آنحضورﷺ کے معجزات!

اﷲ تعالیٰ نے آنحضورؐ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے تھے۔ سیرت نبوی میں جگہ جگہ ان معجزات کا ذکر ملتا ہے۔ غزوہ خندق کے دوران میں بھی کئی معجزات رونما ہوئے۔ ہم ان معجزات کا تذکرہ مختصر الفاظ میں اس مضمون میں نذر قارئین کر رہے ہیں۔ معجزات کے ذکر سے قبل مختصراً معجزات کے بارے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ یہ کائنات گو ناگوں آیات سے مالا مال ہے۔ خالق حقیقی نے ہر چیز کو کامل حکمت اور بے مثال دانائی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس وسیع و عریض کون و مکان کی کوئی چیز فضول ہے نہ بے مقصد۔ انسان کی اپنی کم فہمی اور کوتاہ بینی ہے کہ یہ ٹھوکریں کھاتا ہے، نہ کائنات کو ٹھیک طرح سمجھتا ہے نہ اس کے عظیم خالق تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ یوں وہ خود اپنے آپ سے بھی بے خبر رہتا ہے۔ جانوروں کی طرح کھاتا پیتا ہے اور ان سے زیادہ جاہل اور گمراہ بن جاتا ہے۔
انسان کو گمراہی سے نکالنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیاء بھیجے۔ انبیاء ہر دور اور قوم میں مبعوث ہوتے رہے۔ وہ انسانوں کے درمیان ممتاز اور منفرد مقام رکھتے تھے۔ انسان ہونے کے باوجود وہ عام انسانوں کے برعکس معصوم تھے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی زمین پر اس کے نمایندے اور نقیب تھے۔ اﷲ سے ان کا تعلق وحی کے ذریعے قائم رہتا تھا اور اﷲ تعالیٰ ان تک وحی کے ذریعے اپنی ہدایات اور اپنی مرضی کے پیغام مسلسل پہنچاتا رہتا تھا۔ انبیاء کا یہ زریں سلسلہ سید الانام، خیر الخلائق، سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ پر مکمل ہو گیا۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔ آپ ؐکے بعد کوئی نبی نہیں۔
اﷲ تعالیٰ جہاں اپنے نبیوں کو وحی و عصمت سے نوازتا ہے وہاں وہ انھیں معجزات بھی عطا کرتا ہے۔ معجزات کو آیات و براہین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ معجزات کا مطالبہ کرنے والے معجزات کو دیکھنے کے باوجود اکثر ایمان سے محروم اور گمراہی میں مبتلا رہے۔ ان کے برخلاف جنھیں ایمان لانا تھا انھوں نے نہ آیات و معجزات کا مطالبہ کیا نہ معجزات دیکھ کر کسی شک و تذبذب میں پڑے۔ وہ انبیاء پر ان کی صداقت اور ان کے پیغام کی حقانیت کی بدولت ایمان لائے اور جب معجزات رونما ہوئے تو ان کے ایمان و یقین میں اور اضافہ ہوا۔ منکرین حق معجزات دیکھ کر اپنی ہٹ دھرمی اور ضد میں اور پختہ ہوتے چلے گئے اور کبھی شاذو نادر ہی ان معجزات کو دیکھ کر کوئی خوش قسمت انسان دولت ایمان سے بہرہ ور ہوتا۔
معجزات کیا ہیں؟ معجزے کا مادہ عجز ہے۔ معجزہ ایسے عظیم الشان واقعہ یا خرق عادت کو کہتے ہیں جو عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔ انسانی قوت اس کے صدور میں عاجز و بے بس اور انسانی عقل اس کی عام قوانین و قواعد کے تحت توجیہہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ معجزہ انسان کی محدود قوتوں سے ماورا ایک مافوق الفطرت وقوعہ ہوتا ہے اور انسان کو مکمل طور پر عاجز کر دیتا ہے۔
معجزہ خالصتاً اﷲ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے۔ نبی یا رسول کبھی معجزہ کو اپنی قوت و صلاحیت کا نتیجہ قرار نہیں دیا کرتے۔ اﷲ تعالیٰ نبیوں کے ہاتھوں معجزات رونما کرتا ہے۔ جو لوگ معجزات کا انکار کر دیتے ہیں ان بد نصیبوں پر ترس آتا ہے کہ وہ کتنے کم عقل و کم سواد ہیں اور جو لوگ معجزات کو مانتے ہیں مگر منکرین کی تسلی کرانے اور ان کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے معجزات کی سائنسی اور عقلی توجیہات پیش کرنے لگتے ہیں ان پر افسوس ہوتا ہے کہ کس قدر سادہ لوح ہیں۔ معجزے کی اگر آپ توجیہات پیش کر سکیں اور عام رونما ہونے والے واقعات کی طرح وہ بھی محض ایک عجیب و غریب قسم کا واقعہ ہی ہو تو پھر وہ معجزہ کا ہے کو ہوا۔ معجزات کے منکرین کی بے عقلی تو اسی سے واضح ہے کہ جب وہ اپنی محدود عقل سے ماورا کسی چیز کے بارے میں سنتے ہیں تو اپنی حدود پہچاننے کی بجائے وہ اس چیز ہی کا انکار کر دیتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے بیج سے کونپل کا پھوٹنا اور تنا ور درخت بن جانا چونکہ روز مرہ کی بات ہے اس لیے اس پر کسی کو تعجب ہوتا ہے نہ اعتراض مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اپنی جگہ حیران کن بات نہیں ہے؟ یقینا یہ بڑی عظیم بات ہے مگر ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہوتی رہتی ہے۔ اس لیے ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ نہ تعجب کرتے ہیں نہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ حقیر سے بیج کو ایک عظیم الشان تناور درخت میں کون تبدیل کرتا ہے؟ جو خالق و مالک یہ کام کرتا ہے وہی اپنی قدرت کاملہ سے اپنے انبیاء کو معجزات عطا کرتا ہے۔ ہم ان کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں مگر ہماری سمجھ کا محدود اور ہمارے ادراک کا ناقص ہونا اس بات کے لیے ہرگز کوئی دلیل نہیں کہ معجزات و آیات کا انکار کر دیا جائے۔
حضور ختمی مرتبتؐ سے آپ کے دشمنوں نے بارہا معجزات کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطالبات کا قرآن مجید میں تفصیل سے ذکر ہے۔ ان مطالبات کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ معجزات دکھانے پر قادر ہے مگر منکرین کی ہٹ دھرمی معجزات کے باوجود قائم رہے گی۔ پھر اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے جو تاقیامت لوگوں کے سامنے موجود رہے گا۔ اس عظیم الشان کلام ربانی کی معجزبیانی کا مقابلہ جن و انس مل کر نہیں کر سکتے۔ اس جیسی ایک سورہ یا ایک آیت بھی پیش کرنے سے ساری دنیا قاصر ہے۔ قرآن نے منکرین کو جگہ جگہ چیلنج کیا ہے کہ اگر وہ اس کے کلام ربانی ہونے کے بارے میں شک و شبہ رکھتے ہیں تو پھر اس کا مقابلہ کر لیں۔ وہ اس چیلنج کے جواب میں بالکل عاجز ہیں۔ ''اور اگر تمھیں اس بارے میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہم نواؤں کو بلاؤ اور اﷲ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو ...‘‘ (البقرہ آیت ۲۳) یہی مضمون سورۂ ہود آیت ۱۳ اور سورۂ یونس آیت ۳۸ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔
کافروں کے معجزات کے مطالبے عجیب و غریب ہوتے تھے۔ سورۂ انعام آیت ۳۷ میں اﷲ تعالیٰ نے ان کے مطالبوں کا ذکر کرکے فرمایا: 
کہو اﷲ نشانی اتارنے کی پوری قدرت رکھتا ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نادانی میں مبتلا ہیں۔
سورۂ العنکبوت میں ان کے جواب میں فرمایا: 
اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔
ایمان نہ لانے والوں کو نہ کوئی آیت نظر آتی ہے نہ معجزات سے ان کے اعتراضات ختم ہو سکتے ہیں۔ معجزہ شق القمر کے بارے میں ارشاد ہے:
قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔
انسان کا حال بھی عجیب ہے جن بتوں کی وہ پوجا پاٹ کرتا اور جن جھوٹے خداؤں کے سامنے وہ سر جھکاتا ہے کیا ان سے کوئی معجزہ صادر ہوتا ہے؟ کیا ان کے اندر کوئی قدرت و صلاحیت پائی جاتی ہے؟ ان بے بس اور بے اختیار بلکہ بے جان وبے شعور بتوں کی بندگی اختیار کرنے کے لیے تو نہ کسی نشانی کی ضرورت محسوس کرتا ہے، نہ کسی دلیل کا محتاج ہوتا ہے مگر سچے خدا اور خالق حقیقی کے وجود کو ماننے کے لیے معجزات کا مطالبہ کرتا ہے پھر جب اﷲ کے محبوب بندے، انبیاء و رسل اس کی قدرت سے کوئی معجزہ دکھا دیتے ہیں تو اسے ماننے کی بجائے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا کیا۔ ان معجزات کا صدور اﷲ کی قدرت سے ہوتا ہے، وہی منبع قوت اور قادر مطلق ہے۔ انبیاء اس وقت تک کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتے جب تک اﷲ نہ چاہے۔ ناقہ صالح علیہ السلام بھی معجزہ تھا اور عصائے موسیٰ علیہ السلام بھی معجزہ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دست شفا بھی آیات ربانی میں سے تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ سے زندہ نکل آنا بھی خدا کی نشانی تھی۔ حضور اکرمؐ کو اس نوعیت کے اتنے معجزات عطا ہوئے تھے کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔ ان سب معجزات میں قرآن مجید کا سب سے نمایاں مقام ہے۔
قرآن عظیم تو ایک زندہ معجزہ ہے مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو بے شمار معجزات عطا فرمائے تھے۔ ان معجزات کو دیکھ کر اہل ایمان کے ایمان و ایقان میں اس دور میں بھی اضافہ ہوا تھا اور آج بھی ان کا تذکرہ قلب و روح کی بالیدگی اور یقین کی محکمی کا باعث بنتا ہے۔ معجزات پر قدیم و جدید سبھی مصنفین نے بڑی تحقیق کی ہے اور بے پایاں محبت و عقیدت کے ساتھ ان روح پر ور واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں