سورج کے طلوع و غروب کا سلسلہ لاکھوں سال کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ ہر شام کو سورج غروب ہوتا ہے تو اگلے دن سورج طلوع ہونے تک رات چھائی رہتی ہے۔ ہر رات اپنی حیثیت و ہیئت میں رات ہے، مگر وہ رات جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیؐ کو معراج عطا فرمایا، تمام راتوں میں منفرد اور یکتا ہے۔ نہ اس سے پہلے کوئی ایسی رات آئی اور نہ اس کے بعد۔ اس رات کوخالق و مخلوق کے درمیان سب پردے ہٹ گئے اور بندہ اپنے رب کے حضور بلند مقام پر فائز ہو کر آقائے دو جہاں کہلایا۔ کیا شان ہے آمنہ کے لعلؐ کی۔ دنیا کی ہر زبان میں شعرا نے شب معراج کی برکات اور شان مصطفیٰ ؐ کی عظمت کا تذکرہ کیاہے۔ ہم اس مضمون میں صرف مولانا ظفر علی خان مرحوم کے چند اشعار نقل کر رہے ہیں۔ وہ عقیدت کے پھول یوں نچھاور کرتے ہیں:
عشق مہمان ہوا حُسن کے گھر آج کی رات
جذبۂ دل ہے بآغوشِ اثر آج کی رات
اپنے اللہ سے ملنے کے لیے جاتا ہے
اپنے اللہ کا منظورِ نظر آج کی رات
کہکشاں جلوہ فشاں ہے کہ اسی رستہ سے
ہونے والا ہے محمدؐ کا گزر آج کی رات
مل گئی دونوں جہانوں کے خزانوں کی کلید
اپنے معراج کو پہنچا ہے بشر آج کی رات
مولانا ظفر علی خان کے ہزاروں اشعار میں سے ہمارے نزدیک یہ اشعار اپنی شان میں بلند تر مقام کے حامل ہیں، جن میں انھوں نے معراج کے تناظر میں حضور اقدس میں عقیدت کے یہ پھول پیش کیے ہیں۔
معراج کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے: ''پاک ہے وہ (خالق کائنات) جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا۔‘‘ (بنی اسرائیل ۱۷:۱)
صحیح بخاری شریف میں امام بخاریؒ نے معراج کا واقعہ پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہ روایت حضرت انس بن مالکؓ نے حضرت مالک بن صعصعہؓ کی زبانی بیان کی ہے۔ اس میں براق کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا قد گدھے اور خچر کے درمیان تھا۔ پھر اس کی پوری صفات بیان کی گئی ہیں۔ اس طویل حدیث میں پورے معراج کی تفصیلات، جن کا تذکرہ ہم آگے چل کر کریں گے، دیکھی جا سکتی ہیں۔ دوسری طویل حدیث بھی حضرت انس بن مالکؓ کی زبانی بیان ہوئی ہے جو انھوں نے حضرت ابوذر غفاریؓ کی زبان سے سنی تھی۔ اسی طرح صحیح مسلم اور دیگر کتب صحاح ستہ میں بھی واقعہ اسرا و معراج تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں آنحضورؐ کی زندگی میں سفر معراج ایک بہت عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا تذکرہ قرآن پاک کی مندرجہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔ احادیث میں بھی اس کی تفصیلات ملتی ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ معراج کی تاریخ اور مہینے کے بارے میں مورخین نے کئی آرا بیان کی ہیں، مگر ثقہ اور مستند رائے یہ ہے کہ یہ آنحضورؐ کی نبوت کے تیرھویں سال رجب کے مہینے میں پیش آیا۔ آپؐ اس رات اپنی چچا زاد بہن ام ہانی بنت ابی طالب کے گھر میں آرام کر رہے تھے۔ یہ گھر بیت اللہ سے قریب ترین تھا۔ بالکل آغاز اسلام میں جب حرم مکی میں توسیع ہوئی تو یہ مبارک گھر اس میں شامل کر لیا گیا۔ اس سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: کسی آنے والے نے میرے پائوں پر اپنا پائوں رکھا اور مجھے جگایا۔ میں نے دیکھا تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میں پھر سو گیا۔ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آخر میں اٹھ بیٹھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ جبریل امین ہیں جنھوں نے مجھے جگایا ہے۔ پھر وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر آئے۔ بیت اللہ میں ایک جگہ ایک سواری باندھی ہوئی تھی جسے براق کہا گیا ہے۔ یہ ایک چوپایہ تھا جس پر آپؐ سے پہلے بھی انبیائے کرامؑ کو سوار کرایا گیا۔
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
آپؐ فرماتے ہیں: جب میں براق پر سوار ہونے لگا تو وہ کچھ شوخی کرنے لگا۔ اس پر جبریلؑ نے اس کی ایال پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا اے براق! کیا تجھے اپنی حرکت پر شرم نہیں آ رہی؟ اللہ کی قسم تم پر جتنے اللہ کے بندوں نے سواری کی ہے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو محمدؐ سے زیادہ عزت و اکرام والا ہو۔ یہ سن کر براق شرم سار ہوا، یہاں تک کہ پسینے سے شرابور ہو گیا اور پُرسکون ہو کر اپنی جگہ کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔ (صحیح بخاری، باب المعراج)
امام قرطبی لکھتے ہیں کہ جب آنحضورؐ براق پر سوار ہونے لگے تو وہ ذرا سا بدکا۔ اس پر جبریلؑ نے اسے جھڑکا اور پھر اس کی گردن پر ہاتھ پھیر کر کہا: اے براق! محمدؐ سے ایسا مت کر، خدا کی قسم! ان سے قبل کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی نبی مرسل تیرے اوپر سوار نہیں ہوا، جو محمدؐ سے افضل ہو۔ اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ عزت والا پوری مخلوق میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وانہ صاحب الشفاعۃ وانی احب ان اکون فی شفاعتہ۔ اور یہی روز قیامت شفاعت کی اجازت پائیں گے اور میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی ان کی شفاعت پانے والوں میں شامل ہوں۔ آنحضورؐ فرماتے ہیں کہ جب جبریلؑ نے یہ کلمات کہے تو میں نے جواب میں کہا: انت فی شفاعتی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (اے جبریل!) آپ ان شاء اللہ میری شفاعت کے حق دار ہوں گے۔ (الجامع لاحکام القرآن، الجزء العاشر، ص۲۰۷)
سبحان اللہ! یہ عظیم الشان مرتبہ و مقام!! جبریلؑ جو ملائکہ کے سردار ہیں اور ملائکہ جو کبھی کوئی برائی کرتے ہی نہیں کیونکہ ان کے اندر برائی کا داعیہ پیدا ہی نہیں کیا گیا، وہ بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزِ محشر اپنی شفاعت کے طلب گار ہیں۔ ہم انسان جو اللہ کی رحمت سے مسلمان ہیں، مگر انسان ہونے کے ناطے ہم سے ہر لمحہ گناہ کا احتمال بھی ہوتا ہے اور عملاً یہ وقوع پذیر بھی ہوتا رہتا ہے، نبی رحمتؐ کی شفاعت کے کس قدر محتاج ہیں۔ یہ بات ہر لمحے ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ آپؐ کی شفاعت کے مستحق عاصی و گناہ گار اہلِ ایمان تو ہو سکتے ہیں، مگر باغی اور سرکش ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے بغاوت کا رویہ اپناتے ہوئے کس منہ سے شفاعت طلب کر سکیں گے؟
براق کے بارے میں حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایک چوپایہ تھا جو گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ جب آنحضورؐ براق پر سوار ہوئے تو اس کی رفتار کا کمال دیکھا۔ اس کی رفتار کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس کا سُم اس جگہ پڑتا تھا جہاں تک انسانی نظر پہنچ سکتی ہے۔ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کی اگلی ٹانگوں کے ساتھ پر تھے، جن کے ذریعے وہ تیز رفتار پرواز پر قدرت رکھتا تھا۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ آپؐ کے پاس رات کو آنے والے جبریلؑ تھے اور براق آپؐ کو بیت اللہ سے بیت المقدس تک سفر کرنے کے لیے ربّ ذوالجلال کی طرف سے فراہم کیا گیا تھا۔ آپؐ نے مکہ سے بیت المقدس تک راستے میں آنے والی ہر چیز ملاحظہ کی، حتیٰ کہ بعض قافلوں کے حالات بھی آپ نے بیان فرمائے۔ بالخصوص ایک قافلے کا اونٹ گم ہوا تھا اور وہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھے، ان کا حال آپؐ نے اہلِ مکہ کو سنایا۔
بیت المقدس پہنچ کر آنحضورؐ تمام اولوالعزم رُسلؑ اور دیگر انبیائے کرام سے ملے۔ وہاں سب نے آپ کی اقتدار میں دو رکعت نفل ادا کیے۔اس بات سے یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ آپؐ خاتم النبیین بھی ہیں اور سیدالانبیا و الرسل بھی ہیں۔ آپ ﷺنے خود ارشاد فرمایا ہے: میں یومِ قیامت بنی نوعِ آدم کا سردار ہوں گا۔ حشر کے دن سب سے پہلے جو قبر کھلے گی وہ میری ہو گی اور میں سب سے پہلے قبر سے باہر نکلنے والا ہوں گا۔ دربارِ ربانی میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول بھی کی جائے گی۔ (مسلم، عن ابی ہریرۃؓ)
آپؐ کی ایک دوسری حدیث ہے، جس میں آپ نے اپنی خداداد عظمت کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی اپنے عجزو انکسار کا اظہار بھی فرمایا۔ حدیث کی کتابوںمیں آپ کے یہ الفاظ جگمگا رہے ہیں: اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَافَخْرَ۔ یعنی میں نوعِ آدم کا سردار ہوں (اور یہ خداداد انعام ہے) اس پر میں کسی فخر کا اظہار نہیں کرتا۔
وہ دانائے سُبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسینؔ، وہی طاہاؔ!
سفرِ معراج کے واقعات میںآنحضورؐ فرماتے ہیں کہ میرے سامنے تین برتن پیش کیے گئے۔ ایک میں دودھ، دوسرے میں شراب اور تیسرے میں پانی تھا۔ میں نے ان میں سے دودھ کا انتخاب کیا۔ جب میں نے دودھ پی لی تو جبریل نے کہا: ھُدِیْتَ وَھُدِیَتْ اُمَّمُکَ یَا محمد! اے محمدؐ! (آپ کا انتخاب خوب ہے) آپؐ نے بھی راہِ راست پا لی اور آپ کی امت بھی ہدایت کے راستے پر چل پڑی۔ (سیرۃ ابن ھشام، القسم الاول، ص۳۹۸)