زندگی ایک سفر ہے۔ جوانی کے دور میں لوگ کہتے ہیں کہ زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ لیں۔ بڑھاپے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اتنی خزائیں دیکھ لیں۔ پہلی بار جنوری 1974ء میں بیرون ملک سفر کا مرحلہ پیش آیا تو بہاروں کا زمانہ تھا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے موسم خزاں تک پہنچا اور اب 72خزائیں پوری ہوچکی ہیں۔ بیرون ملک جانے آنے کے تجربات سے بہت لوگوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ تین سال قبل تک ہر سال یورپ کا ایک چکر لگ جاتا تھا۔ اسی دور کے بعض واقعات یاد آتے ہیں تو ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی۔
ایک بار برطانیہ کا سفر درپیش تھا ۔ اپنی قومی ائیر لائنز سے بکنگ کروائی اور لاہور سے مانچسٹر کی پرواز پر عازم سفر ہوا۔ جہاز نے اڑان لی اور فضا میں بلند ہوا تو آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں جہاز ان بادلوں کا سینہ چیرتا ہوا ان سے اوپر اڑنے لگا۔ عملے کی طرف سے معمول کے اعلانات ہوتے رہے۔ موبائلز اور دیگر برقی آلات کے استعمال کو ائیر پورٹ پر ہی اعلان کے ذریعے ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ کافی دیر تک بادلوں کی وجہ سے زمین نظر نہ آ رہی تھی۔ کئی گھنٹوں کے بعد جہاز ایشیا سے نکل کر مشرقی یورپ میں داخل ہوا اور پھر منزلِ مقصود کے قریبی علاقے میں پہنچا تو نیچے خوب صورت جھیلیں، آبی گزرگاہیں، وسیع و عریض زرعی و حیوانی (لائیو سٹاک) فارمز اور موٹر ویز کا جال نظر آنے لگا۔ ٹھیک وقت پر جہاز مانچسٹر ایئرپورٹ پر آن اترا۔ کپتان نے آدھے گھنٹے کی تاخیر آٹھ گھنٹے کے اس سفر میں پوری کرلی تھی۔ مانچسٹر ایئرپورٹ پر بے شمار ہوائی کمپنیوں کے جہاز رن وے پر مختلف اطراف میں چہل قدمی (Taxying) کر رہے تھے۔ ہر چند لمحوں کے بعد کوئی جہاز فضا میں بلند ہوتا اور فراٹے بھرتا ہوا نظروں سے غائب ہو جاتا۔
معلوم نہیں عالمی سطح پر ائیرلائنز کی کوئی تقسیم بندی ہوتی ہوگی کہ کس کو ترجیح حاصل ہے۔ ہمارا جہاز دیگر اترتے ہوئے اور چڑھتے ہوئے جہازوں کی نسبت زیادہ ہی دیر انتظار میں رکھا گیا۔ ہمارے جہاز کو اپنے کائونٹر یعنی ٹیوب (Tube)تک پہنچنے میں کافی وقت لگا جس کی وجہ فاصلہ بھی تھا مگر جہازوں کی نقل و حرکت بھی ایک سبب تھا۔ پی آئی اے کے عملے نے جہاز کے اترنے سے قبل مسافروں کے درمیان برطانیہ کے امیگریشن فارم تقسیم کیے جو بمشکل آدھے لوگوں کو مل سکے۔ باقی لوگوں نے خود کائونٹر پر جاکر یہ مشکل فارم حاصل کیے۔ معلوم ہوا کہ کئی مسافر فارم پر کرنا نہیں جانتے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے رشتہ دار جو ان کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جاتے رہتے ہیں، زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ اور ان پڑھ ہوتے ہیں۔ مسافروں کی ایک بڑی تعداد برٹش شہری تھے۔ انھیں فارم پر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جہاز سے اتر کر پاکستانی نژاد برطانوی شہری تو بغیر کسی انتظار کے اپنی راہ لیتے رہے جبکہ پاکستانی شہری غیر ملکی ہونے کی حیثیت سے کافی دیر تک اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہے۔ تین کائونٹر کام کر رہے تھے مگر مہر لگنے میں خاصا وقت صرف ہو رہا تھا۔ ہر پاسپورٹ کو بار بار الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا اور بعض مسافروں سے سکیورٹی کے لوگ بھی آکے سوال و جواب کرنے لگتے۔ میں ذہناً ہر صورتِ حال کے لیے تیار تھا کیونکہ چند سال قبل پچھلے سفر میں اسی مانچسٹر ایئرپورٹ پر مجھے ایک بڑا تلخ تجربہ ہوا تھا۔ جس روز میں پاکستان سے مانچسٹر گیا، اس روز تو بغیر کسی حیل و حجت کے پاسپورٹ پر مہر لگی اور میں سامان لینے کے لیے متعلقہ بیلٹ (Belt)پر چلا گیا۔ دو ہفتے بعد جب میں کچھ دنوں کے لیے ناروے اور یورپ کے دیگر ممالک میں گیا تو واپسی پر اسی ایئرپورٹ پہ امیگریشن کائونٹر پر ایک انڈین خاتون بیٹھی تھی۔ مجھے قطار میں کھڑے دیکھ کر وہ ذرا سی دیر کے لیے اپنی سیٹ سے اٹھ کر گئی اور تھوڑی دیر بعد سکیورٹی کا ایک کارندہ اس کے پاس آکھڑا ہوا۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ میرے بارے میں کچھ مشورے ہو رہے ہیں۔ نہ ہی کبھی ایسا کوئی تجربہ زندگی بھر ہوا تھا۔ بہرحال جب اپنی باری پہ کائونٹر پر پہنچا تو خلافِ توقع امیگریشن آفیسر نے میرا پاسپورٹ ایک جانب رکھ دیا اور سکیورٹی کے نوجوان کو اشارہ کیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے سامنے میز کے دوسری جانب بیٹھ کر عجیب و غریب قسم کے بے ہودہ سوال کرنے لگا۔
کیا آپ پاکستان کی مسلح افواج میں ملازم رہے ہیں؟ میں نے کہا کبھی نہیں۔ آپ کسی ایسی تنظیم سے وابستہ رہے ہیں کہ جو عسکریت پسند ہو؟ میں نے جواب دیا ہرگز نہیں۔ آپ کا کوئی مرکز پشاور میں ہے جس کو آپ چلا رہے ہیں؟ جواب نفی میں دیا۔ کیا آپ پاکستان کے شمالی علاقوں میں سفر کرتے رہتے ہیں؟ میں نے کہا میں دنیا بھر میں سفر کرتا ہوں، آپ میرے پاسپورٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کا معزز شہری ہوں، پھر بھلا پاکستان میں سفر کیوں نہ کرتا ہوں گا۔ آپ افغانستان بھی جاتے ہیں؟ میں نے کہا نیٹو فوجیں وہاں کسی کو سیر و سیاحت کے لیے جانے دیتی ہیں؟ نہیں وہاں کے عسکریت پسندوں سے آپ کے راہ و رسم ہیں؟ میں نے کہا قطعاً نہیں۔ آپ کسی سرکاری شعبے میں ملازم ہیں یا رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ایک تحقیقی ادارے میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں جو اسلامی لٹریچر تیار کرتا ہے۔ فیملی، بچے، ہر بچے کے بارے میں سوال پہ سوال، غرض بہت ہی عجیب و غریب قسم کے سوالات کرنے کے بعد وہ اٹھ گیا اور مجھے کہا کہ آپ یہیں بیٹھیے۔ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو میرا پاسپورٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس کا ایک ایک صفحہ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر کہنے لگا کہ آپ نے انگریزی کہاں سیکھی ہے؟ میں نے کہا انگریزی پاکستان میں سیکھی ہے جہاں سے میں نے پوسٹ گریجوایشن کی ہے۔ آپ کا برطانیہ آنے کا مقصد کیا ہے؟ میں نے اپنے بریف کیس میں سے یوکے اسلامک مشن کا دعوت نامہ اور شیڈول نکال کر دیا۔ اسے دیکھ کر پھر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا تو کیا آپ یہاں لیکچر دینے کے لیے آئے ہیں؟ میں نے کہا بالکل۔ آپ ہی کو کیوں دعوت دی گئی ہے؟ میں نے کہا میرے میزبانوں کا پتا اس خط پر لکھا ہوا ہے، ان سے پوچھ لیں کہ مجھے کیوں دعوت دی گئی ہے؟
اس سکیورٹی کارکن کے کچھ سوالات تو ایسے غیرمتعلق اور لچر تھے کہ ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ اس نے کہا اچھا آپ جینوئن مسافر ہیں۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ میں نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ نہیں آئوں گا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اپنا کام ختم کر چکا ہے اور اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس دوران مجھے ایئرپورٹ پر لینے کے لیے جو دوست آئے ہوئے تھے انھوں نے امیگریشن اور سکیورٹی حکام سے رابطہ کرکے میرے بارے میں پوچھا کہ ہمارے ایک معزز مہمان ناروے سے آ رہے تھے، انھیں مانچسٹر کی مسجد میں جمعہ کا خطاب کرنا ہے اور ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ اُن کا کیا مسئلہ بنا ہے؟ چنانچہ نیچے سے ایک خاتون اوپر آئی اور اس سکیورٹی والے سے کچھ کہہ کر چلی گئی۔ میں نے سکیورٹی افسر سے کہا کہ آپ نے میرا پون گھنٹہ ضائع کیا ہے، میں آپ کے پندرہ منٹ ضرور لوں گا۔ وہ معذرت کرنے لگا لیکن میں نے کہا میں تو ضرور آپ کا وقت لوں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ برطانیہ عظمیٰ کے ملازم ہیں اور میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے وطن کے لیے خیرسگالی بڑھانے کے بجائے اس ملک کے خلاف نفرتیں پیدا کر رہے ہیں۔ یہ سن کر اس کارنگ بدل گیا۔ میں نے کہا آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک معزز اور سینئر سٹیزن ہوں۔ قانونی ویزے پر یہاں آیا ہوں۔ آپ کے سفارت خانے نے تسلی کے بعد مجھے ویزا دیا ہے اور ایک رجسٹرڈ قانونی تنظیم کا مہمان ہوں۔ آپ نے مجھے جو ٹارچر کیا ہے وہ تو کیا ہے لیکن مجھے آپ کی ذہانت پر بھی شک ہے۔ کیا دہشت گرد اور پرامن شہری میں فرق کرنا آپ کے لیے ناممکن ہے؟ پھر میں نے کہا کہ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ اپنا نام مجھے بتائیں تو اس نے صرف اتنا بتایا ''سنی‘‘۔
میں نے کہا مسٹر سنی آپ کو بھارت نژاد امیگریشن لیڈی نے گمراہ کیا ہے اور میں اپنے احتجاج کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ اس پر وہ معذرتیں اور تردید کرنے لگا اور کہا کہ یہ ہماری سرکاری ذمہ داریاں ہیں کیونکہ آج کل حالات بڑے خطرناک ہیں۔ بہرحال آئیے میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کا سامان تلاش کرتے ہیں۔ اس دوران اس نے کائونٹر پر جاکر میرے پاسپورٹ پر مہر لگوائی۔ پاسپورٹ مجھے دیا۔ میں نے کہا شکریہ، مجھے آپ کی کمپنی کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمدللہ اس مرتبہ کوئی تلخ تجربہ نہیں ہوا۔ جب میں کائونٹر پر پہنچا تو کائونٹر پر بیٹھے انگریز نوجوان نے میرا پاسپورٹ کھول کر ویزا دیکھا اور بڑے مودبانہ اور مہذبانہ طریقے سے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے وزٹ کا مقصد کیا ہے؟ میں نے کہا کہ یوکے اسلامک مشن کا سالانہ (Annual) کنونشن ہو رہا ہے جس میں میں ان کا مہمان مقرر ہوں۔ اس نوجوان نے مسکرا کر مجھے کہا Have a nice stay in U.K.، پھر مہر لگائی اور میرا پاسپورٹ مجھے دے دیا۔