کفار کے تین سوال اور قرآن کا جواب…(2)

دونوں عظیم شخصیات کی ملاقات ہوئی‘ تو آپس میں یوں مکالمہ ہوا:
موسیٰؑ نے خضرؑسے کہا : ''کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں‘ تاکہ مجھے بھی آپ اس دانش کی تعلیم دیں‘ جو آپ کو سکھائی گئی ہے‘‘حضرت خضرؑ نے جواب دیا: '' رہ تو سکتے ہیں‘ لیکن میرے کام اس نوعیت کے ہیں کہ آپ اُن کو دیکھ کر صبر نہیں کر سکیں گے‘‘ موسیٰؑ نے کہا کہ انشاء اللہ وہ صبر کریں گے اور کوئی نافرمانی نہیں کریں گے۔ حضرت خضرؑنے کہا کہ میرے ساتھ رہو اور کوئی سوال نہ پوچھو جب تک میں خود وضاحت نہ کر دوں۔ اس معاہدے کے تحت موسیٰ ؑ اور خضرؑ اکٹھے رہے اور وہ تین واقعات رونما ہوئے‘ جن کا تذکرہ ذیل میں دیا جا رہا ہے:۔
حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضرؑ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔ جب وہ دونوں چل پڑے اور ایک کشتی میں سوار ہوئے تو خضرؑ نے اس کشتی کے پیندے میں چھید کر دیا۔ موسیٰ ؑ نے اُس عمل پر ٹوکا تو خضر ؑ نے کہا: ''میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘ جواب میں موسیٰؑ نے عذر پیش کیا کہ اُن سے بھول چوک ہو گئی ہے۔ اس لیے خضر ؑسے نرمی کی درخواست کی۔ کشتی کو وہیں چھوڑ کر وہ خشکی کے راستے پر چل پڑے۔ 
اب ایک اور ‘ پہلے سے بھی زیادہ بظاہر قابلِ اعتراض عمل سامنے آگیا۔ سامنے سے ایک خوب صورت نوجوان لڑکا آتا ہوا ملا۔ خضرؑ ؑنے آئو دیکھا نہ تائو‘ اسے تہِ تیغ کر دیا۔ یہ واقعہ ایسا تھا کہ اُس پر خاموش رہنا خاصا مشکل تھا۔ موسیٰؑ ؑنے سرزنش کے انداز میں کہاکہ آپ نے ایک بے گناہ کی بلا جواز جان لے لی۔ خضرؑنے پھر وہی بات دہرائی تو موسیٰؑ نے کہا: ٹھیک ہے اب اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے الگ کر دیجیے۔
سفر جاری تھا۔ کچھ دور آگے گئے تو ایک بستی میں پہنچے۔ بستی کے لوگ ایسے بے مروت ثابت ہوئے کہ اُنہوں نے اجنبی مہمانوں کی ضیافت اور کھانا پانی فراہم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ ایسے شقی القلب لوگوں کی بستی میں ایک دیوار نظر آئی‘ جو گرا چاہتی تھی۔ خضرؑنے وہ دیوار تعمیر کر دی۔ موسیٰ ؑنے اس پر بھی خضرؑسے کہا کہ بغیر مزدوری کے ایسی بستی میں دیوار کا بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ خضرؑنے کہا: '' بس میرا تمھارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں‘ جن پر تم سے صبر نہ ہو سکا‘‘ پھر خضرؑنے ترتیب وار بتایا:
۱-کشتی محنت مزدوری کرنے والے چند غریب لوگوں کی تھی۔ میں نے اس لیے اُسے عیب دار کر دیا کہ ظالم بادشاہ لوگوں کی کشتیاں ضبط کر رہا تھا۔ اس عیب دار کشتی کو وہ چھوڑ دے گا۔ یہ غربا بعد میں اس کی مرمت کر کے اپنا کاروبار چلا لیں گے۔
۲-مقتول لڑکا مومن والدین کا بیٹا تھا ‘لیکن اُس کے اندر سرکشی و کفر کے جراثیم پائے جاتے تھے۔ ہمیں یقین تھا کہ یہ والدین کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ اُن کا رب اس کے بدلے اُن کو بہتر اولاد عطا فرمائے‘ جو اعلیٰ اخلاق اور صلۂ رحمی کی صفت سے مالامال ہو۔
۳- دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے۔ ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ دیوار کے نیچے اُن بچوںکے لیے بہت قیمتی خزانہ مدفون ہے۔ اس لیے تمہارے رب نے اپنی رحمت کی بنا پر چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں تو اپنا خزانہ نکال لیں۔
حضرت خضرؑ نے اس وضاحت کے بعد کہا: ''یہ جان لو کہ میں نے اپنے اختیار سے کچھ نہیں کیا۔ یہ سب اللہ کے حُکم کی تعمیل تھی‘ مگر تم اس حقیقت کو نہ جاننے کی وجہ سے صبر نہ کر سکے تھے‘‘۔
ان واقعات کی تفسیر لکھتے ہوئے سید مودودیؒ نے فرمایا ہے: ''خضرؑاگر انسان ہوں تو خدا کی بھیجی ہوئی شریعت کے مطابق کسی دور میں بھی پہلے دو کام اُن کے لیے کسی صورت جائز نہیں تھے؛ اگر کسی کو کسی کے بارے میں علم بھی ہو جائے کہ اُس کے ارادے خراب ہیں تو وہ اُسے قتل نہیں کر سکتا؛ البتہ تکوینی احکام ‘ جن میں اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ذِمہ داریاں سونپتا ہے‘ اُن میں اللہ کے حُکم کے مطابق فرشتے اس طرح کی خدمات سرانجام دیتے رہتے ہیں‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ سید مودودیؒ کی تشریح اتنی تفصیلی اور جامع ہے کہ اُس کی موجودگی میں اس اَمر میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ خضرؑکوئی انسان یا پہنچے ہوئے ولی نہیں‘ بلکہ اللہ کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہیں‘ جن کے ذمے تکوینی احکام لگتے رہتے ہیں اور وہ اُن کی تنفیذ کرتے ہیں۔ ان واقعات میں اہلِ ایمان کے لیے عبرت کے کئی پہلو موجود چھپے ہوئے ہیں۔
ایک جانب اللہ نے اہل ایمان کو حوصلہ اور تسلی دی ہے۔ ظاہری حالات میں جو تکلیف دہ چیزیں نظر آتی ہیں‘ جو واقعات ضَرر اور نقصان کا باعث بنتے ہیں ‘اُن کے متعلق اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ انجام کار اُن سے خیر برآمد ہو گا یا شر۔ بہت سے واقعات بظاہر شر معلوم ہوتے ہیں ‘لیکن اُن کے پیچھے اللہ کی رحمت‘ اُس کی مصلحت و قدرت اور بے شمار حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی بستی اور قبیلے کے لوگوں کا سنگ دلانہ رویہ وہاں کے مستحقین کی مدد سے ہاتھ کھینچ لینے کا جواز فراہم نہیں کرتا۔ نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا بھی بھلا ہے ‘لیکن جہاں سے نیکی نہ ملے وہاں حسنِ سلوک عظیم تر اور ارفع و اعلیٰ عمل ہے۔
ذوالقرنین کے بارے میں بھی قریشِ مکہ نے سوال پوچھا تھا۔ عربوںکے ہاں اُس کے بارے میں کوئی معلومات نہ تھیں۔ آیت نمبر۸۳ سے لے کر آیت نمبر۱۰۱تک اس تاریخی مضمون کو نہایت دِل نشین انداز میں پیش فرمایا گیا ہے۔ ذوالقرنین کا لفظی معنی دوسینگوں والا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر میں اپنی تحقیق کا لُبِّ لباب پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے: ''بائبل کے صحیفے دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے‘ اُس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں‘ جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں کے نزدیک اس دو سینگوں والے کا بڑا چرچا تھا‘ کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخرکار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی‘‘۔(تفہیم القرآن‘ جلد سوم‘ تفسیر آیت نمبر ۸۳‘ سورۃ الکہف)
ذوالقرنین کی تین چار صفات قرآنِ مجید میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا لقب دوسینگوں والا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑا فرماں روا اور فاتح تھا‘ جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی تھیں‘نیز شمالاً جنوباً بھی اُس کی سلطنت بہت وسیع تھی۔ تیسرے یاجوج ماجوج کے حملوں کو روکنے کے لیے شمالی سرحدوں پر ایک مستحکم دیوار بنائی تھی۔ چوتھے وہ خدا پرست اور عادل حکمران تھا۔
ان میں سے سب سے زیادہ علامات‘ جس تاریخی شخصیت میں پائی جاتی ہیں وہ فارس کا حکمران خورس تھا‘ جس کا عروج ۵۴۹ ق۔ م کے قریب شروع ہو اور اُس نے ۵۳۹ ق۔م میں بابل کو فتح کیا۔ اس نے بیت المقدس کو بابلی سلطنت سے آزاد کرایا۔ اسی نے ہیکل سلیمانی کی نئے سرے سے تعمیر کرائی۔ اس شخصیت کا پورا تعارف جس انداز میں پیش کیا گیا ہے‘ اُس سے ایک جانب اس کی قوت و شوکت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ناقابلِ شکست فاتح تھا اور دوسری جانب اتنی عظیم الشان قو ّت کے باوجود انتہائی متواضع‘ خوش اخلاق اور خوفِ خدا سے مالامال تھا۔ وہ قانون پسند اور صالح لوگوں کا ساتھی اور سرپرست اور ظالموں کی بیخ کنی کرنے والا حکمران تھا۔ اللہ نے دشمنانِ اسلام کو تنبیہ فرمائی کہ آج تم اپنی روایتی رذالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے سچے نبیؐ کے خلاف مشرکین کے حامی و ساتھی بنے ہوئے ہو۔ مشرکین تو جاہل ہیں مگر تمھارے پاس تو اللہ کی کتاب ہے جس میں تحریف کے باوجود تم اس کی روشنی میں اللہ کے نبی کو یوں پہچانتے ہو کہ اس میں کوئی اشتباہ ہی نہیں۔ تمہارا انکار اور حق کی مخالفت محض نسلی تعصب اور قومی تفاخر کی وجہ سے ہے ‘جو جہالت‘ حماقت اور کمینے پن کی علامت ہے۔ ذوالقرنین ناقابل شکست تھا تو اللہ کے نبی اور ان کے صحابہ بھی ہمیشہ کامیابی و فتح حاصل کریں گے۔تمہارا مقدر شکست ہو گی‘ جبکہ اہلِ حق ناقابلِ شکست ثابت ہوں گے۔ 
جس جگہ ان دونوں شخصیات‘ حضرت موسیٰ ؑ(اللہ کے نبی) اور حضرت خضرؑ (اللہ کے مقرب فرشتے) کی ملاقات ہوئی وہ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب دوسرے بڑے شہر ''امِ درمان‘‘ سے ملحق ہے۔انگریزوں کو شکست دینے والے مہدی سوڈانی کی قبربھی اُمِ درمان میں ہے۔ یہاں دریائے نیل کی دونوں شاخیں آپس میں ملتی ہیں۔ ان دونوں کا منبع یوگنڈ ا کے شہر جینجاکے قریب ہے۔ میں ان کا منبع اس سے قبل کئی بار دیکھ چکا تھا۔ ایک دریا کا پانی سفید ہے اور دوسرے کا نیلا۔ کئی سال قبل جب مجھے سوڈان میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے خرطوم جانے کا اتفاق ہوا‘ تو اس مقام کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں