مبارک علامات اور سرور کونینؐ کی آمد!

طبقات ابن سعد میں حضرت ابیّ بن کعبؓ کے حوالے سے ایک روایت بیان کی گئی ہے کہ یمن کا بادشاہ تُبّع جب اپنے لاؤلشکر کے ساتھ مدینہ آیا ‘تو اس نے ایک چشمے کے پاس ڈیرہ لگایا‘ پھر اس نے علمائے یہود کو اپنے پاس بلایا۔ ان کے سامنے اس نے کہا: میں اس شہر کو اس لیے برباد کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں سے یہودیت کا نام ونشان مٹ جائے اور تمام لوگ ہمارے دین(بت پرستی) پر قائم ہوجائیں۔ اس موقع پر یہودیوں کے سب سے بڑے عالم سامول نے کہا: اے بادشاہ! اس شہر کی طرف بنی اسماعیل میں سے ایک نبی ہجرت کرے گا۔ اس کی جائے پیدائش مکہ اور اس کا نام احمد ہے اور یہ اس کا دارالہجرت ہے۔ اس مقام پر اس کے ساتھ جنگیں بھی لڑی جائیں گی‘ جن میں بہت سارے لوگ قتل اور مجروح ہوجائیں گے۔ بادشاہ نے پوچھا: فاتح کون ہوگا؟ اس نے جواب دیا کہ کبھی اسے فتح ملے گی‘ کبھی اس کے دشمنوں کو۔ لیکن بالآخر اسی کو فتح عظیم ملے گی‘ وہ غالب آجائے گا اور اس کے دین کے غلبے میں کسی کو شک نہیں رہے گا۔ بادشاہ نے پوچھا: اس کی قبر کہاں ہوگی؟ تو اسے جواب دیا گیا کہ اسی شہر میں۔ 
بادشاہ یہودی عالم کی باتیں غور سے سنتا رہا اور اس نے اس سے پوچھا کہ اس نبی کا حلیہ اور اس کی صفات کیا ہوں گی؟ اس نے جواب دیا: وہ نہ پست قامت ہوگا نہ بہت دراز قد۔ اس کا قد کاٹھ بہت متناسب ومتوازن ہوگا۔ اس کی دونوں آنکھوںمیں خاص قسم کی سرخی ہوگی۔ اونٹ پر سواری کرے گا‘ عمامہ پہنے گا اور اپنے کندھے پر تلوار لٹکائے گا‘ جو اس کے مقابل آئے گا وہ کوئی پروا نہیں کرے گا کہ وہ اس کا بھائی ہے یا چچا کا بیٹا یا چچا‘ اسے (اپنے دین کا غلبہ مطلوب ہوگا) یہاں تک کہ اس کا دین ایسا غالب ہوگا کہ کوئی اس سے اختلاف کرنے والا نہ رہے گا۔ (یہ سن کر) تُبّع نے کہا کہ پھر تو میرے لیے اس شہر پر قبضہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ شہر میرے ہاتھوں ویران ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے لاؤلشکر کے ساتھ یمن واپس چلا گیا۔ (طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ص۱۵۹)
یہودیوں کو یہ ساری باتیں ان کی مقدس کتابوں سے معلوم ہوئی تھیں۔ گویا انہیں پوری طرح سے علم تھا کہ اللہ کے آخری رسول بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں گے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ نبی ہجرت کرے گا اور ان کا شہر ہی اس کا دارالہجرت ہوگا۔ انہیں یہ بھی بخوبی معلوم تھا کہ جو بھی اس کے مدمقابل آئے گا‘ اس کا مقدر ناکامی اور ہزیمت ہوگی۔ ان کے برعکس عرب ان علوم سے بے بہرہ تھے۔ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے درمیان کافی عرصے تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔ وہ دین ابراہیمی کے پیرو ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے‘ مگر انہوںنے توحید کو چھوڑ کر بت پرستی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اس لاعلمی کے باوجود ان کی خوش بختی تھی کہ وہ (بالخصوص اہلِ یثرب) بڑی تعداد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ یہودی اپنے بغض‘ احساسِ برتری اور خباثت کی وجہ سے سب کچھ جانتے ہوئے بھی بڑی تعداد میں ہدایت سے محروم رہے۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے‘ اس کا تصور ہرآدمی کرسکتا ہے۔ اس نبی آخرالزمان کی تمام صفات اللہ نے مقدس صحائف وکتب کے اندر نمایاں طور پر بیان فرمادی تھیں۔ بہرحال مقدر اپنا اپنا ہوتا ہے‘ کسی کا سرفرازی اور کسی کا ذلت ورسوائی۔ محمد ایک ایسا نام تھا‘ جو کتب مقدسہ میں بیان ہوا۔ اس نام کی فضیلت وعظمت ہی کی وجہ سے عربوں میں اس دور میں محمد بہت مقبول ناموں میں شمار ہونے لگا۔ کئی عرب اپنے بچوں کے نام محمد رکھنے لگے۔ بنوتمیم میں بھی ایک شخص کا نام محمد بن سفیان بن مجاشع رکھا گیا تھا۔ یہ شخص نصرانیت اختیار کرنے کے بعد بہت بڑا پادری اور بشپ بن گیا تھا۔ ان کے علاوہ بھی مورخین نے کچھ مزید لوگوں کے نام بیان کیے ہیں‘ مثلاً: بنی سوأ ۃ میں ایک شخص محمد بن الجشمی کے نام سے معروف تھا۔ اسی طرح محمد الاسیدی اور محمدالفقیمی کے نام رکھے گئے تھے۔ (ایضاً)
آپ کے صحابہ کرام میں ایک انصاری صحابی حضرت محمدبن مسلمہؓ کا نام آپ کے اسم گرامی کے ساتھ مشترک ہے۔ وہ آپ سے عمر میں چھوٹے تھے۔ ان کے بے شمار کارنامے تاریخ اسلامی میں رقم ہیں۔ کعب بن اشرف یہودی نے آنحضورﷺ اور اہلِ ایمان کو بہت اذیت پہنچائی تھی۔ وہ مسلم خواتین کے ساتھ اپنے جھوٹے تعلقات کے قصے گھڑتا اور فحش اور عشقیہ اشعار کہا کرتا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اس کی اذیتوں کے حد سے بڑھ جانے کے بعد اس کے قتل کا فیصلہ کیا تو اس مشکل کام کا بیڑہ بھی محمدبن مسلمہؓ نے اٹھایا اور اس مشن کو کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ پہلی مرتبہ ان کا نام سن کر آنحضورﷺ خوش ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا تھا کہ محمد نام رکھا کرو‘ مگر میری کنیت ابوالقاسم اختیار نہ کیا کرو۔ امام احمد نے حضرت ابوامامہؓ کی روایت کردہ ایک حدیث لکھی کہ انہوں نے آنحضورﷺ سے ایک دن سوال کیا کہ یارسول اللہ! آپ کی نبوت اور رسالت کی علامات آغاز میں کیسے ظاہر ہوئیں؟ آپ نے فرمایا: دعوۃ ابی ابراہیم‘ وبشریٰ عیسٰی‘ ورأت امی انہ یخرج منہا نور اضاء ت بہ قصور الشام۔ یعنی میں اپنے جد ابراہیم ؑ کی دعا کا جواب ہوں اور عیسیٰ ؑنے میرے بارے میں بشارت دی اور میری والدہ نے مجھے یہ بتایا کہ میری ولادت کے وقت ان کے جسم سے ایک نور نمودار ہوا‘ جس کی روشنی نے شام کے محلات تک کو منور کردیا اور میری والدہ نے انہیں دیکھا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۴۲۵) 
آنحضور ﷺ کے دادا عبدالمطلب کے بارے میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ انہوں نے آنحضورﷺ کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل ایک عجیب وغریب خواب دیکھا‘ جس کا خلاصہ یہ ہے: وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ ایک نہایت خوب صورت اور سرسبز وشاداب درخت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ حد نگاہ تک اس کی شاخیں مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سے ایسی روشنی نمودار ہورہی ہے‘ جس سے مشرق ومغرب کا ہر خطہ جگمگارہا ہے‘ پھر اچانک دیکھا کہ ہرجانب سے کچھ لوگ کلہاڑے اور دیگر ہتھیار لے کر دیوانہ وار اس درخت کو کاٹنے کے لیے بھاگے چلے آرہے ہیں۔ جب یہ لوگ درخت کے قریب پہنچے تو درخت کا تنا پھٹ گیا اور اس میں سے ایک ایسا خوب صورت جوان رعنا برآمد ہوا کہ اس کی مثل دنیا میں کبھی نہ دیکھی گئی ہوگی۔ اس جوانِ حسین وجمیل نے ان لوگوں کو درخت کاٹنے سے روکا‘ مگر وہ نہ مانے۔ اب اس نے ان کو بزورِ قوت یوں روکا کہ ان کی کمر توڑ ڈالی اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں‘ جس کے بعد وہ لوگ درد سے کراہتے اور چلاتے ہوئے گرتے پڑتے دُور بھاگنے لگے۔ 
عبدالمطلب نے اپنا یہ خواب اپنے بیٹے ابوطالب کو بھی بتایا اور پھر اس کی تعبیر پوچھنے کے لیے اس دور کی ایک مشہور کاہنہ کے پاس گئے۔ جب اس کے سامنے یہ خواب بیان کرنے لگے تو کاہنہ نے کہا کہ آپ کا چہرہ زرد کیوں ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خواب تو سن لو۔ جب پورا خواب سنا چکے تو کاہنہ کا چہرہ بھی زرد ہوگیا‘ پھر وہ چونک کر بولی کہ خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ درخت شجرنبوت ہے اور جو نوجوان تنے سے برآمد ہوا ہے‘ وہ تمہاری قوم میں مبعوث ہونے والا نبی ہے۔ اس کی روشنی مشرق ومغرب میں ہر جانب پھیلے گی‘ مگر خود اس کی اپنی قوم اس کے مدمقابل کھڑی ہوجائے گی۔ وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرے گا‘ مگر وہ نہیں مانیں گے۔ آخر مجبور ہوکر وہ ان کی کمریں توڑ ڈالے گا اور ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالے گا اور اس کی فتوحات ان لوگوں کو بے بس کردیں گی۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۴۳۲) 
آنحضورﷺکے ایک صحابی حضرت عمروبن مرہ الجہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ یمن سے ایک قافلے کے ساتھ زمانۂ جاہلیت میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو میں نے رات کو خواب میں روشنی دیکھی ‘جو خانہ کعبہ سے نکل رہی تھی‘ پھر اس میں سے آواز سنی: دورِ ظلمت ختم ہوا‘ روشنی کا عہد طلوع ہوا اور خاتم الانبیا دنیا میں مبعوث ہوگئے۔ یہ عمرو بن مرہ جب مکہ میں آئے‘ تو آنحضورﷺ کو دیکھ کر آپ پر ایمان لے آئے اور آپ سے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں یمن واپس جاکر اس دین کی تبلیغ کروں۔ آپ نے انہیں واپسی کے وقت نصیحت فرمائی: علیک بالرفق والقول السدید والّا تکن فظًّا ولا متکبرًا ولاحسودًا۔ یعنی ہمیشہ نرم رویہ اختیار کرنا‘ سچی بات کہنا‘ سخت دلی‘ تکبراور حسد سے ہمیشہ بچ کر رہنا۔ عمرو بن مرہؓ کی دعوت کے نتیجے میں یمن میں بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ طبع دارِ ابن حزم‘ بیروت‘ ص۴۳۳-۴۳۴)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں