برہان مظفروانی شہید!.... (2)

قابل فخر ہیرا
چھوٹی سی عمر اور معمولی سی تعلیم کے باوجود وہ بیک وقت بھارتی مسلح فوجوں کا مقابلہ بھی کررہا تھا اور سوشل میڈیا کے ذریعے نہایت موثر انداز میں اپنی قوم کو بیدار بھی کررہا تھا۔ گویا وہ دن رات مصروفِ جہاد تھا۔ مسئلہ کشمیر پر اس کی ہر پوسٹ میں ایک انقلابی پیغام ہوتا تھا، جسے دیکھ کر ہر غیرت مند مسلمان یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا کہ اسے اب خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھنا ہے۔ اللہ نے اس کی زبان، قلم اور ہاتھ پاؤں میں ایسی برکت دی تھی کہ زبان سے نکلنے والا ہر لفظ دلوں میں اترتا، قلم سے نکلنے والی ہر عبارت عمل پر ابھارتی اور اس کے اٹھنے والے قدم بھارتی فوجیوں کی نیندیں اڑا دیتے۔ اس کے ہاتھ کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا۔ وہ واقعی رسولِ عربیؐ کا ایک عظیم امتی تھا۔ ایسے قیمتی ہیروں پر قوموں کو فخر ہوتا ہے۔ برہان وانی ہم ہمیشہ تم پر فخر کرتے رہیں گے۔ بھارتی حکومت نے اس کے سر کی قیمت ایک ملین روپے مقرر کررکھی تھی۔ بنیے کو کیا معلوم کہ یہ سر سونے چاندی اور روپے پیسے سے نہیں خریدے جاسکتے۔ ان کی قیمت تو جنت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ اس دنیا وجہان کی ہر چیز کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کاواقعہ جب بھی یاد آتاہے ، دل عجیب وغریب کیفیات سے دوچار ہوجاتاہے۔ غم کی کھائیوں کے ساتھ یک گونہ سکینت کی پُر بہار وادیاں بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہیں۔ 
بھارت کی بوکھلاہٹ
پاکستانی اخبارات میں ۱۸؍جون۲۰۱۷ء کو ایک یک کالمی خبرچھپی جس نے ثابت کردیا کہ وادی ٔکشمیر کا عظیم فرزند برہان مظفروانی اپنی شہادت کے بعد بھی بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہے۔ شکست خوردہ بنیے کی بدحواسی اس خبر سے بالکل نمایاں ہے: بھارت کی وزارت داخلہ نے سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تحریری رابطے کے دوران حزب کمانڈر برہان وانی کا نام لکھنے کی بجائے 8جولائی کو مارے گئے تین جنگجو لکھا جائے۔ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ قدم برہان وانی کی وادیٔ کشمیر اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں میں شہرت کو دیکھ کر اٹھایا گیا ہے۔‘‘ 
طرابلس کے شہدا
علامہ اقبال ؒ کے کلام میں طرابلس کی جنگ کا تذکرہ مختلف مواقع پر ملتاہے۔ خاص طور پر ان کی دونظمیں اس حوالے سے یاد گار ہیں جو ان کی شہرہ آفاق کتاب بانگ درا کا حصہ ہیں۔ طرابلس کی یہ جنگ ۱۹۱۱ء تا۱۹۱۳ء لڑی گئی۔ یہ جنگ لیبیا کی سرزمین پر ترک فوجوں اور اطالوی استعماری لشکر کے درمیان ہوئی۔ ترکی کی باقاعدہ فوج جب جنگ سے راہِ فرار اختیار کرگئی تو کچھ ترک رضا کار اور عرب حریت پسند میدان میں ڈٹے رہے۔ وہ تاریخ کا منہ زور دھارا تو نہ موڑ سکے، مگر یہ ثابت کردیا کہ بندۂ مومن جان دے سکتا ہے، کفر کے مقابلے پر پسپائی کبھی اختیار نہیں کرسکتا۔ اسی تناطر میں لکھی گئی پہلی نظم کا عنوان ہے''حضور رسالت مآبؐ میں‘‘۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ 
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا
قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی ، لیکن
نظامِ کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا
فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجکو
حضورآیۂ رحمت میں لے گئے مجکو
کہا حضورؐ نے اے عندلیبِ باغ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمیٔ نوا سے گداز
اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
''حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو ، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں‘‘
آبروئے امت
برہان مظفر وانی کی شہادت پر میں علامہ مرحوم کے یہ اشعار گنگنا رہاتھا اور ذہن میں خیال آرہاتھا کہ اگر اقبال آج موجود ہوتے تو اپنی آبائی سرزمین کشمیر جنت نظیر کی تباہی پر ضرور پُر تاثیر نوحہ لکھتے۔ پھر قابل فخر سپوتوں کے عظیم الشان کارناموں پر انھیں خراج تحسین بھی پیش کرتے ۔ ساتھ ہی اس مقدس خون کو وہ اپنے مخصوص انداز میں سرکار دوعالمؐ کے دربار میں بھی پیش کرتے ۔ میں سمجھتاہوںکہ انھوں نے اپنی دونوں نظموں میں جن جذبا ت کا اظہار کیاہے، رہتی دنیا تک راہِ وفا کے راہی اور راہِ عزیمت کے شہدا سب پر یہ چسپاں ہوتے رہیں گے۔ مذکورہ جنگیں کم وبیش تین سال جاری رہیں۔ اسی عرصے کے دوران ۱۹۱۲ء میں فاطمہ بنت عبداللہ ایک عرب لڑکی مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے دشمن کی گولی کا نشانہ بنی اور شہادت پاگئی۔ اس پر علامہ اقبال نے ''فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ کے عنوان سے بڑی دردناک، مگر امیدورجا سے مالامال نظم لکھی۔ اس کے بھی چند اشعار پیش خدمت ہیں: 
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت حورِ صحرائی تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی!
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
فلسطین وکشمیر کی مماثلت
برہان مظفر وانی شہید کی آڈیو، ویڈیوز مقبوضہ وادی کے ہر گھر میں دیکھی اور سنی جاتی ہیں۔ اس سماعت وبصارت کے دوران سامعین وناظرین کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے ہیں اور چہروں پر امید کی پرچھائیاں بھی۔ اس کا ایک ایک لفظ سونے میں تولنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس نے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ جو ہندو یاتری بھارت سے امرناتھ یا کسی دوسرے اپنے مذہبی مقام پر زیارت کے لیے آئیں گے، ان پر کبھی حملہ نہ کیا جائے گا، مگر جو بستیاں کشمیر میں اس انداز میں بسائی جارہی ہیں کہ بھارت سے ہندو آبادی کو یہاں منتقل کرکے کشمیری آبادی کا تناسب بگاڑا جائے انھیں کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ ارض فلسطین پر اسرائیلی بستیوں کی طرح وادی جنت نظیر میں بھارت بھی ہندو بستیاں بسارہا ہے۔ یہ سازش کسی بھی کشمیری مسلمان کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ہم جان پر کھیل کر اپنی دھرتی کے ایک ایک چپے کو ان ناپاک بستیوں سے پاک کرکے دم لیں گے۔ 
عظیم شہادت، تاریخی جنازہ
برہان مظفروانی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کوکرناگ کے قریب بم دورہ کی بستی میں ایک گھر میں مقیم تھا۔ بھارتی جاسوسوں نے اس کے بارے میں مسلح بھارتی دستوں کو اطلاع دی تو ۸؍جولائی کو انھوں نے اس بستی کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ اس وقت اس کے دو ساتھی سرتاج احمدشیخ اور پرویزاحمد لشکری بھی اس کے ساتھ تھے۔ بستی کے لوگوں نے مسلح بھارتی فورس کا مقابلہ اینٹ پتھر سے کیا۔ اس حملے میں جموں اینڈ کشمیرپولیس کا خصوصی دستہ اور ۱۹راشٹریہ رائفلز کے جوان وافسران بڑی تعداد میں شریک تھے۔ بہت سارے نہتے مقامی شہری زخمی ہوئے، مگر بڑی فورس کے سامنے سینہ سپر رہے۔ ساڑھے چار بجے بعد دوپہر برہان وانی اور اس کے ساتھیوں سے مسلح دستوں کا براہِ راست مقابلہ شروع ہوگیا جو سوا چھ بجے تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں تینوں کشمیری نوجوان شہید ہوگئے۔ ۸؍جولائی ۲۰۱۶ء کو برہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت ہوئی۔ ۹؍جولائی کو برہان وانی کا جنازہ اس کے گاؤں میں پڑھا گیا۔ غیرجانب دار ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹنگ میں بتایا کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں جنازے کے شرکا کی تعداد دو لاکھ کے قریب تھی۔ کشمیر میں ہونے والے کسی بھی جنازے میں یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔ بھارتی فوج نے بدترین تعصب اور بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تعداد ۱۲سے ۱۵ہزار تک بتائی۔ 
عقیدت کا مرکز
شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ کشمیر کے چپے چپے پر اور دنیا کے مختلف ممالک میں ادا کی گئی۔ برہان وانی اپنے خاندان کا دوسرا شہید تھا۔ اس کا بڑا بھائی خالدمظفروانی اس سے قبل شہادت کے درجے پر فائز ہوچکا تھا۔ برہان وانی شہید کو اس کے بھائی خالد شہید کے پہلو میں ترال میں اس کے آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس کی قبر بھی کشمیری مسلمانوں کے لیے عقیدت کا مرکز ہے۔ جو لوگ جنازے میں شریک نہ ہوسکے وہ ہزاروں کی تعداد میں اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے مسلسل آتے رہے۔ اس واقعہ کے بعد ہندو پنڈت اتنے خوف زدہ ہوگئے کہ بڑی تعداد میں وہ امرناتھ یاترا سے بھاگ کر مسلح افواج کے کیمپوں میں چلے گئے۔ ان شہادتوں کے بعد پورے کشمیر میں زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے جو مسلسل جاری ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارتی افواج اور پولیس بے بس ہوگئی۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں