انسان، اللہ کی زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔ اللہ نے اسے بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔ ہرچیز انسان کے لیے مسخر ہے اور کائنات کا ہر عامل اس کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ انسان سے اللہ رب العالمین کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اس کائنات سے بھرپور فائدہ اٹھائے‘ لیکن خودسرنہ ہوجائے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ کی اطاعت وعبادت ہے۔ انسان اطاعت وعبادت کا راستہ اختیار کرنا چاہے‘ تو اسے اپنے لیے کسی اُسوہ اور مثال(Role Model) کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ کامل اُسوہ ایک ہی شخصیت سے مل سکتا ہے اور وہ ہیں‘ اللہ کے آخری رسول ؐ، جن کے بارے میں خود اللہ نے کہا ''درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول (کی سیرت ِطیبہ) میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اورکثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔(سورۃ الاحزاب۳۳:آیت۲۱)
سیرتِ طیبہ کے واقعات اتنے ایمان افروز ہیں کہ انہیں پڑھتے اور سنتے ہوئے قلب ونظر کی دنیا بدلنے لگتی ہے۔ اس سے دل کا زنگ اترتا اور غفلت کے پردے چاک ہوتے ہیں۔ عقیدت ومحبت سے آنکھیں بھی اشک بار ہوجاتی ہیں اور رونگٹے بھی کھڑے ہوجاتے ہیں ‘لیکن بندۂ مومن کو سیرت کا مطالعہ ہمیشہ اس نقطۂ نظر سے کرناچاہیے کہ اس منبع رشدوہدایت سے پھوٹنے والی روشنی کی کچھ کرنیں حسب ِتوفیق وہ بھی اپنی زندگی میں سمیٹ لے۔ ہر قاری اور سامع کو چاہیے کہ سیرت کے ہر واقعے میں جو پیغام پنہاں ہے، اسے جذب کرے اور پھر اپنی تاریک زندگی کو اس سے منور کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے، محض عقیدت ومحبت کے ساتھ پڑھ کر نہ گزر جائے۔ عشقِ مصطفیٰ ؐعظیم ترین دولت اور حب ِ رسولؐ ایمان کی شرط اوّل ہے‘ مگر اطاعت کے بغیر عشق کے دعوے جھوٹے اور ایمان کا وجود نمائشی ہوتا ہے۔
سیرت نگاری اسلامی ودینی ادب وعلوم کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔سیرت ِمصطفیٰؐ خود ربِ کائنات نے بھی قرآن میں بیان کی ہے۔ سیرت پر صحابہ کرامؓ نے اپنے منظوم ومنثور کلام میں بہت قیمتی ہیرے اکٹھے کیے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کرتا امروز اہلِ علم وفن نے بہت کچھ لکھا ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ ہر شخص کا اپنا ذوق ہوتا ہے‘ جس کے مطابق وہ سیرت کے بحرِذخّار سے ہیرے، موتی اور جواہر ڈھونڈ نکالتا ہے۔ ہمارے نزدیک سیرت کو واقعاتی وتحریری انداز میں بھی بیان کیا جائے‘ تو اس سے امت کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے‘ لیکن اس کا زیادہ موثر ذریعہ یہ ہے کہ زندگی کے عملی پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیرت کے چراغ جلائے جائیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اسی انداز میںا ن ایمان افروز واقعات کا احاطہ کیاجائے۔
چند سال قبل ہم نے قرآن وسنت اور مستند تاریخی کتب سے سیرت طیبہؐ کے مختلف پہلو، زندگی کے مختلف عنوانات کے تحت مجتمع کرنے کاسلسلہ شروع کیا تھا۔ ہم مختصر کتابچوں کی صورت میں گلستانِ رسالت سے کچھ پھول چن کر چھوٹے چھوٹے گلدستے بناتے چلے گئے تاکہ ہر محفل ان سے معطر ہو اور ہر گھر ان کی بدولت باغ وبہار بن سکے۔ ہم نے پہلا کتابچہ مارچ۲۰۰۷ء میں بعنوان ''سیرت ِمصطفٰےؐ کی کرنیں‘‘ چھاپا۔ ہمیں یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو سیرت مطہرہ کی برکات اور اپنی خصوصی رحمت سے قبولیتِ عام بخشے گا۔الحمدللہ ہر کتابچہ قارئین کے درمیان مقبول ہوا۔ اس کتابچے کے بعد تسلسل اور ترتیب کے ساتھ مزید جو ۹ کتابچے چھپے، وہ درج ذیل عنوانات کے تحت منظر عام پر آئے: (۱)شمع ِرسالتؐ کے جلوے، فروری۲۰۰۸ئ، (۲)سیرت ِمصطفٰےؐ کے موتی، فروری ۲۰۰۹ئ، (۳)سیرت ِمصطفیؐ کی کلیاں، فروری۲۰۱۰ئ،(۴) شمع ِرسالتؐ اور پروانےؓ، جنوری ۲۰۱۱ئ، (۵)سالارِ کارواں، میرحجازؐ، جنوری۲۰۱۲ئ، (۶)وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا، نومبر۲۰۱۲ئ، (۷)ماہِ مبین‘ رحمۃ للعالمینؐ دسمبر۲۰۱۳ئ، (۸)سید المرسلینؐ‘ خاتم النبیینؐ، دسمبر۲۰۱۴ئ، (۹)ختم الرسل‘ مولائے کلؐ، نومبر۲۰۱۵ئ۔
الحمدللہ مذکورہ کتابچوں کو ہمارے احباب کے علاوہ دیگر حلقوں نے بھی بہت پسند کیا اور کئی کتابچے تین لاکھ سے اوپر شائع ہوچکے ہیں۔ ہم اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں۔کئی سالوں سے احباب یہ مطالبہ بھی کرتے رہے کہ ان کتابچوں کو ایک کتابی صورت میں مدوّن کیا جائے۔ ان احباب کی فرمایش کے علاوہ خود ہمارے پیش نظر بھی یہی تھا کہ جب تعداد اتنی ہوجائے کہ ان کتابچوں سے ایک مناسب گلدستہ تیار ہوسکے تو انہیں یکجا چھاپ دیا جائے۔ اب ان دس کتابچوں کو اکٹھا کرکے ایک کتاب بعنوان ''گلدستہ ٔ سیرتِ مصطفٰےؐ‘‘ قارئین محترم کی نذر کر دی ہے۔ ہم ان شاء اللہ نئے کتابچوں کا سلسلہ حسب ِمعمول جاری رکھیں گے۔ اگر زندگی اور صحت نے ساتھ دیا‘ تو ممکن ہے اللہ کی توفیق سے نئے کتابچوں پر مشتمل ایک اور کتاب بھی مدوّن ہوجائے۔ اگر ایسا ہو سکے‘ تو یہ اس خاکپائے محبانِ مصطفی ؐ کے لیے بڑی سعادت ہو گی اور اللہ کے لیے کیا مشکل ہے۔ وماتوفیقی الاّ باللہ۔
گل دستہ سیرت مصطفیؐ میں شامل یہ کتابچے ایک ایک سال کے بعد تحریرکیے جاتے رہے اور پھر کمپوزنگ، متن خوانی اور طباعت کے مراحل سے گزر کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچتے رہے۔ اس بات کی کوشش تو کی جاتی رہی کہ سیرت کے معطّر ومطہّر البم سے جو بھی واقعہ لیا جائے‘ اس میں کسی سابقہ واقعہ کی تکرار نہ ہو‘ تاہم ممکن ہے کہ کہیں کوئی معمولی سی تکرار محسوس کی جائے۔ ایسی تکرار میں بھی اس واقعہ کے کئی پہلوؤں اور دروس میں سے حسب ِموقع وہی پہلو اور درس اخذ کیا گیا ہے‘ جو اس خاص مضمون کے موضوع سے زیادہ نسبت رکھتا ہو۔ قارئین اس ضمن میں ہماری کسی بھی تحریر میں کوئی جھول محسوس کر کے ہمیں متوجہ کرتے ہیں‘ تو ہم ان کے ممنونِ احسان ہوتے ہیں اور ان کے حق میں پُرخلوص دعائیں بھی کرتے ہیں۔
کتاب کے نام اور عنوان کے بارے میں عرض ہے کہ اس کے ہر باب میں سیرت کے واقعاتی پھولوں کو مختلف عنوانات کے تحت مرتب کرکے ہم نے اپنی طرف سے ایک گلدستہ تیار کیا ہے۔بعض حوالہ جات تلاش کرنے میں ہمارے مہربان اور محقق رفقا نے بھی مخلصانہ تعاون کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہترین اجر عطا کرے اور ان کے علم و فضل میں مزید برکت عطا فرمائے۔ ان محبان گرامی میں سے جناب عبدالوکیل علوی صاحب اس مجموعہ کی اشاعت سے قبل اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مرحوم کے تفصیلی حالات اس عقیدت مند نے اپنی کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد ششم میں بیان کیے ہیں۔ جناب مولانا گل زادہ شیرپائو کا تعاون بھی حاصل رہا۔ یہ بات بھی راقم کے لیے باعث مسرت و تشکر ہے کہ مولانا موصوف نے ہمارے ساتھ اپنے علمی سفر کے دوران چند ماہ قبل جامعہ پنجاب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی ہے۔ ہم نے ان کے اعزاز میں جو تقریب منعقد کی‘ اس میں ان کے مقالے کے بارے میں اہلِ علم نے یہ تبصرہ کیا کہ ''کئی مقالہ جات چُھپنے کے لیے ہوتے ہیں اور کئی مقالہ جات چھپنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ مقالہ چھپنا چاہیے۔‘‘ یہ گل زادہ صاحب کے لیے بھی اعزاز ہے اور ہمارے ادارے کے لیے بھی باعث ِفخر و تسکین۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آج کے دورِ انحطاط میں آقائے دوجہاںؐ کی امت کو اپنا جائزہ لینے اور سیرت ِمصطفٰے ؐ کی روشنی میں اپنی خامیوں پر قابو پانے کی سعادت بخشے۔ آخر میں ہم اللہ رب العالمین سے خود اپنے لیے دعا گو ہیں کہ وہ اس عاجزانہ کاوش کو قبول فرمائے اور روزِمحشر آقائے دوجہاں ؐ کے جھنڈے تلے جگہ عطا فرمائے۔ اے رب کریم ورحیم! تو اپنی رحمت ِواسعہ کے صدقے ہمیں اپنے محبوبؐ اور ہمارے آقاؐ کا حقیقی جانشین بننے کی توفیق عطا فرما(آمین)۔