میرے مربیّ پروفیسر غلام اعظمؒ!…(2)

پروفیسر غلام اعظم نیک اور متقی انسان تھے۔ اس کے ساتھ نہایت بہادر اور نڈر مسلمان! دورِ جوانی سے عالمِ پیری تک مسلسل جدوجہد اور پورے عزم کے ساتھ اسلام کی سربلندی اور ملتِ اسلامیہ کی خیر خواہی میں زندگی کا ہر لمحہ بیتایا۔ وہ سراپا خیر انسان تھے۔ ان کی زندگی میں کبھی دو رنگی نہ دیکھی گئی۔ بزدلی اور ہزیمت کا کوئی شائبہ تک اس عظیم انسان کی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ اقبال کے اس شعر کا حقیقی مصداق تھے۔ 
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی 
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
۹۰سال کی عمر میں جیل جانے سے قبل اپنی یادگار تحریر بنگلہ دیش میں مظالم کی داستان لکھی۔ پروفیسر غلام اعظم صاحب نے اپنے اس تاریخی کتابچے میں لکھا: 
''نومبر2011ء میں‘ میں 89سال کی عمر کو پہنچ گیا تھا اور اب میں 90 سال کے پیٹے میں ہوں۔ بڑھاپا سو بیماریوں کو ساتھ لاتا ہے اور میرے دائیں پائوں اور بائیں گھٹنے میں مسلسل تکلیف رہتی ہے۔ اس مرض پر قابو پانے کے لیے مجھے دن میں دو مرتبہ exercise کرنا پڑتی ہے جس کے لیے میں کسی دوسرے فرد کا سہارا لینے پر مجبور ہوتا ہوں۔ میں اکیلا چل پھر بھی نہیں سکتا لہٰذا میں دائیں ہاتھ میں بیساکھی کا سہارا لے کر اور اپنا بایاں ہاتھ کسی کے کندھے پر رکھ کر نماز کے لیے مسجد جاتا ہوں۔ اس حالت میں غیر ضروری طور پر کہیں آ جا بھی نہیں سکتا۔ پھر بلڈ پریشر اور دیگر متعدد بیماریوں کے حوالے سے مجھے روزانہ کئی بار باقاعدگی سے دوائیاں لینی پڑتی ہیں۔ اس حال میں بھی حکومت مجھے جیل بھیج رہی ہے۔ میں اس سے پہلے چار بار جیل جا چکا ہوں۔ مجھے جیل یا موت سے کوئی خوف نہیں۔
الحمدللہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ڈرتا نہیں۔ میں شہید ہونے کی تمنا لے کر ہی اسلامی تحریک میں شامل ہوا تھا۔ اب اگر اس جھوٹے مقدمے میں مجھے پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا تو مجھے شہادت کا درجہ ملے گا، جو یقینا میرے لیے خوش قسمتی کا باعث ہو گا۔ اس عمر رسیدگی اور بیماریوں کی بھرمار کے ساتھ جیل میں میرا وقت کس طرح گزرے گا، اس کو میں اپنے اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 11 برس پہلے یعنی 2000ء میں رضاکارانہ طور پر جماعت اسلامی کے امیر کی ذمہ داری سے از خود فراغت لینے کے بعد میں نے کبھی کوئی سیاسی بیان نہیں دیا لیکن گزشتہ کچھ دنوں سے میرے خلاف میڈیا میں جو جھوٹا، بے بنیاد اور من گھڑت پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں سچائی کو سامنے لانے کے لیے مجھے کچھ کہنا چاہیے۔‘‘ (صفحہ 3-4) 
''میں پیدایشی لحاظ سے اس ملک کا باشندہ ہوں۔ 1922ء میں لکشمی بازار ڈھاکہ میں‘ اپنے ننھیال میں پیدا ہوا۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان بھی ڈھاکہ ہی کے تعلیمی اداروں سے پاس کیا اور پھر ڈھاکہ یونی ورسٹی سے بی اے اور ایم اے (سیاسیات) مکمل کیا اور طلبہ سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1947ء اور 1949ء میں لگاتار دوبار میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کا جنرل سیکرٹری منتخب ہوا۔ میں فضل الحق مسلم ہال کی سٹوڈنٹس یونین کا سیکرٹری جنرل بھی رہا۔ نومبر 1948ء میں بنگلہ زبان کو بھی پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دلانے کا میمورنڈم، میں نے خود اس وقت کے وزیراعظم پاکستان‘ نواب زادہ لیاقت علی خاں کو پیش کیا تھا۔ اسی تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے 1952ء اور 1955ء میں دو دفعہ گرفتار ہوا اور جیل کاٹی۔ میں نے 1954ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور یوں میری سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
متحدہ پاکستان میں 1955ء سے لے کر 1971ء تک میں نے تمام جمہوری تحریکوں میں حصہ لیا۔ سی او پی (کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز)، پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)، ڈی اے سی (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی) کی سرگرمیوں میں میرا بڑا مؤثر کردار رہا۔ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر سیاسی لیڈر شپ کے شانہ بشانہ میں نے جمہوریت کے لیے کام کیا۔ 1964ء میں حکومت سے سیاسی اختلاف کے باعث میں گرفتار ہو گیا۔ 1970ء میں جب عوامی لیگ نے عام انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی تو میں نے شیخ مجیب الرحمن اور اس کی پارٹی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔‘‘ (صفحہ4)
''حکومت نے اب جو قدم اٹھایا ہے اس کے پیچھے کوئی نیک مقاصد نہیں بلکہ ناپاک سیاسی مقاصد ہیں۔ عوامی لیگ چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو ختم کرکے ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ آئندہ الیکشن میں جماعت اسلامی کوئی مؤثر کردار ادا نہ کرسکے اور عوامی لیگ کو 2001ء کی طرح شرم ناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بغاوت کے اس مقدمے کو جس کالے قانون کے تحت آگے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، انٹرنیشنل لائرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس میں 17 کمزوریاں پائی گئی ہیں۔ سونار گائوں ہوٹل ڈھاکہ میں وکلا کی اس تنظیم کی جو کانفرنس ہوئی ہے، اس میں بزرگ قانون دان جسٹس ٹی ایچ خان نے کہا تھا: ''یہ قانون سراسر جنگل کا قانون ہے۔ جس طرح کسی جانور کو باندھ کر ذبح کیا جاتا ہے، اس قانون کے تحت ملزمان کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے نام کے ساتھ انٹرنیشنل کا لفظ ہی ایک کھلا مذاق ہے کیونکہ اس کا کسی انٹرنیشنل معیار کے ساتھ دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی وزیراعظم شیخ حسینہ کو خط لکھ کرمتوجہ کیا ہے کہ اس قانون میں ترمیم کرکے اس کو حقیقی طور پر انٹرنیشنل معیار پر لایا جائے لیکن شیخ حسینہ حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، کیونکہ اگر اس ٹریبونل کے قوانین کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق بنایا جائے تو جماعت اسلامی کے کسی لیڈر کو کوئی سزا نہیں دی جا سکے گی، کوئی جرم ثابت ہی نہیں کیا جا سکے گا اور جماعت کے ذمہ داران میں سے کوئی مجرم ہی قرار نہیں پائے گا۔‘‘ (صفحہ9)
''13 اکتوبر 2010ء سونارگائوں ہوٹل ڈھاکہ میں بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا۔ اس سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انگلینڈ کے مشہور قانون دان اسٹیفن نے، جو انٹرنیشنل کرائمز کورٹ یوگوسلاویہ اور روانڈا کے وکیل بھی رہے ہیں، کہا تھا کہ جس قانون کے تحت یہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے وہ بنگلہ دیش کے دستور اور انٹرنیشنل قانون کے سراسر خلاف ہے، لہٰذا انٹرنیشنل کمیونٹی اس کو غیر جانب دارانہ تسلیم نہیں کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنگی جرائم کے مقدمے کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق کرنے کے لیے شفاف دلائل درکار ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مقدمے کے ججوں کے تقرر میں فریقین کی رضا مندی شامل ہونا لازمی ہے اور ان ججوں کا عالمی معیار کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل قانون میں اس بات کو بالکل واضح کیا گیا ہے کہ کسی شخص کو ایسے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی کہ جس کی نشان دہی قانون کے مطابق اس وقت نہ کی گئی ہو، جب کہ یہ جرم سرزد ہوا تھا۔
میں یہ بات ایک دفعہ پھر واضح الفاظ میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی انسانیت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ معاشرے کے ایک خاص گروہ کے لوگ جو اندھے بن کر اور خود غرضانہ سوچ کے تحت، مجھے سیاسی اور سماجی طور پر نیچا دکھانے کے لیے، گزشتہ 40 سال سے گھنائونا پراپیگنڈا پھیلا رہے ہیں، ان کا مقصد سادہ لوح عوام کے دل میں میرے خلاف نفرت پیدا کرکے سیاسی فائدہ سمیٹنا ہے۔ انسانیت کے خلاف، اگر میں سرگرم رہا ہوتا تو اس لمبے عرصے میں کسی نہ کسی عدالت میں میرے خلاف کوئی مقدمہ ضرور درج ہوتا۔ 1973ء میں شیخ مجیب حکومت نے غیر قانونی طور پر میری شہریت ضبط کی لیکن 1994ء میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے کے ذریعے میرا یہ حق مجھے واپس دلایا کیوںکہ میرے خلاف لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے تھے۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ اب نئے سرے سے انہی پرانے الزامات کو دہرایا جا رہا ہے۔‘‘ (صفحہ9-10)
''اپنی 50 سالہ سیاسی زندگی میں‘ میں نے ملک میں بہت سارے سفر کیے ہیں۔ میں عوام ہی میں رہا ہوں۔ میں نے اپنے اخلاق سے لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے مجھے معلوم ہے کہ یہ حکومت میرے خلاف جو بھی الزام لگا رہی ہے‘ عوام اس کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر یہ لوگ مجھے پھانسی بھی دیتے ہیں، جو ان کی خواہش ہے، تو بھی ہمارے عوام مجھے اللہ کی راہ کا ایک سپاہی سمجھیں گے۔‘‘ (صفحہ15-16) (ماخوذ از کتابچہ بنگلہ دیش میں ظلم کی داستان مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، لاہور) 
پروفیسر صاحب کے اپنے قلم سے لکھا گیا کتابچہ‘ جس کے کچھ حصے اوپر نقل کیے گئے ہیں، ایک ایسی عبارت ہے جو سچائی، حقائق اور مضبوط دلائل پر مشتمل ہے۔ پروفیسر صاحب آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کی یادیں کبھی دل سے محو نہیں ہو سکتیں۔ ان کی تحریر کردہ بیسیوں کتب ان کے چاہنے والوں کی تربیت کا سامان کرتی رہیں گی۔ وہ پلٹ کر نہیں آئیں گے مگر ان سے محبت کرنے والے ان سے جا ملیں گے۔ اللہ اس عظیم بندۂ مومن کی قربانی کو قبول فرمائے اور اس کے صدقے اہلِ حق کو آزمائشوں کی اس طویل سیاہ رات سے نجات دلائے۔ 
ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں