فراعنۂ مصر اور بندگانِ حق!

کینیا میں قیام کے دوران عالم اسلام کی بہت سی اہم شخصیات سے ذاتی تعارف اور استفادے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو خاص صلاحیتیں بخشی ہوتی ہیں۔ جو لوگ اپنی ان صلاحیتوں کو حق کی سربلندی کے لیے وقف کر دیتے ہیں، وہی پہاڑی کا چراغ اور زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ وہ دنیا سے چلے بھی جائیں تو ان کی جلائی ہوئیں شمعیں کوئی گُل نہیں کرسکتا۔ ایسے لوگوں کے رشحاتِ قلم اور نقوشِ پا آنے والے قافلوں کو حوصلہ، عزم اور منزل کا پتہ دیتے ہیں۔ انھی شخصیتوں میں سے مصر کے مایہ ناز، داعیٔ حق جناب محمد مہدی عاکف بھی تھے۔ وہ گزشتہ صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں ریاض میں قائم ندوۃ الشباب (World Assembly of Muslim Youth)کے ساتھ مل کر یوتھ کیمپس پوری دنیا میں منظم کر رہے تھے۔ ان کیمپس میں اخلاقی تربیت و تزکیہ اور جسمانی و رزش و ریاضت کا پورا کورس کروایا جاتا تھا۔ یہ تمام کیمپ کسی قسم کے اسلحے کی تربیت نہیں دیتے تھے۔ جناب محمد مہدی عاکف ان کیمپوں کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو اسلام پر عمل کرنے کے قابل بنادیتے تھے۔ 
جناب محمد مہدی عاکف 89سال کی عمر میں 22ستمبر2017ء کی شام قاہرہ میں دورانِ قید اللہ کو پیارے ہوگئے۔ وہ جولائی 2013ء سے جیل میں تھے ۔ وقت کے ظالم فرعون کا ظلم جاری ہے، مگر اللہ کا وہ عظیم بندہ اپنا دورِ آزمایش مکمل کرکے اس امتحان میں سرخرو ہو کر اپنے رب کے حضور پہنچ گیا ہے۔ محمد مہدی عاکف جنوری2004ء سے جنوری 2010ء تک اخوان کے مرشد عام رہے۔ محمد مہدی عاکف کو جوانی سے بڑھاپے تک زندگی میں بارہا جیل کے مصائب ومشقتوں سے گزرنا پڑا، مگر وہ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ 2013ء میں جب مصر کے ظالم فوجیوں نے ملک کی تاریخ میں منتخب ہونے والے پہلے جمہوری صدر جناب محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا تو تمام اخوان پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 14جولائی2013ء کو پچاسی سال کی عمر میںمرحوم کو گرفتار کرلیا گیا اور جعلی عدالت کے ذریعے عمرقید کی سزا سنا کر انہیں جیل میں بند کردیا گیا۔
بڑھاپے اور کینسر کے ساتھ دیگر کئی بیماریوں کی وجہ سے جناب محمد مہدی عاکف کی صحت بہت خراب ہوگئی۔ ان کے اہلِ خانہ نے اپیل کی کہ انھیں ہسپتال میں علاج کی اجازت دی جائے۔ پہلے تو اس کا انکار کردیا گیا، بعد میں انھیں ایک سرکاری ہسپتال میں منتقل تو کیا گیا، مگر وہاں بھی جیل کی طرح بدترین پابندیاں اور سختیاں تھیں۔ ان کے اہل وعیال کے مطابق وہاں ان کا کوئی مناسب علاج نہیں ہورہا تھا اور اس بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود ان کے عزیز واقارب کو ان سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ آخری مہینوں میں ہفتے میں ایک روز نہایت مختصر وقت کے لیے ان کے خاندان کے کسی ایک فرد کو ملاقات کی اجازت ملتی تھی۔ عموماً ان کی بیٹی ان سے ملنے کے لیے ہسپتال جاتی تھیں۔ 
حکومت کی طرف سے اس عظیم ولی اللہ کو دھمکیوں کے ساتھ آخری ایام میں ترغیب وتحریص کے جال میں پھانسنے کی بھی کوشش کی گئی۔ انھیں کہا گیا کہ آپ ملک کے حکمران جنرل سیسی کے نام معافی نامہ لکھ دیں تو آپ کو جیل سے گھر بھیج دیا جائے گا۔ انھوں نے بڑے تحمل کے ساتھ فرمایا: ''میں نے ساری زندگی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے گزاری۔ اب ان آخری لمحات میں اپنا سارا کیا کرایا برباد کردوں۔ اگر جیل میں میری موت آگئی تو ان شاء اللہ مجھے اللہ تعالیٰ شہدا میں شامل فرمائے گا۔‘‘
آخر وہ لمحہ آگیا، جس کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہو (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آنے والا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ (العنکبوت:۵)۔ اس کے ساتھ اسی سورہ کی اس سے قبل والی آیت ملاحظہ فرمائیے۔ رب کائنا ت کا حکم ہے: ''اور کیا وہ لوگ جو بری حرکتیں کررہے ہیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ ہم سے بازی لے جائیں گے؟ بڑا غلط حکم ہے جو وہ لگارہے ہیں۔‘‘ (آیت نمبر۴)۔ حقیقت یہ ہے کہ جناب محمد مہدی عاکف کے ان آخری دنوں میں یہ دونوں آیات یاد آتی رہیں اور 22ستمبر کی رات کو عشاء کے بعد عزیزم حافظ طلحہ داؤد نے جب یہ خبر سنائی تو بے ساختہ یہ آیات زبان پر جاری ہوگئیں۔
بعد میں جو تفصیلات سامنے آئیں انھوں نے ان آیات کی اثر پذیری میں اور اضافہ کردیا۔ وفات کے بعد ان کے خاندان کو شہید کا جسدِخاکی اس فرعونی حکم کے ساتھ دیا گیا کہ ان کے جنازے میں لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ خاندان کے لوگ راتوں رات ان کو دفن کردیں۔ پھر سنگینوں کے سائے میں یہ سارا عمل مکمل کرایا گیا۔ خدائے دیرگیر یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ اخوان کے ساتویں مرشدعام محمدمہدی عاکف تو جنت کی وسعتوں میں پہنچ گئے اور ان کے جلاد بہت جلد اپنے انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ 
جوں ہی مرحوم کے جنازے کے بارے میں اس ظالمانہ حکم کا علم ہوا تو سوچا کہ اس عظیم بندے کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جائے۔ پوری دنیا میں اہلِ ایمان اس عظیم مربی اور داعی ٔ اسلام کے لیے غائبانہ نماز جنازہ اور پرخلوص دعاؤں کا اہتمام کررہے تھے۔ 23ستمبر کو جامع مسجد منصورہ میں شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا عبدالمالک صاحب نے شہیداسلام کی نماز جنازہ میں جہری دعائیں پڑھیں تو تمام نمازیوں پر ایک عجیب رِقّت آمیزاورجذباتی کیفیت طاری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کے ہزاروں اخوانی رفقاء مردووخواتین جوجیلوں کی کال کوٹھڑیوں میں ظلم سہہ رہے ہیں ،کواپنے خصوصی فضل ورحمت سے اس ابتلا سے نجات عطا فرمائے۔ دنیا اندھی بہری ہوگئی ہے، مگر اللہ تو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
محمدمہدی عاکف مصر میں دقہلیہ کے علاقے کَفرعوض السنیطہ کے ایک گاؤں میں 12جولائی 1928ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین خوش حال تھے اور آپ کے دس بہن بھائی تھے۔ قاہرہ کے شمال میں معروف شہر المنصورہ میں ان کا بچپن گزرا۔ محمد علی پرائمری سکول منصورہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ قاہرہ میں منتقل ہوگئے۔ یہاں قاہرہ کے علاقے السکاکینی میں انھوں نے سیکنڈری سکول تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے مزاج اور افتادِ طبع کے مطابق اپنے والدین سے اجازت لے کر ہائرایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ فار فزیکل ایجوکیشن میں داخل ہوئے اور یہاں سے 1950ء میں سند حاصل کی۔ کچھ عرصہ مدرسہ ثانویہ فؤاد الاول میں فزیکل انسٹرکٹر کے طور پر کام کیا۔
مرحوم 12سال کی عمر میں 1940ء میں اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے اور اس چھوٹی عمر میں ہی امام حسن البناء کی خدمت میں حاضری دی۔ امام ان کی ذہانت بھری گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے ساتھ رابطہ رکھو۔ اخوان کے بانی ارکان میں سے شیخ محب الدین الخطیب کی ذمہ داری لگی کہ وہ اس ننھے داعیٔ حق پر خصوصی توجہ دیںکیونکہ مرشدعام نے اپنی بے مثال ذہانت سے سمجھ لیا تھا کہ نوخیز مجاہد عظیم انسان بنے گا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ساتھ جناب محمد مہدی عاکف اخوان کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ خاص طور پر شباب کے شعبے میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ 1951ء میں کلیۃ الحقوق سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر جامعہ ابراہیم عین الشمس میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنے اور ٹریننگ دینے کے لیے کچھ وقت گزارا۔ 1954ء میں جب اخوان پر پابندی لگی تو اس وقت محمد مہدی عاکف اخوان کے طلبہ ونگ کے صدر تھے۔ اگست 1954ء میں ایک جھوٹے الزام کے تحت انھیں پہلی مرتبہ جیل میں ڈالا گیا۔ ان پر حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے کا الزام تھا۔ انھیں سزائے موت سنائی گئی جو بعد میں عمرقید میں تبدیل ہوگئی۔ 20سال بعد 1974ء میں وہ جیل سے باہر آئے۔ 
جرمنی کے شہر میونخ میں بھی کچھ عرصہ اسلامی مرکز کی نگرانی کرتے رہے۔ یوں ان کی زندگی گوناگوں مصروفیات میں گزری۔ اخوان المسلمون میں 1987ء میں مکتب ارشاد (مرکزی مجلس شوریٰ) کے رکن منتخب ہوئے اور زندگی کے آخری لمحات تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ بیچ میں 2004ء سے 2010ء تک جناب مامون الہضیبی کی وفات کے بعد مرشد عام کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ 1987ء میں جناب محمد مہدی عاکف مشرقی قاہرہ کے حلقے سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس دور میں انھوں نے پارلیمنٹ میں بہت فعال کردار ادا کیا۔ 1996ء میں انھیں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا کہ وہ عالمی اخوان المسلمون کی سربراہی کررہے ہیں۔ تین سال بعد 1999ء میں انھیں رہا کیا گیا تھا۔ 
جناب محمد مہدی عاکف مرحوم نے مسلسل جیلوں میں وقت گزارنے کی بنا پر بہت لیٹ شادی کی۔ اللہ نے انھیں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں عطافرمائیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی 2006ء میں ہوئی۔ مرحوم کئی بار پاکستان تشریف لائے۔ وہ اپنی بات حکمت، مگر جرأت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ یہودیوں کے پراپیگنڈے ہولوکاسٹ کے بارے میں انھوں نے فرمایا کہ اس میں شرم ناک حد تک مبالغے کیے گئے ہیں۔ اس وجہ سے وہ عالم مغرب اور بالخصوص صہیونیوں کے نزدیک ہمیشہ گردن زدنی قرار پائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندے کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں