اسلامی تحریکوں کی پُرامن جدوجہد(2)...

اخوان کے پیش نظر انقلابی کام، یعنی نظام کی تبدیلی پہلے دن سے بالکل واضح تھا۔ اس کارِ عظیم کا تقاضا تھا کہ ایسے مردانِ کار تیار کیے جائیں جو اسلام کی چلتی پھرتی تصویر اور اپنی دعوت کی تفسیر بن جائیں۔اس کے لیے ذاتی تربیت اور تزکیے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ہفتے میں ایک دن کا تربیتی اجتماع تمام اخوان کے لیے لازمی تھا۔ قرآن سے مستقل اور قریبی تعلق بھی اسی شعبے کے ذریعے راسخ کیاگیا۔ اکثر اخوانی دنیا بھر میں جیبی سائز کا قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ حفاظ بھی ہیں۔اپنی ہر گفتگو میں قرآن مجید سے حوالے اور استشہاد اخوان کا طرۂ امتیاز ہے۔ اہل خانہ کی تربیت کے لیے اجتماعِ اہل ِخانہ کو ضروری قرار دیا گیا۔بعد میں اسرہ جاتی نظام بھی متعارف کرایا گیا، جو کافی مقبول ہوا۔ حکومت نے اخوان کے خلاف اپنے جھوٹے پراپیگنڈے میں اسے بنیاد بنا کر الزامات کا طومار باندھا اور اسے بغاوت کی تیاری کا نام دیاگیا حالانکہ یہ اسی انداز کا مگر قدرے مختلف ماحول میں وہی نظامِ اخوت ہے جو نبی مہربانﷺ نے مدینہ منورہ میں انصار و مہاجرین کے درمیان قائم کیاتھا۔ 
نظام اسرہ کے ذریعے اخوان سے تعلق رکھنے والے کارکنان آپس میں ایک بھائی چارہ قائم کرتے، جب تعداد بڑھ جاتی تو دو، تین یا زیادہ حصوں میں بٹ جاتے اور ہر گروپ اپنے ساتھ مزید رفقا کو شامل کرنے میں لگ جاتا۔ اس بھائی چارے کی برکت سے اخوان اپنی دعوت کو عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور عرب دنیا میں عوام نے یہ دعوت قبول کرکے مستبد حکمرانوں کے خلاف رائے عامہ کے اظہار اور ووٹ کی قوت سے اپنی ناپسندیدگی ریکارڈ کروا دی۔ حسن البناء ؒ کے تمام جانشین بھی ان کی طرح دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کرتے رہے ہیںکہ ان کی دعوت اور پروگرام مکمل طور پر پُر امن ہے۔ اخوان کے موجودہ مرشدِ عام جناب ڈاکٹر محمدبدیع اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں۔ ان کے اکلوتے بیٹے کو ظالم فوجی حکمرانوں نے شہید کردیاہے۔ لیکن آفرین ہے اس قائدِ تحریک اسلامی پر کہ وہ اب بھی پُر امن جدوجہد کا پرچار کرتے ہیں۔ 
تربیت کا یہ پہلو قرآن مجید کے حکم وَاَنْذِرْ عَشِیْرتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء: 214) ہی کی عملی تفسیر ہے، جو لوگ اللہ کی زمین پر قرآن کاانقلاب اور شریعت مطہرہ کا نفاذ چاہتے ہیں،انھیں عاملین و حاملینِ قرآن ہونا چاہیے۔ امام حسن البنا نے اخوان کے دل و دماغ میںیہ درس پیوست کر دیا تھا۔ ان کے جانشین ِاول امام حسن الہضیبیؒ کا یہ فقرہ عالمِ عرب میں زبان زدِ عام ہے: ''قرآن کو اپنی زندگیوں میں نافذ کردو،زمین پر یہ خود نافذ ہوکر رہے گا‘‘۔یہ فقرہ سید مودودیؒ کے اس مشہور فقرے کے مترادف ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھا:''قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘۔
امام حسن البنا کا انداز گفتگو اتنا مؤثر،سلیس اور قرآن و سنت کے حوالوں اور سیرتِ طیبہ کے پرتاثیرواقعات سے مزین ہوا کرتا تھا کہ سامعین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔امام حسن البنا نے خود بھی اپنی یادداشتوں میں بہت دل چسپ، ایمان افروز اور مثالی تجربات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے اپنی دعوت کے مختلف مراحل گنوائے ہیں، جن میں آغاز میں تعارف اور لوگوں کو متوجہ کرنا مقصود تھا۔پھر چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے تنظیم و دعوت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔پھر بازاروں اور چوراہوں میں کارنر میٹنگز ہونے لگیں۔اس کے بعدقہوہ خانوں میں خطابات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔پھر مساجد و مدارس میں بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے اور بالآخرکھلے میدانوں اور بڑے بڑے پارکوں میں عظیم الشان جلسے منعقد کیے جانے لگے۔
جب امام حسن البناؒ کو قہوہ خانوں میں خطاب کا خیال سوجھا اور انھوں نے اخوان کی مشاورت میں اسے پیش کیا تو اس پر بڑی لے دے ہوئی۔اکثر بھائیوں نے اس کی تائید نہیں کی۔ان کے نزدیک اس سے دعوت کی سبکی ہو سکتی تھی۔حسن البنا کے ذہن میں جو تصور تھا اس پر انھیں اعتماد ہی نہیں بلکہ عین الیقین حاصل تھا کہ اس کے نتیجے میں دعوت تیزی سے پھیلے گی۔ امام خالص اسلامی اصولوں کے مطابق مشاورت کے بغیر انفرادی فیصلوں کے خلاف تھے۔ چنانچہ طویل ردوکد کے بعد مشاورت سے آزمائشی طور پر یہ تجربہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔
امام حسن البنا فرماتے ہیں:'' محلوں اور بازاروںمیں کام کا آغاز ہوا۔میں ہر قہوہ خانے میں پانچ سے دس منٹ تک گفتگو کیا کرتا تھا۔پہلی رات میں نے بیس مقامات پر خطاب کیا۔ہمارا یہ تجربہ سو فی صد کامیاب ہوا۔اسے ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کرپذیرائی ملی۔رات گئے جب ہم اپنے مرکز، واقع ''شیخون‘‘میں واپس آئے تو سبھی رفقابہت خوش تھے۔یہ تجربہ ہم نے اسماعیلیہ سے شروع کیا اور پھر دیگر شہروں میں بھی اسے دہرایا۔ قہوہ خانوں کے مالکوں نے شروع میں اسے عجیب سمجھا بلکہ پسند ہی نہیں کیا، مگر بعد میں وہ درخواستیں کرنے لگے کہ ان کے ہاںپروگرام رکھا جائے‘‘۔ داعی کے لیے اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جن لوگوں نے اس کے لیے اپنے دروازے بند کیے تھے، وہ خود ملتجی ہوں کہ وہ ان کے ہاں قدم رنجا فرمائے۔ 
قہوہ خانوں کے بعد جب بڑے جلسوں کا مرحلہ آیاتو پھر منظر ہی کچھ اور تھا۔عام مزدور سے لے کر انتہائی اعلیٰ مقام و منصب اور تعلیم و مرتبے کے حامل لوگ بھی جوق در جوق رجوع کرنے لگے۔یہ جلسے محض بڑے شہروں ہی میں نہیں بلکہ دور دراز دیہات میں بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ اخوان کا یہ کمال اور امتیاز ہے کہ انھوں نے بڑے شہروں سے کام کا آغاز کیا مگر بہت مختصر وقت میں دیہاتوں کو بھی اپنی فکر سے منور کر دیا اور پورا مصر ان کی ایمان افروز دعوت سے گونج اٹھا۔ 
حسن الہضیبی بڑے فاضل، معروف قانون دان جج اور فقیہ و مدبر تھے۔وہ بڑے کم گو اور بظاہر غیر جذباتی انسان تھے۔ عمر تلمسانی اپنی معرکہ آرا کتاب ''یادوں کی امانت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ''الشیخ حسن الہضیبی جیل کے پُرآشوب ایام میں اس قدر دلیر تھے کہ انھوں نے فراعنہ کے سامنے کبھی لجاجت کا لہجہ اختیار نہ کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اتنے کم گو تھے کہ لمبے سوال کا جواب چند الفاظ یا ایک فقرے میں جامع انداز میں دے دیا کرتے تھے۔‘‘ حسن الہضیبی اخوان میں داخل ہونے کا واقعہ اپنے دوستوں کو سنایا کرتے تھے،جس سے ان کی اپنی سلامت روی کے علاوہ امام حسن البناکی عظمت اور ان کی دعوت کی اثر آفرینی کا پتا چلتا ہے۔
حسن الہضیبی کے متعلق جناب تلسمانی نے انھی کے الفاظ میں لکھا ہے:'' میں اپنے ساتھی وکلا اور ججوں کے ساتھ شام کو معمول کی چہل قدمی کے لیے نیل کنارے نکلا تو بہت سے گروہوں کو ایک جانب رواں دواں دیکھا۔ ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ امام حسن البنا کاخطاب سننے جا رہے ہیں۔دیگر ساتھیوں کی راے تھی کہ ہم بھی خطاب سننے چلیں،مگر میںاس کے لیے تیار نہیں تھا۔میرا خیال تھا کہ علما و مشائخ کی بے سروپا باتوں میں نہ کوئی ربط ہوتا ہے نہ کوئی مغز۔بہرحال دوستوں کے اصرار پر میں نے بھی جلسہ گاہ دیکھنے کی ہامی بھر لی۔ جب جلسہ گاہ میں پہنچاتو عین اُسی لمحے امام حسن البنا اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا، جیسے خطیب کے سر پر روشنی کا ایک ہالہ ہے۔ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک داعیِ حق، خطیبِ مصر نے مؤثر انداز میں اپنی دعوت پیش کی، جس میں فصاحت و بلاغت کی روانی اورتسلسل بھی تھا اور دل و دماغ کے لیے موثر اپیل بھی۔ الفاظ کا پُرشکوہ اندازبھی تھا اور دردِ دل سے بھرپور لہجے میں سامعین کے لیے بے پناہ کشش بھی۔ہزاروں کا مجمع گوش برآواز تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ سب کے دل خطیب کی مٹھی میں بندہیں۔ جب حسن البنا نے تقریر ختم کی تو محسوس ہوا لوگوں کے دل واپس ان کے سینوں میں آگئے ہیں مگر میرا معاملہ سب سے جدا تھا۔میں اپنا دل اسی کے پاس چھوڑ کر گھر چلاآیا۔‘‘ یہ ہے ان کی اخوان میں شمولیت کی مختصر اور ایمان افروز داستان۔وہ دن اور جناب الہضیبی کی آخری سانس!پھر نہ کسی اور جانب جھکے، نہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ 
امام حسن البنا کی شخصیت ہمہ صفت تھی۔ وہ بڑے نرم خو،مہمان نواز،خوش اخلاق،شیریں مقال،جرأت مند، ذہین بلکہ عبقری اور اس کے ساتھ اپنے رفقا کے لیے انتہائی مونس و غم خوار تھے۔عمر تلمسانی لکھتے ہیں:''مجھے عدالتِ عظمیٰ کے ایک جج صاحب سے تعارف کا موقع ملا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ میں اخوانی ہوں تو ان کا چہرہ دمک اٹھا۔انھوں نے اپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا۔کہنے لگے میں قاہرہ سے چھٹی گزارنے اپنی ذاتی گاڑی میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے گائوں گیا۔واپسی پر ہمیں راستے میں شام ہوگئی۔سوئے اتفاق سے ایک خطرناک اور جنگل سے اَٹے ہوئے ویران علاقے میں اچانک میری گاڑی بند ہوگئی۔میں نے دیکھا پٹرول ختم ہوچکا تھا۔رات کا وقت،میں تنہا اور میری اہلیہ ساتھ،میرے پائوں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں گاڑی سے نکل کر سڑک پر کھڑا ہوگیا۔ہر گزرنے والی گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا مگر گاڑیاں رکنے کا اشارہ دیکھتے ہی اور تیزی سے فراٹے بھرتی ہوئی گزر جاتیں۔
میںمایوس سا ہوگیا اور سوچا کہ گاڑی میں بیٹھ جاتا ہوں،رات یہیں گزرے گی۔ پھرسوچا چلو ایک آخری کاوش کرلی جائے۔ دور فاصلے پر، آنے والی ایک گاڑی کی بتیاں نظر آئیں، میںنے حسب سابق اشارہ کیا،گاڑی آہستہ ہوئی،پھر ہمارے پاس آکر رک گئی۔گاڑی میں سے ایک نہایت وجیہہ نوجوان نکلا۔اس نے مجھ سے نہایت محبت و اپنائیت سے ہاتھ ملایا اورپُرتبسم چہرے کے ساتھ پوچھا:''فرمائیے جناب کیا مسئلہ ہے؟‘‘ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں