جن شخصیات نے زندگی میں بہت متاثر کیا‘ ان میں ایک قابل ِقدر شخصیت شیخ احمددیدات (جنوبی افریقہ )کی تھی۔مرحوم کو اللہ نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انہی کی یاد میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ۔ مرحوم 08اگست 2005ء کو راہی ٔملک ِبقا ہوئے۔ جنوبی افریقہ میں سفید فام نسل پرستوں کی حکومت میں کسی بھی نسل سے تعلق رکھنے والے غیر یورپی شخص کا کوئی وزن نہ تھا۔ ان لوگوں کو خواہ یہ مقامی افریقی اکثریت سے ہوں یا برصغیر و عرب اور چین و ملائیشیا سے ہوں‘ غلام اور جانوروں سے بدتر سمجھا جاتا تھا۔ صیہونی اور یہودی امریکہ کی طرح اقلیت میں تھے‘ مگر ان کے اثرات بے پناہ تھے۔ ہر حکمران کی پالیسیوں پر ان کی چھاپ نمایاں ہوتی تھی۔ ان حالات میں اللہ نے ایک بندۂ مومن کو اس دھرتی پر حق کا نقیب بنا کر کھڑا کر دیا۔ یہ تھے‘ شیخ احمد دیدات! جن سے راقم کا بھی نیاز مندانہ تعلق تھا۔ احمد دیدات نے قریباً87سال کی عمر میں وفات پا ئی۔زیر نظر سطور میں احمد دیدات مرحوم کا تذکرہ و تعارف اپنے قارئین کی خدمات میں پیش کیا جا رہا ہے:۔
سورت (انڈیا) کے ایک گائوں میں یکم جولائی1918ء کو ایک بچے نے آنکھ کھولی ‘جس کا نام والدین نے احمد رکھا۔ خاندانی نام؛ احمد حسین دیدات تھا۔ غالباً دیدات میمن کی ذیلی تھی‘ اسی نسبت سے یہ اس کا حصہ اور لاحقہ ہے۔ خاندان کاروباری پس منظر رکھتا تھا‘ مگر جنگِ عظیم نے اکثر کاروبار ٹھپ کر دیے تھے۔ میمن برادری اور سورتی آبادی کا ایک حصہ جنوبی افریقہ میں مقیم تھا اور وہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود تھے۔ اس خاندان کے سربراہ حسین دیدات اپنے بیٹے احمد کی پیدایش کے چند ماہ بعد جنوبی افریقہ چلے گئے تھے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے درزی تھے۔ احمد دیدات بھی قریباً9سال کی عمر میں اپنے باپ کے پاس نیٹال (جنوبی افریقہ) پہنچ گئے۔ ان کی والدہ اور باقی افراد خانہ سورت ہی میں مقیم تھے۔ والدہ اپنے بیٹے کی روانگی کے چند ہی ماہ بعد فوت ہوگئیں۔ شیخ دیدات اپنی والدہ کا تذکرہ جب بھی کرتے آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔
بچپن میں احمد دیدات کی تعلیم کچھ زیادہ نہ تھی‘ مگر وہ بلا کے ذہین تھے۔ انہوں نے سٹینڈرڈسکس (چھٹی کلاس) تک پڑھا ‘مگر اپنے طور پر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرنے اور لکھنے‘ پڑھنے کا عمل جاری رکھا۔ چھوٹی عمر ہی سے ایک سٹور میں ملازمت کرلی‘ اس علاقے میں بہت سے عیسائی مشن اور گرجا گھر سرگرم عمل تھے۔ راہبہ خواتین اور پادری سٹور پر خریداری کے لیے آتے‘ تو ساتھ تبلیغ بھی کرتے۔ کم سن احمد دیدات بڑا پکا مسلمان تھا‘ وہ ان مبلغین سے سوال کرتا‘ مگر اسے کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملتا۔ اس نے اسلام کا مطالعہ کیا‘ مگر اس سے زیادہ عیسائیت پر تحقیق شروع کر دی۔ بائبل کو لفظ بہ لفظ حفظ کرنا‘ کسی عیسائی بشپ کے بھی بس میں نہیں مگر احمد دیدات نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔ بائبل پر بلاشبہ ان کو سند کا درجہ حاصل تھا۔ مولانا رحمت اللہ کی کتاب اظہار الحق نے احمد دیدات کی بڑی رہنمائی کی۔
انسان کچھ سوچتا ہے اور قدرت کے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں۔ قدرت کے فیصلے ہی اٹل ہوتے ہیں۔ ملازمت اور کاروبار کی بجائے قدرت نے اس ذہین مسلمان نوجوان کو اسلام کا مبلغ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے طور پر تحقیق کرتا رہا اور سفید فام اقلیت کے نظام جبر اور نسلی امتیاز کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود نہایت جرأت اور دھڑلے سے بڑے بڑے پادریوں کو چیلنج کرنے لگا۔ پادریوں کو اپنی قادر الکلامی کا بڑا پندار تھا۔ وہ اس ''انڈین بوائے‘‘ کے مقابلے پر مناظرے کے میدان میں اترے‘ تو دنیا حیران رہ گئی کہ بڑے بڑے بت یوں بے بس ہوکر دھڑام سے زمین بوس ہونے لگے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔ شیخ دیدات نے انگریزی زبان میں کمال حاصل کیا اور پیدائشی طور پر وہ تھے‘ بھی شعلہ نوا خطیب! ان کا خطاب سماں باندھ دیتا تھا اور ہمیشہ وہ محفل لوٹ لیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مناظروں کی روداد بھی لکھنا شروع کر دی۔ اسلام پر عیسائی مشنریوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے علاوہ خود جارحانہ انداز اپنا کر عیسائی مشنریوں پر بائبل ہی کے حوالوں سے ایسے اعتراضات کیے کہ ان کے پاس کوئی جواب تھا‘ نہ اب تک ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ یہ انداز دعوت کے لیے کتنا مفید ہے؟مگر ایک مرتبہ شیخ احمد دیدات نے خود اس کے جواب میں کہا کہ جنوبی افریقہ کے جس استحصالی اور نہایت جبر و رعونت کے نظام میں انہوں نے اسلام کا دفاع شروع کیا تھا‘ اس کے معروضی حالات ایسے تھے کہ کوئی اور چارئہ کار نہ تھا۔1940ء تک احمد دیدات جنوبی افریقہ کے ممالک میں معروف مبلغ کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔ جنوبی افریقہ میں ہندو اثرات بھی خاصے تھے اور مسڑ گاندھی نے تو اپنی سیاسی سوچ اور جدوجہد آزادی کا سارا منصوبہ بھی وہیں سے شروع کیا تھا۔ احمد دیدات‘ جس طرح اسلام اور عیسائیت کا موازنہ کرنے میں محنت کر رہے تھے ‘اسی طرح تحریک ِپاکستان کی بھی اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں کھل کر حمایت کرتے تھے۔ پاکستان بنا‘ تو احمد دیدات پاکستان آگئے۔ تین سال یہاں مقیم رہے ‘مگر محسوس کیا کہ ان کے لیے مفید کردار ادا کرنے کے لیے جنوبی افریقہ ہی بہترین سرزمین ہے؛چنانچہ وہ واپس چلے گئے۔
شیخ احمد دیدات نے عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو یوں تیار کیا۔ جیسے کوئی پر عزم جرنیل فتح کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے لائو لشکر کو تیار کرتا ہے۔ شیخ احمد دیدات نے پوری بائبل لفظاً لفظاً پڑھی اور کمال یہ ہے کہ اسے یاد کر لیا۔ میرے علم کی حد تک وہ دنیا کے واحد انسان تھے‘ جنہیں بائبل زبانی یاد تھی۔ راقم نے خود انہیں عوامی خطابات‘ عیسائی مشنریوں سے مباحثے اور اعلیٰ علمی حلقوں کے سیمینارز اور کانفرنسوں میں بائبل کے صفحات کے صفحات زبانی پڑھتے ہوئے سنا اور ایسا کرنے سے قبل ہمیشہ وہ بتاتے کہ بائبل کا فلاں صفحہ یا فلاں کتاب‘ اس کا فلاں باب‘ فلاں آیت سے فلاں آیت تک یوں ہے۔ آپ اپنی بائبل کھول کر دیکھ لیجیے میں پڑھ کر سناتا ہوں۔ امریکہ کے جمی سواگرٹ سے لے کر ویٹی کن کے پوپ‘ مصر کے بشپ شنودہ سے لے کر فلسطینی نژاد اور مشنری انیس شورش تک‘ گریک آرتھوڈکس چرچ کے پادریوں سے لے کر افریقہ و ایشیا اور یورپ کے بڑے بڑے عیسائی مناظروں اور جغا دریوں تک‘ ہر ایک پر مرحوم کی ایسی ہیبت طاری ہوجاتی کہ وہ لاجواب ہو کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن جاتے۔
شیخ دیدات نے عیسائیت کے بطلان کے لیے ‘جہاں زبان سے جہاد کیا‘ وہاں قلم سے بھی اس کا حق ادا کیا اور مختصر اور موثر کتابچے بھی لکھے۔ مختلف مسلم مبلغین نے ان سے خوب استفادہ کیا۔ انگریزی‘ اُردو‘ عربی‘ ہندی‘ فرانسیسی اور افریقہ کی مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے بھی کیے گئے۔ شیخ دیدات نے یہ سب کتابچے سلیس اور رواں انگریزی زبان میں لکھے۔ ان کی معروف ترین تحریر What the Bible Says about Muhammed (محمدؐ بائبل کے مطابق) ہے۔ اٹھائیس صفحات کا یہ مختصر کتابچہ نہایت اہم حوالوں سے ثابت کرتا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں جتنی بھی تحریف کی ہے اس کے باوجود آج بھی بائبل پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ سابقہ انبیا نے تواتر کے ساتھ جس نبی کی آمد کی بشارتیں دی تھیں‘ وہ محمد ﷺ ہیں۔ کئی جگہوں پر آنحضورؐ کا نام بھی موجود ہے اور بیشتر مقامات پر آنے والے نبی کی جو صفات بیان کی گئی ہیں‘ وہ جماعت انبیا میں سے صرف محمد عربیؐ پر صادق آتی ہیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر جہاں مسلمانوں کے ایمان میں قوت پیدا ہوتی ہے‘ وہیں بہت سے غیر مسلم بالخصوص عیسائی بھی حلقہ ٔبگوش اسلام ہوتے رہے ہیں۔ شیخ کی دوسری اہم کتاب Al-Quran: The Ultimate Miracle ہے۔ یہ75 صفحات پر مشتمل ہے‘ جس میں شیخ نے قرآن کے بہت سے معجزات بیان کیے ہیں‘ جن کا انکار کسی کے بس میں نہیں۔ شیخ کی تیسری کتاب بائبل کے متعلق ہے‘ جس میں انہوں نے یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ کیا موجودہ بائبل اللہ کا کلام ہے؟ کتاب کا عنوان ہے Is the Bible God's word?۔ اس میں بے شمار نقلی اور عقلی دلائل کے علاوہ بائبل کے متن کو سامنے رکھ کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ موجودہ بائبل کلامِ الہٰی نہیں ‘بلکہ انسانوں کی تحریف شدہ ایک کتاب ہے۔ کتاب کے صرف 46 صفحات ہیں ‘مگر اپنے موضوع پر نہایت موثر دستاویز ہے۔
شیخ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی چڑھائے جانے کے باطل مسیحی عقیدے پر بھی تفصیلاً تنقید کی ہے۔ اس کتابچے کا نام Crucifixion or cruci-fiction? ہے۔ 28 صفحات کے اس مختصر کتابچے میں عیسائی عقائد اور توہمات‘ تضادات اور تناقض کا خوب تجزیہ کیا گیا ہے اور قرآن کے فیصلے کے مطابق ثابت کیا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ تو یہودیوں نے قتل کیا‘ نہ ہی پھانسی چڑھا سکے۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ بھی باطل ہے کہ انہوں نے عیسیٰ ؑابن ِمریم کو قتل کر دیا اور عیسائیوں کا یہ دعویٰ بھی بالکل جھوٹ ہے کہ عیسیٰ ؑابن ِ مریم کو صلیب پر چڑھایا گیا اور وہ عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ بن گئے۔