اللہ کے ہر سچے نبی کے مقابلے پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی فرعون میدان میں موجود ہوتا ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا تھا کہ ابوجہل اس امت کا فرعون ہے۔ اس نے اسلام کو مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے مقابلے پر اس کی تمام چالیں ناکام ہوگئیں۔ وہ مکہ سے ایک لشکر تیار کرکے مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے بڑی رعونت کے ساتھ نکلا۔ بدر کے میدان میں کفر واسلام کا پہلا معرکہ ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان سے تعبیر کیا۔ جنگ بدر میں مسلمان ۳۱۳ اور کفار ایک ہزار تھے۔ کفار کے لشکر سے تین جنگجو عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ میدان میں نکلے اور مبارزت کے لیے مسلمانوں کو للکارا۔ ان کے مقابلے پر صحابہ کی طرف سے حضرت حمزہؓ، حضرت عبیدہ بن حارثؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ نکلے۔ تینوں کفار قتل ہوگئے جبکہ حضرت عبیدہ بن حارث شدید زخمی ہوگئے۔ بعد میں اسی زخم کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی۔
عتبہ‘ شیبہ اور ولید کے قتل کے بعد ابوجہل نے قوم سے خطاب کیا اور ان کے جذبہ انتقام کو ابھارا۔ لات اور عزیٰ کی قسمیں دلا کر اس نے قریش کے جوانوں کو حملہ کرنے اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کی ترغیب دی۔ ابوجہل نے اس موقع پر اپنی اس دعا کا پھر اعادہ کیا جو اس نے مکہ سے نکلتے ہوئے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر مانگی تھی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ابوجہل لات و عزیٰ کا حوالہ بھی دیے جارہا تھا اور اﷲ تعالیٰ سے بھی دعا کر رہا تھا۔ اس کی دعا کے یہ الفاظ تاریخ میں نقل کیے گئے ہیں: تر جمہ: اے اﷲ! اس (محمدؐ) نے قطع رحمی کی ہے اور ہمارے پاس ایسا دین (گھڑ) لایا ہے جو ہمارے لیے بالکل غیر معروف ہے۔ پس تو اسے ہلاک کر ڈال ‘‘۔
قریش کی فوج حملہ کے لیے آگے بڑھی تو حضور پاکؐ نے مٹھی میں خاک اور کنکریاں اٹھائیں اور کفا ر کی جانب پھینکتے ہوئے کہا: ''شَاھَتِ الْوُجُوْہُ‘‘ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے صحابہ کو حکم دیا۔ ''ہمت سے کام لو‘‘ چنانچہ صحابہ کرام نے بھی جرأت و شجاعت کے کارنامے سر انجام دیے اور آنحضور کی پھینکی ہوئی خاک بھی قریش پر بجلی بن کر گری۔ اس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ''پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا‘ بلکہ اﷲ نے ان کو قتل کیا اور آپؐ نے (اس خاک کو)نہیں پھینکا‘ بلکہ اﷲ نے پھینکا۔‘‘ (الانفال آیت ۱۷)
ابوجہل اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اسے آنحضور نے 'فِرْعَوْنُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ یعنی اس امت کا فرعون کہہ کر پکارا تھا۔ وہی فوجیں چڑھا کر لایا تھا۔ ابوسفیان کے پیغام اور عتبہ بن ربیعہ کی واپسی کی تجویز کو اس نے سختی اور حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا تھا اور تکبر کا بدترین مظاہرہ کر رہا تھا۔مدینہ میں نوجوانوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا‘ مگر انھوں نے اسے دیکھا ہوا نہیں تھا۔
معاذؓ اور معوذؓ دو نوجوان بھائی تھے۔ یہ مدینہ کی مایہ ناز صحابیہ عفراء کے بیٹے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی عوف بھی جنگ میں شریک تھے۔ تاریخ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عفراء کے چار دوسرے فرزندان عامر‘ خالد‘ ایاس اور عاقل رضی اﷲ عنہم (جو بکیر بن عبدیالیل کے صلب سے تھے) بھی شریک جہاد تھے۔ معاذؓ اور معوذؓ اور عوفؓ کے والد حارث بن رفاع کے ساتھ شادی سے قبل حضرت عفرا بنت عبید بکیر بن عبدیا لیل لیثی کے نکاح میں تھیں۔ بکیر سے ان کے چار اور حارث سے تین بیٹوں نے جنگ بدر میں حصہ لیا اس طرح سیدہ عفراؓ کا یہ منفرد اعزاز ہے کہ ان کے سات لخت جگر کفر و اسلام کی پہلی جنگ میں حق کی خاطر لڑے۔ان کا یہ اعزاز بھی منفرد و بے مثال ہے کہ ان کے تین بیٹے‘ معوذ‘ عوف اور عاقل شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔ سچ ہے۔ ''ایں سعادت بزور بازو نیست‘‘۔واضح رہے کہ چار بیٹے مہاجرین میں شامل تھے جبکہ تین انصار میں۔
معاذؓ اور معوذؓ نے اپنی والدہ سے مکہ کی ۱۳ سالہ تاریخ اسلام کی جزئیات و تفاصیل بارہا سن رکھی تھیں۔ ماں کی اسلام سے والہانہ محبت ان عظیم سپوتوں کے رگ و پے میں بھی رچی بسی تھی۔ ان دونوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے پوچھا: ''چچا جان! ابوجہل کونسا ہے؟‘‘ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا: ''بیٹو تم اسے کیا کرو گے؟‘‘ انھوں نے گرمجوشی سے جواب دیا: ''ہم اسے جہنم واصل کریں گے۔‘‘ حضرت عبدالرحمن ان ناپختہ نوجوانوں کو خطرے میں کودنے سے بچانا چاہتے تھے‘ مگر وہ مچل گئے۔ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اشارہ سے بتایا کہ ابوجہل وہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہے اور جس کے گرد قریش کے نوجوانوں نے سروں کی فصیل بنا رکھی ہے تو یہ دونوں مجاہد باز کی طرح جھپٹے اور دیکھتے ہی دیکھتے ابوجہل تک جا پہنچے۔
معاذؓ اور معوذؓ دونوں بھائی قریش کے جوانوں کی صفیں چیرتے ہوئے ابوجہل پر حملہ آور ہوئے تو قریش کے بہت سے جوانوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حضرت معاذ نے تلوار سے حملہ کرکے ابوجہل کی ٹانگ پنڈلی سے کاٹ دی پھر دونوں بھائیوں نے اسے خاک و خون میں لٹا دیا۔ معاذؓ پر ابوجہل کے بیٹے عکرمہؓ نے تلوار کا شدید وار کیا جس سے ان کا بازو کندھے کے قریب سے کٹ گیا اور محض چمڑی رہ گئی جس کی وجہ سے کٹا ہوا بازو لٹکنے لگا۔ یہ جواں ہمت مجاہد بازو کٹ جانے کے باوجود دشمنوں سے برسر پیکار رہا اور جب یہ محسوس کیا کہ کٹا ہو ابازو جہاد میں رکاوٹ بن رہا ہے تو ہاتھ کو پاؤں کے نیچے رکھ کر بازو اپنے جسم سے الگ کر دیا۔ حضرت معوذؓ بھی زخمی ہوئے‘ مگر ان کا کوئی عضو مجروح نہ ہوا۔ ابوجہل کو قتل کرنے کے بعد وہ دائیں بائیں ہر جانب حملہ آور ہوئے یہاں تک کہ قریش کے ایک ماہر جنگجو ابومسافع نے تلوار سے حملہ کر کے انھیں شہید کر دیا۔ حضرت معاذ کازخم مندمل ہوگیا تھا اور وہ کافی عرصہ زندہ رہے۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق انھوں نے حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ مدینہ منورہ کے بچے ان کے اس ٹنڈ منڈ بازو کو جو کٹ چکا تھا شوق اور عقیدت سے دیکھا کرتے تھے۔ کئی لوگ حتّٰی کہ حضرت عمرؓ بھی ان کے بازو کو چوم لیا کرتے تھے۔
ایک روایت کے مطابق معاذؓ اور معوذؓ نے ابوجہل کو قتل کیا تو اس نے حسرت سے کہا:''افسوس ہے مجھے کاشتکاروں کے لڑکوں نے قتل کر دیا ہے۔‘‘ حضرت معاذؓ نے ابوجہل کے قتل کی اطلاع آنحضورؐ کو دی مگر آپ نے مزید تحقیق کے لیے لوگوں سے استفسار کیا تو عبداﷲ بن مسعودؓ نے عرض کیا۔''یارسول اﷲؐ میں نے اسے بسمل حالت میں دیکھا۔ زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ میں نے اسے کہا:''اے دشمن خدا اﷲ تعالیٰ نے تجھے رسوا کر دیا ہے۔‘‘ اس نے کہا:''رسوائی کی اس میں کیا بات ہے۔ سردار میدان جنگ میں زخمی اور قتل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ تم مجھے یہ بتاؤ کہ فتح کسے ہوئی‘‘ میں نے کہا:''اﷲ اور اس کے رسولؐ کو۔ ''وہ اس کے بعد بھی تکبر سے بڑبڑاتا رہا اور کہا: ''اے بکریوں کے چرواہے تو نے بڑا مقام حاصل کر لیا ہے۔‘‘ جب سیدنا ابن مسعود نے اس کا سر کاٹنا چاہا تو اس نے کہا: ''ذرا نیچے سے میری گردن کاٹنا تاکہ پتہ چل سکے یہ سردارِ قریش کا سر ہے۔‘‘
جنگ بدر میں ۷۰ کفار قتل ہوئے جبکہ ۱۴ صحابہ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے ابوجہل کا سر لاکر حضور کے سامنے پھینک دیا۔ حضوریہ منظر دیکھ کر خدا کے حضور سجدے میں گر گئے اور اس کی حمد و تسبیح میں مصروف ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ''اﷲ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا‘ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور کفر کے لشکروں کو اس وحدہ لاشریک نے تنہا شکست فاش دی۔ ہر امت کا ایک فرعون ہوتا ہے اور اس امت کا فرعون ابوجہل تھا۔‘‘ (البدایہ و النہایہ جلد ۱ صفحہ ۶۲۵-۶۲۶)
نبی اکرم ﷺحضرت عمار بن یاسرؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ابوجہل کی لاش کے پاس گئے اور آپؐ نے فرمایا اے عمار! اللہ تعالیٰ نے تیری والدہ کے قاتل سے بدلہ لے لیا ہے۔ یہ دیکھو اس کی لاش بے بسی کے عالم میں پڑی ہے۔ واقعی ابوجہل بہت بڑا فرعون تھا۔ فرعونِ قومِ موسیٰ تو سمندری لہروں کے تھپیڑے کھا کر پکار اٹھا تھا کہ میں اس رب پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنواسرائیل ایمان لائے‘ مگر اس امت کا فرعون آخر وقت تک اپنے کفر پر ڈٹا رہا۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ہر بندے کا اس کے مقام و مرتبے کے مطابق امتحان لیتا ہے۔ انبیائے کرام کی آزمائش و ابتلا سب سے سخت ہوتی ہے۔ حضور اکرمؐ سیّدکونین اور سردار اولاد آدم ہیں۔ اس لیے آپؐ کے مقابلے پر اﷲ تعالیٰ نے سخت ترین دشمنوں کو کھڑا کیا۔ ابوجہل ان میں سب سے زیادہ سخت جان تھا۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد اول میں صفحہ۶۰۷ ۔ سیرۃ ابن ہشام القسم الاول میں صفحہ ۶۰۶۔ سیرۃ الحلبیہ جلد دوم ص ۱۹۷)