سی پیک کا سفیر چل بسا! ۔۔۔(2)

ہارون جس مجلس میں بھی جاتا‘ جاننے والوں کے علاوہ اجنبی لوگوں کے لیے بھی مرکزِ توجہ بن جاتا۔ اس کا اندازِ گفتگو بہت پیارا اور اس کی شکل وصورت بہت جاذبِ نظر تھی۔ دھیمے انداز میں گفتگو کرتا، مگر کوئی بات ثقاہت سے گری ہوئی نہ ہوتی۔ ہر بات استدلال سے کرتا۔ راقم کا تعزیتی خط موصول ہونے پر مرحوم کے والد جناب رشیداحمدخان اپنے خط میں لکھتے ہیں: ''میں ایک بار ایک فنکشن میں گیا جہاں ڈاکٹر رحیل صدیقی جو ڈیرہ غازی خان میں ایڈیشنل کمشنر تھے، سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ کا بیٹا ہارون ذہین اور ہونہا رنوجوان ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ اسے مزید تعلیم کے لیے ملک سے باہر بھیج دیں، جس پر میں نے جواب دیا کہ ہارون ہمارا اکلوتا بیٹا ہے اور ہمارے پاس باہر بھیجنے کے لیے وسائل بھی نہیں ہیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ وسائل اور فاصلے کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ایک دفعہ فیصلہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ خود انتظام کردے گا۔‘‘ 
میں نے صدیقی صاحب سے پوچھا کہ آپ ہارون کو کیسے جانتے ہیں تو انھوں نے بتلایا کہ پچھلے ماہ کمشنرآفس میں اس کے ساتھ میری ملاقات ہوئی اور تقریباً آدھ گھنٹہ ہم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو تو اس نے جواب دیا، ڈیرہ غازی خان کا۔ مجھے اعتبار نہ آیا۔ جب میں اپنے دفتر میں آیا تو ارشد علی خان کاکڑ ملنے کے لیے آئے۔ میں نے ہارون کے بارے میں ان سے ذکر کیا کہ آج ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بڑا ذہین اور ہونہار نوجوان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ڈیرہ غازی خان کا رہنے والا ہوں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ لاہور یا اسلام آباد سے آیا ہے۔ ڈومیسائل بنوانے کے لیے اپنے آپ کو یہاں کا رہائشی ظاہر کرتا ہے۔ ارشد علی خان نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہارون رشید تو انھوں نے کہا کہ آپ کمال کرتے ہیں وہ رشیداحمد خان کا بیٹا ہے، جس پر میں بہت خوش ہوا اور آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ خان صاحب کے بقول: ''اسی دوران ہارون نے وکالت کا امتحان پاس کرلیا لیکن میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے وکالت نہ کی اور گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔‘‘ 
ہارون ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سنجیدہ اور محنتی نوجوان تھا۔ اس نے بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کی ایوننگ کلاس میں ایم بی اے کے مضمون میں داخلہ لے کر ماسٹر کی ڈگری اپنے کیمپس میں اول پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے اعلیٰ نمبروں کی وجہ سے اسی یونی ورسٹی میں اسے بطور لیکچرر ملازمت مل گئی۔ اس دوران وہ کوشش کرتا رہا کہ اسے ہائرایجوکیشن کمیشن کی طرف سے سکالرشپ مل جائے تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش پوری کردی اور وہ HEC کا سکالرشپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے ڈاکٹریٹ کے لیے چین میں داخلہ مل گیا۔ وہاں دو اڑھائی سال گزارے، چینی زبان بھی سیکھی اور اللہ کے فضل سے پی ایچ ڈی بھی کرلی۔ اس عرصے میں ہارون کی والدہ شدید بیمار ہوگئیں۔ اپنی تعلیم کے دوران ہارون کو والدہ کی صحت کی بڑی فکر رہتی تھی۔ رابطہ کرکے مسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ حال احوال معلوم کرتا رہتا تھا۔
ہارون 3دسمبر2012ء کو اپنی تعلیم کی تکمیل کرکے واپس پاکستان آیا ۔ اس کی والدہ کی صحت اس وقت تک انتہائی خراب ہوچکی تھی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قدرت ماں بیٹے کی آخری ملاقات کرانا چاہتی تھی، بیٹا ماں کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ صرف دو دن گزرے کہ اس کی والدہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ پورے خاندان کے لیے اور بالخصوص ہارون کے لیے یہ صدمہ جانکاہ تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو صبر کی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ کی رضا پر سب بڑے چھوٹے راضی تھے۔ ہفتہ بھر ہارون اپنے والد صاحب کے ساتھ تعزیت کے لیے آنے والوں کا استقبال کرتا رہا۔ پھر والد صاحب سے اجازت لے کر لاہور چلا آیا اور یو ایم ٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اس کا تقرر ہوگیا۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری دم تک پوری محنت ودیانت سے کام کرتا رہا۔ وہ یونی ورسٹی میں اساتذہ اور انتظامیہ کے علاوہ طلبہ وطالبات کے درمیان بھی نہایت ہر دل عزیز شخصیت کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ ہارون نے تدریس کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر بھی جاری رکھا اور چین ہی کی ووہان یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔ زندگی کا عرصہ مختصر تھا، اس میں یہ ہونہار نوجوان بہت تھوڑے وقت میں بہت سی کامیابیوں کی منازل طے کرتا چلا جارہا تھا۔ 
جب پاکستان اور چین نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا تو چینی زبان پر عبور اور چین کے حالات سے پوری طرح باخبر ہونے کی وجہ سے ہارون کو ایک نیا کام سونپ دیا گیا۔ سی پیک کی تکمیل اور کامیابی کے لیے اس نے دن رات ایک کردیا۔ کراچی اور اسلام آباد کے دورے ہر آئے دن درپیش رہتے۔ اس کے علاوہ چین، برطانیہ اور دیگر بیرونی ممالک کے دوروں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ہارون کی وفات کے بعد جناب رشیداحمد خان صاحب نے راقم کو بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کی اس تیز رفتاری سے قدرے دل برداشتہ تھے۔ اپنے اکلوتے بیٹے سے کئی بار کہا:اب مزید لمبے سفر نہ کریں، تمھاری رفتار بہت تیز ہے اور مجھے تیز رفتاری سے ڈر لگتا ہے۔ لاہور میں رہ کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ مرکوز رکھیں۔ لیکن میری ساری تدبیریں اللہ کی تقدیر کے سامنے بے بس ثابت ہوئیں اور وہ 20دسمبر2017ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس کے شاگردوں، دوستوں اور دیگر متعلمین کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ ایک عظیم انسان تھا۔ ملک وقوم کے مفاد کی خاطر دن رات محنت کی اور اسی انتھک محبت ومشقت کی وجہ سے اپنی صحت کو پس پشت ڈال دیا۔ بالآخر اپنی جان مالک کائنات کے سپرد کردی۔اور نفس مطمئنہ کے ساتھ اللہ کی رضا اور اس کی جنت کا مستحق قرار پاگیا۔ ربِّ رحمان کا فرمان بالکل صحیح ہے کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ۔ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔ (الرحمن۵۵:۲۶-۲۷) سوائے صبر کے کوئی اور راستہ نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
جناب رشیداحمد خاں صاحب اور ان کے خاندان کے دیگر ارکانِ جماعت سے میرا کم وبیش 32سال کا تعلق ہے اور یہ نہایت حسین یادوں پر مشتمل ہے۔ اللہ اس خاندان کو تحریک کے لیے اسی طرح اپنی خدمات پیش کرتے رہنے کی توفیق عطافرمائے۔ ہارون کی وفات پر جماعت کے تمام قائدین نے خان صاحب کو درد بھرے تعزیتی خطوط بھیجے اور فون پر بھی تعزیت کی۔ محترم امیر جماعت سراج الحق صاحب دیگر جماعتی قائدین کے ساتھ ڈیرہ غازی خان میں مرحوم کی یاد میں منعقدہ اجتماعی دعا کے پروگرام میں شریک ہوئے اور ہارون کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہارون کے وفات پا جانے سے محض ان کے اہل وعیال اور خاندان کے لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پوری اسلامی تحریک صدمے سے دوچار ہے۔ ایسے نایاب لوگ قوموں کے لیے انمول اثاثہ ہوتے ہیں۔ 
ہارون کی جدائی کے بعد جب بھی خان صاحب سے ٹیلی فون پر بات ہوئی انھیں غم زدہ پایا۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر کی دولت سے مالا مال کردے، بلاشبہ بڑھاپے میں نوجوان بیٹے اور وہ بھی نایاب ہیرے ہارون رشید جیسے کی جدائی بہت بڑے صدمے کا باعث ہوتی ہے۔ بہرحال اللہ کا بندہ اللہ کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرتا ہے اور اللہ ہی اس کے لیے آسانیاں بھی پیدا فرماتا ہے۔ ہارون وفات سے چند دن قبل منصورہ میں ملا تو حسب معمول بہت خوش وخرم تھا۔ مجھے اس کی کامیابیوں پر بڑی مسرت ہوئی اور میں نے اس کو دعائیں دیں۔ کیا معلوم تھا کہ عزیز گرامی الوداعی ملاقات کررہا تھا۔ 
20دسمبر2017ء کو ریکٹر برادرم حسن صہیب مراد نے راقم کو فون پر اطلاع دی کہ ڈاکٹر ہارون رشید خاں فوت ہوگئے ہیں۔ مجھے اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ بتانے لگے کہ دل کا دورہ پڑا ہے۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ صہیب بھائی نے یہ بھی بتایا کہ غسل اور تکفین کے بعد ہم مرحوم کے جسدِ خاکی کو منصورہ لے آئیں گے اور وہاں نماز جنازہ ادا کرکے انھیں ڈیرہ روانہ کردیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے یہاں کے سب احباب بھی جنازے میں شریک ہوجائیں گے اور پھر دوسرا جنازہ ڈیرہ میں ہوجائے گا، جس میں مرحوم کے والد اور دیگر عزیزواقارب کے علاوہ علاقے کے بہت سے لوگ بھی شرکت کی سعادت حاصل کرلیں گے۔ ہم انتظار ہی میں تھے کہ دوسرا فون آیاجس کا مفہوم یہ تھا کہ بُعدِ مکانی کی وجہ اور مرحوم کی اہلیہ کی فرمائش پر منصورہ آنے کی بجائے براہِ راست ایمبولینس ڈیرہ غازی خان روانہ ہوجائے گی۔ یوں ہم جنازے سے محروم رہ گئے، مگر مرحوم عزیز کے لیے منصورہ میں کئی مرتبہ دعائے مغفرت کی گئی۔ اللہ اس کے درجات بلند فرمائے، وہ درّنایاب تھا۔ اپنے پیچھے جوان بیوہ اور تین معصوم بچے چھوڑ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور برادرم رشیداحمدخان صاحب کا سایہ ان کے سروں پر قائم رکھے۔ (ختم)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں