، اس بنیادی انسانی غیرت سے بھی محروم ہوچکے ہیں کہ دخترانِ ملت کی عزتیں لوٹنے والوں سے دوستی کیونکر ممکن ہے؟ کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سرپا احتجاج رہے ہیں۔ پہلے بھارتی فوجیں یک طرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں۔ تیس، بتیس سال قبل کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں تو بھارتی بنیے کو احساس ہوا کہ کشمیر کو غلام رکھنا اب ان کے بس میں نہیں۔ وانی شہید اب آزادی کا سمبل بن کر ہر کشمیری کے دل میں زندہ ہے، ہر نوجوان اب آزادی کے لیے جان ہتھیلی پہ لیے میدانِ جہاد میں سرگرمِ عمل ہے۔
کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انھوں نے تحریک حریت کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانی کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی جو ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور، عمر رسیدہ، مختلف امراض سے نڈھال، علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔ وہ واقعتا ًحیدرکرار ؓ کی تلوار ، خالدؓ کی للکار اور طارقؒ کی یلغار کا نمونہ ہیں۔ تحریک حریت کی متحدہ کاوشوں اور سید علی گیلانی کی کرشمہ ساز شخصیت نے سردخانے میں پڑے ہوئے مسئلہ کشمیر کو پھر زندہ کردیا تھا۔ جن کشمیریوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی بندوق کے بارے میں کہتے ہیں ''دھپ چڑھسی تے ٹھُس کَرسی‘‘ وہ شاہین بن کر اپنے دشمن پر چھپٹے، بقول اقبال: ؎
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا!
پاکستان اور آزاد کشمیر جہاد کشمیر کا بیس کیمپ ہیں۔ پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ فریق کا درجہ دیا ہے۔ پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں اس مسئلے سے دور بھاگتے ہیں۔سیدعلی گیلانی نے کشمیری عوام کے دلوںمیں ایسا جذبہ پیدا کردیا ہے کہ اب وہ کسی صورت اپنی مادرِ وطن کو ہندو بنیے کے قبضے میں نہیں دیکھ سکتے۔ 5؍فروری کشمیریوں اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے حامیوں کے لیے ایک بہت اہم دن بن گیا ہے۔ یہ دن ''یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں یہ دن عوامی، سرکاری اور قومی دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا آغاز 1990ء میں ہوا۔ اس وقت موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیراعظم پاکستان تھیں۔ مجھے آج بھی وہ تاریخی لمحہ یاد ہے جب جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد مرحوم نے ذمہ دارانِ جماعت اسلامی کی ایک نشست میں یکجہتی کشمیر کے لیے دن منانے کا تصور پیش کیاجسے سراہا گیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ ملک کے تمام عناصر و مسالک، حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائیں۔
اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے اس پروگرام کا پورا لائحۂ عمل مرتب کیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ قاضی صاحب حکمرانوں سے ملاقات کرکے انھیں بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور اپنا فرض ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ قاضی صاحب نے اس سلسلے میں میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملاقات کی اور 9 جنوری 1990 ء کو پریس کانفرنس کے ذریعے جماعتی فیصلوں کے مطابق 5 فروری 1990ء کا دن ''یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طورپر منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بھی بھر پور کردار ادا کیا اورالیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس مطالبے کو خوب پذیرائی ملی۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سطح پریومِ یکجہتی کشمیر کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس تحرّک کے نتیجے میں ملک میں ایسی فضا بن گئی کہ وزیراعظم پاکستان، بینظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس مطالبے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے 5 فروری کو سرکاری تعطیل قرار دے دیا۔
وزیراعظم بے نظیر نے اس اعلان کے ساتھ عملاً بھی اس جانب پیش قدمی کی، جس کی تحسین ضروری ہے۔ مرحومہ نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا، جس میں بھارتی مظالم کی مکمل تصویر پیش کرتے ہوئے پرجوش انداز میں تحریک آزادی کشمیر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ بینظیر بھٹو مرحومہ کی تقاریر میں سے ان کا وہ خطاب بہت جامع اور موثر ہے۔ اس وقت سے لے کر آج کے دن تک پاکستان میں بر سرِ اقتدارآنے والی ہر حکومت اگرچہ عملاً مسئلہ کشمیر پر اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر اور گریزاں رہی ہے تاہم یہ دن ایک قومی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور اس سے انحراف کسی کے بس میں نہیں۔ اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لے کر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ یہ یوم یکجہتی قاضی حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ اس یوم کے تعین کے لیے جن لوگوں نے سوچ بچار کی اور جنھوں نے اس کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ان سب کا یہ عمل باعث اجر ہے۔ جو جتنے اخلاص کے ساتھ مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے کام کرے گا، اتنا ہی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا۔
آج پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے ۔عالمِ اسلام میں ہر جانب بیداری کی لہریں موجزن ہیں عالمی استعمار امت مسلمہ کی بیداری سے خائف ہے اور جہاں کہیں دینی وملی سوچ رکھنے والے لوگ جمہوری راستے سے ملک کے اندر ایوانِ اقتدار تک پہنچتے ہیں، نام نہاد مغربی جمہوریت کے علمبردار کہتے ہیں کہ جمہوریت ہار گئی ہے۔ الجزائر، مصر اور غزہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ہمیں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدینِ کشمیرو فلسطین اور روہنگیا حریت پسندوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔غلامی کی زنجیریں ان شاء اللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائے گا ۔یہ دن تجدیدِ عہداور عزمِ نو کی نوید ہے۔ آئیے اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ہم کشمیر کی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کا ساتھی ہے اور ہم قائد المجاہدینؐ کے امتی ہیں۔ برہان مظفروانی شہید زندہ باد، تحریک آزادی کشمیر زندہ باد، یوم یکجہتی کشمیر پائندہ باد، بھارتی درندگی مردہ باد۔