مشکل گھڑیوں میں حقِ قیادت!...(1)

سالارِ کارواں ہے میرِحجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
پاکستان اور پورا عالم اسلام اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ دشمن نے ہر جانب سے گھیرا تنگ کررکھا ہے۔ ہنود ویہود اور صہیونی وصلیبی قوتیں امت مسلمہ کا وجود ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اپنے ان ناپاک عزائم میں ان شاء اللہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ خود اس امت کا محافظ ہے۔ البتہ یہ بات مسلم عوام اور حکمرانوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات اسی وقت بدلتا ہے جب وہ خود ان حالات کو بدلنے کے لیے اپنے اندر مثبت تبدیلیاں لائے۔ امریکہ اور بھارت ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہمیں ان کا ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہیے اور خود کو ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار بھی رکھنا چاہیے۔ امت کے لیے اسوۂ رسولؐ تاقیامت رول ماڈل ہے۔ اے کاش ہم اس حقیقت کو جان لیں۔ 
اس کائنات کا مالک بڑا مہربان ہے۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ وہ اپنے بندوں کو آزمائشوں میں ڈالتا ہے اور جب وہ ان آزمائشوں میں پورے اترتے ہیں تو اس کی نصرت یوں آتی ہے کہ عقل کے پیمانوں سے اسے ناپنا ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ کے نبی کی پوری زندگی آزمائشوں اور کامیابیوں سے عبارت ہے۔ آپؐ نے انتہائی مشکل اور کٹھن مراحل میں حقِ قیادت ادا کرکے امت مسلمہ کے لیے بہترین اسوہ اور مثال قائم کی۔ آپ کی زندگی میں جنگ خندق ایک بہت بڑا معرکہ اور کڑی آزمایش تھی۔ جزیرہ نمائے عرب کی ساری قوتیں جب مجتمع ہوگئیں تو اسلام دشمنوں کو یہ امید بندھی کہ اب وہ اسلام کو ملیامیٹ کردیں گے، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: ''وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔‘‘ (الانفال۸:۳۰)۔ 
جنگوں میں دشمنوں کو بے خبر رکھنا اور ان کی کمزوریوں سے باخبر ہوکر فائدہ اٹھانا جنگی حکمت عملی کا اہم ترین اصول ہے۔ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر جنگ میں ایسی مہارت اور کامیابی کے ساتھ قیادت کا حق ادا کیا کہ آپ کے مدمقابل کوئی سپہ سالار انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتا۔ جنگ خندق میں خطرات کئی گنا تھے۔ یہودی اندر سے سازشیں کررہے تھے اور عرب کے تمام قبائل مدینہ کے باہر محاصرہ کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ منافقین اس صورت حال سے خوف زدہ بھی تھے اور ساتھ ساتھ اسلام دشمنی کے لیے اپنا پراپیگنڈہ بھی مسلسل کرتے چلے جارہے تھے۔ ان مشکل گھڑیوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو حوصلہ اور جرأت ایمانی عطا فرمائی۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اور سچے مومنوں کا (حال اس وقت یہ تھا کہ) جب انھوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے: ''یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی۔‘‘ اس واقعہ نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ (الاحزاب۳۳:۲۲)
جنگ خندق میں جو قابل ذکر اور فیصلہ کن واقعات رونما ہوئے ان میں نعیم بن مسعود کا قبول اسلام اور اسلام کے حق میں جنگی چال نہایت اہم ہے۔ یہ مرد دانا قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتا تھا اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے مشرکین قریش اور غطفان کی فوجوں کے ساتھ مدینے کے محاصرے میں شریک تھا۔ اﷲ کو یہ منظور تھا کہ اس شخص کے ذریعے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا جائے۔ چنانچہ طویل محاصرے کے دوران اس کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی اور اس نے ایک عظیم اور تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ نعیم بن مسعود کا ذکر کیے بغیر جنگ خندق کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔
نعیم بن مسعود کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو اس نے اس کا اظہار کرنے کی بجائے اسے مخفی رکھا۔ سب سے پہلے وہ خفیہ طور پر آنحضورؐ کے پاس حاضر ہوا اور پھر آنحضورؐ کے حکم کے مطابق دشمنان اسلام کے پاس یکے بعد دیگرے گیا۔ آنحضورؐ نے اس عظیم صحابی کو اجازت دی کہ وہ اپنے اسلام کو خفیہ رکھیں اور دشمن کو زک پہنچانے کے لیے حسب ضرورت توریہ سے کام لیں۔ حضرت نعیم بن مسعود نے سب سے پہلے بنو قریظہ سے رابطہ قائم کیا۔ پھر سرداران قریش کے پاس گئے اور سب سے آخر میں اپنے قبیلے بنو غطفان سے بات چیت کی۔ ان کی اس مہم کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔
رات کی تاریکی میں نعیم بن مسعود اپنے خیمے سے نکلے اور لشکر کفار سے بچتے بچاتے خندق کے پاس آ گئے۔ قریش کے لشکر میں سے نکل جانا بھی احتیاط کا کام تھا مگر خندق کے اس پار آنحضورؐ تک پہنچنا اور بھی دشوار تھا۔ دل میں شمع اسلام روشن تھی اور خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ پروانہ شمع کی طرف دیوانہ وار لپک رہا تھا۔ آخر کار وہ شمع رسالتؐ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ انھوں نے آنحضورؐ تک پہنچنے سے پہلے صحابہ کرام سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ایک اہم کام کے سلسلے میں وہ حضور اکرمؐ کی خدمت میں شرف باریابی چاہتے ہیں۔ نعیم بن مسعود معروف آدمی تھے۔ صحابہ انھیں لے کر آنحضورؐ کے پاس پہنچے تو نعیم نے عرض کیا ''یا رسول اﷲؐ! اﷲ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی نعمت عطا فرما دی ہے۔ میرے قبول اسلام کا ابھی تک کسی کو پتہ نہیں۔ میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔ میرے ذہن میں ایک نقشہ ہے جس پر عمل کرکے جنگ کا پانسہ پلٹا جا سکتا ہے۔ پھر انھوں نے وہ پورا نقشہ پیش کیا جس کی تفصیلات آگے آئیں گی۔
حضرت نعیم عرب کے ذہین ترین لوگوں میں سے تھے۔ آنحضورؐ نے ان کی تجویز کی تحسین فرمائی اور کہا الحرب خدعۃ (یعنی جنگ میں تو چالیں ہی چلی جاتی ہیں) آنحضورؐ کا یہ مختصر اور جامع قول میدان حرب و ضرب میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آپ نے اس سے پہلے بھی جنگیں لڑی تھیں مگر یہ پہلا موقع تھا کہ جب آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی تو آپ کے جاں نثار نے اس پر بکمال و تمام عمل کر دکھایا۔
نعیم بن مسعود اپنے دور جوانی سے یثرب آتے رہتے تھے۔ یہاں مختلف لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔ ان سے سب سے زیادہ مانوس بنو قریظہ تھے۔ وہ ان کی مجالس میں بیٹھتے اور ان کی شعر و شاعری اور بادہ و جام سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ رات کی تاریکی میں جب وہ بنو قریظہ کے ہاں پہنچے تو میزبانوں کو کوئی تعجب نہ ہوا۔ یہ مہمان ان کے لیے اجنبی تھا نہ خطرناک! بنو قریظہ نے ان کا استقبال کیا اور انھیں عزت کے ساتھ بٹھایا۔ انھوں نے ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں لا کر رکھ دیں۔ مگر نعیم نے ان سے کہا کہ حالات اتنے خطرناک ہو چکے ہیں کہ مجھے کھانا سوجھتا ہے نہ شراب!
بنو قریظہ کے لوگوں نے تجسس کے ساتھ پوچھا: ''کیا بات ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا: 
''اے بنو قریظہ تم مجھ سے بھی اچھی طرح واقف ہو اور اپنے ساتھ میری دوستی اور محبت کو بھی خوب جانتے ہو۔ میں نے ہمیشہ تمھاری میزبانی کا لطف اٹھایا ہے، تمھاری مجلسوں میں مجھے ہمیشہ اعزاز و اکرام حاصل رہا ہے۔ جواب میں، میں نے بھی ہمیشہ تمھارے ساتھ حسن سلوک کیا اور دوستی کا حق نبھایا ہے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘ بنو قریظہ کے سرداروں نے بیک زبان کہا: ''تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، ہمیں تمھاری دوستی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔‘‘
نعیم بن مسعود نے کہا: ''قریش اور غطفان کا معاملہ تم سے بالکل مختلف ہے۔ قریش اور غطفان دور دراز سے چل کر آئے ہیں۔ ان کے گھر بار اور بال بچے یہاں سے کوسوں دور بالکل محفوظ و مامون ہیں۔ تمھارا معاملہ یہ ہے کہ تمھارے گھر بار اور بال بچے مسلمانوں کی زد میں ہیں۔ قریش اور غطفان کے لوگوں کو میں نے ایسی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے جو پریشان کن ہیں۔ وہ آپس میں محمدؐ کے ساتھ صلح کرنے کی باتیں بھی کرتے ہیں اور کبھی محاصرہ اٹھا کر واپس چلے جانے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فتح مل جائے تو اچھا ہے وگرنہ واپسی کا راستہ کس نے بند کیا ہے؟ جبکہ تمھارا معاملہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا ہے۔ محمدؐ کے ساتھ بھی تم نے اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے اور اتحادی فوجوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے۔‘‘
نعیم بن مسعود کی باتیں سن کر بنی قریظہ سخت پریشان ہوئے۔ انھیں اپنی غلطیوں کا بھی احساس ہوا اور اس مشکل صورت حال سے نکلنے کی فکر بھی دامن گیر ہوئی۔ انھوں نے نعیم سے پوچھا: ''پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ نعیم نے جواب دیا: ''میں ایک دوست کی حیثیت سے حق نصیحت ادا کرتے ہوئے تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ اتحادی فوجوں کو یہ پیغام بھیجو کہ ''اگر تم ہماری حمایت چاہتے ہو تو اپنے ستر منتخب آدمی ہمارے حوالے کر دو۔ اگر قریش اور غطفان کے ستر آدمی تمھارے پاس ہوں گے تو پھر تمھارے ساتھ وہ کوئی بدعہدی نہیں کر سکیں گے۔ ورنہ ان کا کوئی بھروسہ ہے نہ اعتماد۔‘‘(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں