عبدالقادر مُلّا کی شہادت کو چار سال بیت گئے ہیں۔ ان کی یادیں اب تک دل میں زندہ ہیں۔ شہدا تو زندہ ہوتے ہیں، عبدالقادرمُلّا بھی زندہ ہیں۔ عبدالقادر مُلّا شہید جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت میں مقابلتاً جونیئر تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت کے لیے سب سے پہلے منتخب کر کے ایک ایسا عظیم مقام عطا فرما دیا ہے کہ وہ عالمی اسلامی رہنماؤں اور تاریخ اسلام کی عظیم ترین ہستیوں کے درمیان ایک تابندہ ستارہ بن کر چمک رہے ہیں۔ وہ زندہ ہیں‘ زندہ رہیں گے اور قافلۂ حق کو زندگی کا راستہ دکھاتے رہیں گے۔ ہم لوگ جو ان کو جوانی کے دور سے جانتے تھے، اس بات کے قائل تھے کہ وہ عظیم آدمی ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بھی کسی کو یہ علم نہ تھا کہ وہ اتنے عظیم ہیں جتنے شہادت کے بعد ثابت ہو چکے ہیں۔ ان کی بہت سی مختصر اور نہایت مؤثر تحریریں اس سے قبل سامنے آ چکی ہیں اور مزید آ رہی ہیں۔ اسی طرح کی ایک تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ شہید نے خوب صورت خط آخری لمحات میں جیل کی کال کوٹھڑی سے اپنی عظیم اہلیہ کے نام لکھا۔ بنگلہ زبان میں لکھے گئے خط کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
''میری بہت ہی پیاری رفیقۂ حیات!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عدالت کا مکمل فیصلہ لکھا جا چکا ہے۔ یہ کل رات یا اس کے بعد کسی وقت بھی جیل کے گیٹ تک پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد رولز کے مطابق یقینا مجھے کال کوٹھڑی میں پہنچا دیا جائے گا۔ قرین امکان ہے کہ یہ حکومت کا آخری عمل ہے۔ اس لیے وہ اس غیر منصفانہ عمل کو بہت تیزی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔ میرا خیال ہے کہ وہ نظر ثانی پٹیشن (Review Petition) کو قبول نہیں کریں گے، اگر وہ قبول کر بھی لیں تو اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ اپنی دی گئی سزا کو بدل دیں۔ البتہ یہ دوسرا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے اپنی چال چلے، لیکن اس کا ابدی و دائمی قانون بتاتا ہے کہ ہمارا مولا ہر معاملے میں دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔
ان جیسے لادینوں نے کئی پیغمبروں کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ساتھیوں، جن میں خواتین صحابیات بھی شامل تھیں، کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ ان شہادتوں کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے سچائی کے راستے میں آسانی پیدا کی اور اسلام کو فتح سے ہم کنار کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں بھی ایسا ہی کرے گا۔
کل بھارتی وزیرخارجہ نے نہ صرف عوامی لیگ کو داد دی بلکہ (جنرل) حسین محمد ارشاد پر دباؤ بھی بڑھایا۔ اس نے جماعت، شبر (جمعیت طلبہ) کے برسراقتدار آنے سے بھی انھیں ڈرایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جماعت اور شبر سے اختلاف، عداوت اور نفرت بھارت کے رگ وپے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ بات میں روز اول سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے خلاف جو بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ بھارت کی میز پر تیار کیے جاتے ہیں۔ عوامی لیگ اگر واپس ہٹنا بھی چاہے تو اب ان اقدامات سے پیچھے نہیں مڑ سکتی، کیونکہ اس بار صرف بھارت کی اشیر باد سے ہی اقتدار میں آئی ہے۔
یہاں بہت سے لوگ ہیں جو اصول اور اخلاق کی بات کر رہے ہیں، جس طریقے سے مجھ سمیت ہماری پوری جماعت کو ایک مخصوص گروہ کے بنائے گئے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے اور جس طریقے سے ملکی میڈیا حکومت کے ان غیر منصفانہ اقدامات کی حمایت و مدد کر رہا ہے، ان حالات میں حکومت کی طرف سے اصول اور اخلاق کی بات کس منہ سے کی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عدالتی نظام اور ٹرائل خود جلاد بن چکا ہے اور معصوم لوگوں کی جان لینے کے شوق میں مخمور ہو چکا ہے۔ کسی بھی آزاد فطری ٹرائل اور انصاف کی توقع ایسے لوگوں سے نہیں رکھی جا سکتی۔ مجھے بس ایک پچھتاوہ ہے کہ میں اس قوم کو واضح انداز میں بتانے سے قاصر ہوں کہ کیسے بالکل غیر منصفانہ طریقے سے ہم، اور بالخصوص، میں نشانہ بنایا جا رہا ہوں۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کیوں کہ تقریباً سارا میڈیا ہمارا مخالف ہے۔ لیکن قوم اور دنیا بھر کے لوگ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے۔ میری موت ان شاء اللہ جبر کی اس حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گی اور تحریک اسلامی کی ترقی کا مؤجب ثابت ہو گی کیونکہ یہی انصاف کی بات ہے۔ ان شاء اللہ العزیز!
کل میں نے سورۂ توبہ کی آیت نمبر 17سے 24 تک دوبارہ پڑھیں۔ آیت نمبر 19 میں واضح انداز میں لکھا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اورمال کے ساتھ جہاد کرنا، خانہ کعبہ کی خدمت اور حاجیوں کو پانی پلانے سے کہیں زیادہ افضل عمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کی راہ میں‘ اس لیے لڑنا کہ اسلام کا نظام قائم ہو اور اس کی خاطر طاغوت اور اس کی بے انصافی کے خلاف لڑنا‘ طبعی موت مرنے سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ذات مجھے جنت میں یہ افضل درجہ دینا چاہتی ہے تو میں بخوشی اس موت کو گلے لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہوں، کیوں کہ جلادوں کے ہاتھوں میری غیرمنصفانہ موت تو جنت کا پروانہ ہے۔
مصر کے ظالم حکمران، کرنل ناصر نے 1966ء میں سید قطبؒ اور 1954ء میں جناب عبدالقادر عودہؒ اور دوسروں کو پھانسی کے گھاٹ اتار کر شہید کر دیا۔ میں نے بہت سے لیکچرز میں یہ بات سنی اور یہ واضح ہے کہ تحریک اسلامی کے راستے میں ٹرائلز اور ایذا رسانیاں لازماً آتی ہیں۔ ان لیکچرز سے بڑھ کر یہ بات کہ پروفیسر غلام اعظم میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ پھانسی کی رسی ان کاندھوں پر بھی پڑ سکتی ہے۔ میں آج بھی اپنا ہاتھ اپنے ہی کاندھے پر پھیر کر اپنے مرشد کی وہی بات سوچتا ہوں اور خوشی محسوس کرتا ہوں۔ اگر اللہ کی ذات آج تحریک اسلامی کی ترقی کا فیصلہ کر چکی ہے تو یہ میری کامیابی ہے۔ یہ جبر کی حکومت اگر میرے خاتمے کا فیصلہ کر چکی ہے تو جان لو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کے اعلیٰ مرتبے کی بات کرتے تھے تو اپنی خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ انھیں بار بار زندگی ملے اور بار بار اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہیں۔ جو لوگ شہید ہو چکے ہیں وہ جنت کے اعلیٰ درجوں میں بیٹھ کر اللہ کے حضور اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ یا خالق و مالک! ہمیں ایک بار پھر دنیا میں بھیج تاکہ ہم ایک بار پھر تیری راہ میں شہید ہوں۔ اللہ تعالیٰ جواب میں شہدا سے فرماتا ہے یہ اس کی سنت نہیں ہے کہ یہاں سے دوبارہ کسی کو دنیا میں بھیجا جائے۔ اس سچی ذات کے الفاظ سچے ہیں اور اس کی طرف سے بھیجے گئے صادقؐ و امینؐ کے الفاظ بھی سچے ہیں۔ اگر ان پر کوئی شک کرے تو اسے اپنے ایمان اور عقیدے پر شک کرنا چاہیے۔
اگر حکومت اپنے اس غیر منصفانہ قدم پر آگے بڑھ کر مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتی ہے تو ہو سکتا ہے میری نماز جنازہ ڈھاکہ میں کروانے کی اجازت نہ دی جائے۔ ممکن ہے وہ میری آخری رسومات میرے گاؤں کی مسجد اور گھر میں کرنے کا انتظام کرے۔ اگر دریائے پدما کے پار رہنے والے مسلمان میری نماز جنازہ پڑھنا چاہتے ہیں تو انھیں اطلاع کر دو کہ وہ پہلے سے میرے گھر کے قریب آ جائیں۔ میں اس سے پہلے بھی آپ کو اپنی قبر کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ اسے میری ماں کے قدموں میں بنایا جائے اور میری قبر پر کوئی فضول خرچی نہ کی جائے، جیسے قبروں کے گرد فصیل بنا کر مقبرے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے یتیم لوگوں پر جتنا خرچ کر سکو‘ کرو۔ ان خاندانوں کا خیال رکھو جنھوں نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کر دیا ہے۔ خاص طور پر جو خاندان اس ظالم حکومت کے خلاف‘ اپنے بیٹے اس تحریک کو دے چکے ہیں، جن کے باپ گرفتار ہو چکے ہیں، جن کے بوڑھے سزائوں کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ جب بھی بُرا وقت آئے تو سب سے پہلے ان خاندانوں کی خیر خیریت دریافت کرو۔ بیٹے حسن مودود کی تعلیم کے فوراً بعد اس کی شادی کروا دینا اور اسی طرح نازنین بیٹی کو بھی اس کے اپنے گھر بھیج دینا۔
اے پیاری، اور بہت ہی پیاری رفیقۂ حیات!
میں آپ کے اور اپنے بچوں کے بہت سے حقوق پورے نہیں کر سکا۔ مجھے معاف کر دینا، صرف یہ سوچ کر معاف کر دینا کہ اللہ کے ہاں آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا۔ میں اللہ کے ہاں دعا کرتا ہوں کہ جب آپ اپنے بچوں اور اس کے دین کی ذمہ داریاں پوری کر لیں تو میرا مولیٰ ہمارے دوبارہ ملنے کی راہ پیدا فرما دے۔ اب دعا کرو کہ اس دنیا کی ذرہ بھر بھی محبت میرے دل میں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو مجھ سے دور کر دے اور میرے دل کو اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبالب بھر دے۔ ان شاء اللہ ہم جنت کی پگڈنڈیوں پر دوبارہ ملیں گے۔
بچوں کو ہمیشہ حلال کمائی کی نصیحت کرتی رہنا، تمام فرض اور واجب کا خیال رکھنا اور خصوصاً نمازوں کا، اور تمام رشتہ داروں کو بھی یہی ترغیب دیتی رہنا۔ میرے باپ کو ہر ممکن آرام اور ہمدردی پہنچاتی رہنا جب تک وہ زندہ رہیں۔
آپ کا اپنا
عبدالقادر مُلّا‘‘
اس خط کو پڑھتے ہوئے بار بار وہ عبدالقادر مُلّا آنکھوں کے سامنے آتا رہا جو بھرپور جوانی کے دنوں میں نماز پڑھتا نظر آتا تو محسوس ہوتا جیسے وہ زندگی کی آخری نماز پورے انہماک اور استغراق کے عالم میں پڑھ رہا ہے۔ مُلّا شہید کے خط نے بار بار رلایا۔ پھر میں نے سوچا کہ وہ دُور‘ جنت کے بالا خانوں سے مسکرا کر دیکھ رہا ہو گا۔ اس کے مسکرانے کے اس تصور سے دل کو قرار آ گیا۔