سیروا فی الارض!

اللہ تعالیٰ نے کرۂ ارضی پر انسان کو آباد کیا اور اسے اپنا خلیفہ بنایا۔ انسانوں نے اللہ کی اطاعت کا راستہ بھی اپنایا‘ مگر اکثر و بیشتر نفس امارہ اور شیطانِ لعین کی راہ پر چلنے کی روش اختیار کی۔ اللہ نے زمین میں سیر کرنے کا قرآن میں بار بار حکم دیا ہے اور اس کی غایت یہ بیان کی ہے کہ سرکش قوموں کا انجام دیکھو اور عبرت پاؤ۔ ساتھ ہی یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ اللہ کی تخلیق کے کرشمے دیکھو اور اس کی ذاتِ بابرکات کی معرفت حاصل کرو۔ عبرت کی آنکھ سے اس کائنات کو دیکھنے والے پکار اٹھتے ہیں ربنا ماخلقت ھذا باطلاً سبحنک فقنا عذاب النار (آل عمران :۱۹۱) لڑکپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے اور کہولت تک اللہ کی زمین کی خوب سیر کی ہے۔ الحمد للہ ملک اور بیرون ملک شرق و غرب اور شمال و جنوب کے سفر کیے اور ہمیشہ خالق کی آیات کو دیکھا۔ یہ اللہ کا خاص احسان ہے؛ اگر کبھی غفلت کا شکار ہوا تو یہ میری کمزوری اور نااہلی ہے۔ اللہ معاف فرمائے۔ اپنی ڈائری کا ایک گرد آلود ورق اس وقت سامنے ہے۔ سوچا کہ آج آپ کو بھی شریکِ سفر کرلوں۔ 
آج ۹؍ ستمبر ۲۰۱۵ء ہے اور قیام ساؤتھ افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہے۔ سہانی صبح ہے‘ پرندے اپنی اپنی آواز میں اللہ کی حمد و ثنا کر رہے تھے۔ انسانوں میں سے اکثر غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں‘ مگر پرندے اور حیوانات اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ فجر کی اذانیں یقینا مساجد میں ہو رہی ہوں گی‘ مگر یہاں اذان کی آوازسنائی نہیں دیتی۔ میرے میزبان ڈاکٹر سید شبیر شاہ صاحب اور بچگان بھی وضو کرکے آچکے ہیں اور میں بھی ان کے انتظار میں بیٹھا ہوں۔ باجماعت نماز ادا کی‘ پھر شبیر صاحب نے معمول کے مطابق گرم دودھ اور خشک میوہ جات میرے بستر سے ملحق میز پر سجا دئیے۔ تھوڑی دیر آپس میں گفتگو ہوئی۔ موضوعِ سخن اسلامک سرکل آف ساؤتھ افریقہ اور اس کے مختلف حلقہ جات کی کارکردگی اور اس میں مزید بہتری اور فعالیت کے لیے سوچ بچار تھی۔ شبیر صاحب سرکل کے بانی صدر ہیں اور چند دنوں تک انتخابات کا نتیجہ آنے والا ہے‘ جس کے لیے تین نام سرکل کی شوریٰ نے تجویز کیے ہوئے ہیں۔ 
ڈاکٹر شبیر صاحب بہت معروف اور مصروف معالج ِ امراضِ چشم ہیں۔ اس کے باوجود سرکل کی سرگرمیوں کے لیے کافی وقت دیتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اب کسی اور بھائی کے کندھوں پر یہ بوجھ ڈالا جائے‘ مگر فیصلہ تو ارکان کو کرنا ہے۔ حافظ ندیم احمد صاحب ناظم انتخاب ہیں اور انہوں نے ہر یونٹ میں اپنے نائب ناظمین انتخاب مقرر کر رکھے ہیں۔ سرکل کا نیا دستور حال ہی میں منظور ہوا ہے۔ اس کے مطابق دو میقات کے بعد صدر کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔ ایک میقات دو سال کی ہوتی ہے۔ شبیر صاحب کی رائے ہے کہ ان کو اس ذمہ داری پر چار سال ہوچکے ہیں‘ اس لیے اب تبدیلی لازمی ہے۔ دیگر دوستوں کی رائے ہے کہ چوںکہ دستور ابھی بنا اور نافذ ہوا ہے‘ اس لیے تنفیذِ دستور کے بعد دو میقات شمار ہوں گی۔ اکثر تنظیموں اور جماعتوں میں ذمہ داری کو منصب اور عہدہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے حصول کے لیے نہ معلوم کیا کیا جتن کیے جاتے ہیں۔ صحیح اسلامی فکر رکھنے والی تنظیمات میں ذمہ داری کو ایک کٹھن فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس سے بچ جانے پر دل خوش ہوتے ہیں۔ جب ذمہ داری کندھوں پر آن پڑے‘ تو اسے نبھانا پڑتا ہے۔ 
شبیر صاحب کو صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر سرکاری ہسپتال جانا ہوتا ہے۔ وہ علی الصبح ناشتہ کرکے گھر سے چلے جاتے ہیں‘ پھر شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ میں تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد اٹھا ہوں۔ اب ناشتہ کے بعد دن بھر کے پروگرام بھگتانے ہیں۔ یہ سب ہلکے پھلکے پروگرام ہیں۔ آج ہمیں ایک تو اسلامی مرکز جانا ہے۔ دوسرے‘ ایک انٹرنیشنل سکول میں جانا اور تیسرے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تحریکی بھائیوں سے ملاقات ہے۔ ان بھائیوں نے ہمیں ظہرانے پر مدعو کیا ہے۔ غسل اور ناشتے سے فارغ ہوا تو ندیم صاحب‘ خالق داد بھٹی صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ اب ہماری منزل اسلامک مرکز ہے۔ یہاں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی‘ تنظیم کو مضبوط کرنے ‘ دعوتی دائرے کو وسعت دینے اور تربیتی پروگراموں کو باقاعدگی سے منظم کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور مقامی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی تیاری‘ بالخصوص بچوں کے لیے اخلاقی کہانیوں پر مشتمل دلچسپ کتابیں ہماری گفتگو کے مرکزی موضوعات تھے۔ اس پر خاصا مفید تبادلۂ خیال ہوا۔ 
طے شدہ وقت پر ہم قرطبہ سکول کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ سکول سیدہ حمیرہ شبیر اور محترمہ عفت جعفر چلا رہی ہیں۔ عفت کے آباؤ اجداد کا تعلق پانی پت اور دہلی سے تھا۔ اب مدت ہوئی یہ خاندان لاہور میں مقیم ہے۔ عفت صاحبہ ڈاکٹر جعفر کی اہلیہ ہیں اور ۱۹۹۱ء میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں۔ ان کا خاندان گلبرگ لاہور میں رہایش پذیر ہے‘ جبکہ جعفر صاحب کا گھر ڈی ایچ اے‘ لاہور میں ہے۔ جب ہم سکول پہنچے تو اس کی وسیع و عریض عمارت دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ۔ سکول کے پرنسپل مسٹر محمد ہیں‘ جن کا تعلق بھارت کے ایک سکھ راجپوت خاندان سے تھا‘ لیکن ان کی پیدائش ساؤتھ افریقہ کی ہے۔ غالباً والدہ کی طرف سے وہ گجراتی یا میمن ہیں۔ انہیں انگریزی کے علاوہ گجراتی زبان آتی ہے‘ مگر پنجابی‘ اُردو نہیں آتیں۔ وہ اپنی تگ و دو‘ جستجو اور گہرے مطالعے کے بعد اس حقیقت تک پہنچے کہ اسلام ہی سچا دین ہے۔ انہوں نے اپنے اس طویل سفر کی داستان بڑے دلچسپ انداز میں ہمیں سنائی۔ 
سیدہ حمیرہ اور محترمہ عفت دونوں سکول میں موجود تھیں۔ انہوں نے بھی ہمارا استقبال کیا اور ایک ایک کلاس میں ہمیں لے کر گئیں۔ ہم نے طلبہ اور طالبات سے مختلف سوالات کیے‘ جس کے انہوں نے بہت اچھے جوابات دئیے۔ طلبہ میں ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے بچے اور بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ جاپان‘ چین سے لے کر لیبیا اور مراکش تک‘ ساؤتھ افریقہ اور ملاوی سے لے کر مصر اور ترکی تک پاکستان‘ ہند‘ بنگلہ دیش سے لے کر ملائیشیا تک کم و بیش ہر ملک کے بچے یہاں پڑھ رہے ہیں۔ یوں یہ پھولوں کا ایک عالمی اور خوب صورت گل دستہ ہے۔ مختلف کلاسوں میں عفت صاحبہ نے طلبہ اور اساتذہ سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ساری کتابوں کے مصنف اور بہت بڑے اسلامی سکالر ہیں۔ میں نے انہیں ہر مرتبہ درخواست کی کہ میرے بارے میں مبالغہ نہ کریں‘ مگر وہ بضد رہیں کہ میرا تعارف انہی الفاظ میں کرائیں گی۔ مجھے خود بڑی خفت ہوتی ہے جب بار بار اس طرح کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک بزرگ مہمان پاکستان سے آئے ہیں ‘جو آپ سے تعارف حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ تو یہ زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ قرطبہ کا نام بہت پیارا ہے۔ ہماری زریں تاریخ اور دور عروج‘ یورپ میں پھیلے ہوئے اندھیرے اور پسماندگی ‘ پھر ہمارا زوال اور یورپ کا عروج سبھی عنوانات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ میں نے کئی سال قبل سپین کے دو سفر کیے تھے اور قرطبہ و الحمرا کی خوب سیر کی تھی‘ غرناطہ نہ جاسکا۔ 
انتظامیہ کے حکم کے مطابق تمام کلاسوں میں گھومنے پھرنے کے بعد ہم نے سٹاف روم میں چائے پی اور جناب محمد صاحب نے اسلام قبول کرنے کے بعد پیش آمدہ مشکلات کا تذکرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت دی اور وہ دین ِ حق پر ڈٹے رہے۔ اللہ ایسے قیمتی لوگوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ قرطبہ سکول کی وزٹ سے فارغ ہونے کے بعد سیدہ حمیرہ اور عفت صاحبہ نے ہمیں ایک اسلامک سکول / کالج فار گرلز کی وزٹ کرانا تھی۔ یہ ادارہ کرائے کی ایک عمارت میں بالائی منزل پر واقع ہے۔ اس میں بھی مختلف قومیتوں کی طالبات ہائی اور انٹر کلاسوں میں پڑھتی ہیں۔ تمام بچیوں نے بہت اچھا حجاب کیا ہوا تھا۔ سکول کی پرنسپل فاطمہ صاحبہ ہیں۔ انہوں نے مختلف کلاسوں میں ہمارے ساتھ جا کر طالبات کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بریفنگ دی۔ ماشاء اللہ یہ بھی ایک بہت اچھا ادارہ ہے۔ 
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم ایک قریبی مسجد میں نمازِ ظہر کے لیے گئے۔ یہ بہت بڑی اور شاندار مسجد ہے۔ مسجد میں پاکستان سے تبلیغی جماعت کا ایک وفد آیا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک بھائی جن کا نام عباد اللہ ہے‘ پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے ملاقات کی اور بڑے تپاک سے ملے‘ پھر اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ تین ماہ کے ویزے پر ساؤتھ افریقہ آئے ہیں‘ پھر مجھ سے میرے بارے میں پوچھا: میں نے اپنے نام کے ساتھ اپنا تعارف کرایا۔مجھ سے کہنے لگے کہ آپ نے کتنا وقت دیا ہے؟ میں نے کہا: بھائی جان میں نے تو پوری عمر دی ہوئی ہے۔ 
نماز کے بعد ہمیں اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ آج پھر کیپ آف انڈیا میں دوپہر کے کھانے میں حاضری دینا تھی۔ یہ ہوٹل اور ریستوران ہمارے بنگالی بھائی چلا رہے ہیں‘ مگر اس کا رجسٹرڈ نام کیپ آف انڈیا ہے۔ جناب مشرف صاحب ‘جو اسلامک فورم آف افریقہ کے ناظم ہیں‘ اپنے ساتھیوں معصوم باللہ وغیرہ کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ مشرف صاحب ہول سیل سبزیوں کا کام کرتے ہیں اور ان کے بیش تر ساتھی یا تو ملازمتیں کر رہے ہیں یا چھوٹے موٹے کاروبار چلا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ اس بلالی دنیا میں وہ تلاش معاش کے ساتھ دین ِ حق کی سربلندی کے لیے بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں