مشکل گھڑیوں میں حقِ قیادت!...(2)

غزوۂ خندق میں پیش آنے والی مشکلات کا تذکرہ پچھلی قسط میں آپ نے دیکھا ۔ اسی حوالے سے بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ نعیم نے ان ستر یرغمالی افراد کے نام بھی تجویز کیے تھے۔ سردار قریش ابوسفیان بن حرب کے بیٹے معاویہ بن ابی سفیان کا نام بھی ان میں شامل تھا۔ بنو قریظہ نے نعیم کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس مشکل وقت میں دوستی کا حق ادا کیا اور انھیں خطرے سے آگاہ کر دیا۔ نعیم نے بنو قریظہ کو تاکید کی کہ اس کی آمد کے بارے میں کسی کو اطلاع نہ دیں۔ رات کی تاریکی ہی میں نعیم واپس اپنے لشکر میں پہنچ گئے۔ 
یہاں سے فارغ ہو کر نعیم فوراً سرداران قریش کے پاس پہنچے اور سپریم کمانڈر ابوسفیان سے ملاقات کی۔ انھوں نے ابوسفیان سے کہا کہ وہ ایک بہت اہم مگر انتہائی خطرناک خبر لائے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہے تو باقی سرداران قریش کو بھی مشاورت میں شریک کر لیا جائے۔ چنانچہ سب سردار جمع ہو گئے۔ نعیم نے اپنی بات کا آغاز یوں کیا: ''سرداران قریش! تمھارے ساتھ میری دوستی اور محبت اور محمدؐ کے ساتھ میری نفرت اور عداوت کوئی راز تو نہیں؟‘‘ سب سرداروں نے کہا ''نہیں اس امر میں کسی کو کیا شک ہے۔‘‘
اب نعیم نے اپنی بات شروع کی: ''تم جانتے ہو کہ بنو قریظہ مجھ پر بڑا اعتماد کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنو قریظہ کو محمدؐ کے ساتھ معاہدہ توڑنے پر سخت ندامت ہے۔ انھوں نے محمدؐ کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے اور تجدید عہد کے لیے ان کے درمیان یہ بات طے پا گئی ہے کہ بنو قریظہ قریش اور غطفان کے ستر منتخب افراد محمدؐ کے حوالے کر دیں گے تاکہ وہ ان کی گردنیں کاٹ سکے۔ بنو قریظہ کی اس پیش کش کو محمدؐ اور اس کے ساتھیوں نے قبول کر لیا ہے اور اس شرط کے پورا ہونے پر ان کی بدعہدی معاف کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔‘‘
قریش کے سردار غم و غصے کے ساتھ یہودیوں کی بے وفائی کا تذکرہ سن رہے تھے اور خوف و دہشت ان کے دل و دماغ پر حاوی تھی۔ نعیم نے دیکھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے تو فرمایا : ''یہودیوں کا پیغام ملے تو ایک آدمی بھی ان کے حوالے نہ کرنا۔‘‘
قریش ایک جانب صورت حال سے مایوس تھے، اپنے دل میں یہودیوں کو کوس رہے تھے اور دوسری جانب نعیم بن مسعود کے شکر گزار تھے کہ اس نے انھیں بروقت متنبہ کرکے ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ اس کے بعد قریش نے نعیم بن مسعود کو اکرام و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔
سب سے آخر میں حضرت نعیم اپنے قبیلے غطفان میں پہنچے اور سرداران قبیلہ عیینہ بن حصن الفزاری، طلیحہ بن خویلد الاسدی اور حارث بن عوف المری سے ملاقات کرکے کہا: ''اے سرداران غطفان! میں غطفان کا فرزند ہوں۔ غطفان میری اصل اور جڑ ہیں۔ مجھے ساری دنیا سے زیادہ ان سے محبت ہے۔ آپ لوگوں کو اس بارے میں کوئی شک تو نہیں؟ ان سب نے بالاتفاق کہا ''جو کچھ تم کہہ رہے ہو ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا :''میرے پاس ایک بڑی اہم خبر ہے۔ میں تمھیں ایک راز بتانے جا رہا ہوں۔ اسے فاش تو نہیں کرو گے؟‘‘
اب بنو غطفان کو بھی انھوں نے بنو قریظہ کے بارے میں وہی بات بتائی جو قریش کو بتا چکے تھے اور پھر تاکیداً کہا کہ ان یہودیوں کو اپنا ایک فرد بھی ضمانت کے طور پر نہ دینا۔ سرداران غطفان نے کہا کہ وہ اس نصیحت کے مطابق عمل کریں گے۔ انھوں نے اپنے قبیلے کے سپوت کا شکریہ بھی ادا کیا جس نے انھیں خطرے سے بروقت آگاہ کر دیا تھا۔
نعیم بن مسعود نے اپنی چال خوب چلی۔ اتحادی فوجوں نے آپس میں مشورہ کیا۔ انھیں یہودیوں کی بدعہدی پر بڑا افسوس ہوا۔ انھوں نے ایک وفد ترتیب دیا جو جمعے کی شام کو یہودیوں کے قلعے میں پہنچا۔ وفد نے براہ راست بات کرنے کی بجائے بالواسطہ حقیقت حال معلوم کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا: ''محاصرہ کافی طویل ہو چکا ہے۔ اب ہمیں فیصلہ کن اقدام کرنا ہے۔ کل صبح ہم دشمن پر کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ ہماری نظریں آپ لوگوں پر لگی ہوئی ہیں۔‘‘
بنو قریظہ نے بھی براہ راست اپنا مطالبہ پیش کرنے کی بجائے یوم السبت کا عذر پیش کر دیا۔ اور کہا: ''تم جانتے ہو کہ کل تو یوم السبت ہے اور ہم سبت کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں کر سکتے۔ پھر تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہماری اور تمھاری حیثیت میں بڑا فرق ہے۔ سبت کے بعد تم حملہ کرو تو ہم تمھارا ساتھ اس شرط کے ساتھ دے سکتے ہیں کہ تم اپنے ستر آدمی ہمارے پاس بھیج دو۔‘‘ یہودیوں کی بات سن کر وفد کو یقین ہو گیا کہ نعیم بن مسعود نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا مگر یہودیوں کو کوئی حتمی جواب دینے کی بجائے انھوں نے کہا کہ ہم اپنے سرداروں سے جا کر مشورہ کریں گے۔ جب وفد نے اتحادی فوجوں کے سرداروں کو اپنے مشن کی رپورٹ دی تو ان کے دلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دوسرا وفد بھیجا جائے جو جا کر یہودیوں کو اس بات پر راضی کرے کہ وہ یرغمال کے بغیر اتحادی فوجوں کا ساتھ دیں۔ یہ وفد یہودیوں کے پاس پہنچا اور ان کو بتایا کہ یرغمال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے اور تمھارے درمیان دوستی بھی موجود ہے اور محمدؐ سے عداوت کی وجہ سے ایک قدر مشترک بھی موجود ہے، لہٰذا تمھارا یہ مطالبہ بالکل نامناسب ہے۔
بنو قریظہ کے یہودیوں نے کہا کہ ان چکنی چپڑی باتوں سے ہم ہرگز قائل نہیں ہو سکتے۔ ابن سعد نے طبقات الکبریٰ کی جلد دوم کے صفحہ ۶۹ پر بیان کیا ہے کہ بنو نضیر کے سردار حیَیْ بن اخطب نے بنو قریظہ کو آمادہ کرنا چاہا کہ وہ قریش کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ وہ شیطان اسلام کا اتنا بڑا دشمن تھا کہ ہر قیمت پر پیغمبر اسلام کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔ مگر اس موقع پر اس کی بھی دال نہ گلی اور بنو قریظہ نے حتمی انداز میں کہا :''خدا کی قسم ہم ہرگز ہتھیار نہ اٹھائیں گے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام جلد دوم ص ۲۲۹-۲۳۰ اور البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۷۳۴-۷۳۵ پر بھی اس واقعہ کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں)۔
کفار اور یہودیوں کے درمیان اختلافات کے بعد بنو قریظہ کو احساس ہوا کہ انھوں نے جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ انھی کی تباہی کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔ اب مجبوراً انھوں نے آنحضورؐ کے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا اور درخواست کی کہ ہم آپ کے ساتھ مصالحت کرنا چاہتے ہیں بشرطیکہ آپ ہمارے جلا وطن بھائیوں بنو نضیر کو مدینہ واپس آنے کی اجازت دے دیں۔ آنحضورؐ نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔ امام بیہقی نے یہ واقعہ دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
اتحادی فوجوں کے حوصلے پہلے بھی کچھ بلند نہیں تھے مگر یہودیوں کے طرز عمل نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ حملہ آور فوجوں نے تقریباً تیس شب و روز سے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر رکھا تھا مگر انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ ان کی خوراک کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا۔ جانور ذبح ہو چکے تھے۔ سواری کے جانوروں میں سے بھی بہت سے بھوک اور سردی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے اور باقی ماندہ بھی انتہائی لاغر اور کمزور ہو چکے تھے۔ اتحادی فوجوں نے یہودیوں کی بے وفائی پر ہنگامی اجلاس میں غوروخوض کیا تو سب سرداروں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہودیوں کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے اور اپنے اپنے علاقوں کی راہ لی جائے۔ یہ بدترین ہزیمت تھی جو ان اتحادی فوجوں کا مقدر بنی۔ 
اس دوران میں وہ شدید طوفان آ گیا جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الاحزاب میں فرمایا ہے: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں۔ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کررہے تھے۔ جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ ائے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے، اس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا دیے گئے۔‘‘ (الاحزاب۳۳:۹-۱۱)۔
اللہ کی یہ نصرت بلاشبہ فیصلہ کن تھی۔ کفار کے محاصرہ اٹھا کر بھاگ جانے کے بعد اللہ کے نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ''کفارِ مکہ اب کبھی تم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے۔ اب تم لوگ ان پر چڑھائی کرو گے۔‘‘ جب آنحضورؐ خندق پر اپنا مورچہ خالی کرکے گھر تشریف لائے اور ہتھیار کھولنے لگے تو جبریلؑ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپ کیوں ہتھیار کھول رہے ہیں۔ فرشتوں نے تو ہتھیار نہیں کھولے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دشمن تو جاچکا ہے۔ جواب میں جبریلؑ نے کہا: ''نہیں (بدترین دشمن) بنو قریظہ کو سزا دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔‘‘ چنانچہ آنحضورؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ ہر شخص عصر کی نماز بنوقریظہ کے علاقے میں جا کر پڑھے۔ اس کے بعد بنوقریظہ کا بھی عبرت ناک انجام ہوا جو تاریخ اسلامی کا ایک عظیم باب ہے۔ آج بھی امت پرآشوب حالات سے دوچار ہے۔ سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں ہی ان حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں