بسنت کے ہنگامے ‘ لمحۂ فکریہ!

وزیراطلاعات پنجاب کا بسنت کو عید الاضحی سے تشبیہ دینا انتہائی افسوسناک امر ہے۔ وہ اپنی حکومت کی ہر حرکت پر جھوم اٹھتے ہیں اور وجد میں آکر نہ معلوم کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ حکومت پنجاب کا بسنت پر لگائی گئی پابندی ہٹانے کا فیصلہ نہایت بچگانہ ہے۔ دعوے کچھ اور ہیں اور عمل اس کے الٹ۔ کہاں مدینہ کی اسلامی ریاست اور کہاں آج کا نیا پاکستان۔ بسنت کی اصلیت جانے بغیر اس کے منانے کا اعلان ''مدینہ کی اسلامی ریاست ‘‘قائم کرنے کے مدعی حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ہے‘ مدینہ کی اسلامی ریاست ؟جو اس طرح کے فیصلے کر رہی ہے!افسوس صد افسوس! بسنت کے موقع پر جو اودھم مچایا جاتا ہے‘ اس کا انسانی اخلاق سے بھی کوئی تعلق نہیں‘ کجا یہ کہ ''مدینہ کی اسلامی ریاست‘‘ کا دعویٰ کرنے والے اس کی سرپرستی کریں۔ مختلف مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی ثقافت‘ تہذیب اور مذہبی رسومات کے مطابق مختلف ایام اور تقریبات مناتے ہیں۔ نبی اکرمؐ کی ایک صحیح حدیث کے مطابق اسلام میں عید الفطر اور عید الاضحی ہی دو ایسی تقریبات ہیں‘ جنہیں خصوصی طور پر منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فرمایا ''جو کسی بھی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا‘ وہ انہی میں شمار ہوگا۔‘‘(سنن ابوداؤد) 
برصغیر میں بدھ مت اور ہندو دھرم کے زیر اثر مختلف تقریبات منائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک مشہور تقریب بسنت کا میلہ بھی ہے۔ اس میلے کی حقیقت یوں بیان کی جاتی ہے کہ ہندو سردیوں کا موسم گزر جانے کے بعد ماگھ کے مہینے میں یہ تقریب مناتے ہیں‘ جس میں سرسوں پھولی ہوتی ہے اور بہار کی آمد کا انتظار ہوتا ہے۔ زمانۂ قدیم سے لے کر اٹھارویں صدی کے وسط تک یہ تقریب ایسی ہی نوعیت کی حامل تھی‘ لیکن اٹھارویں صدی کے آخری نصف میں اس نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ یہ محض ایک موسمی اور مذہبی تقریب نہ رہی‘ بلکہ یہ اسلام دشمن اور ناموسِ رسالت کو پامال کرنے والی ایک تقریب کا روپ اختیار کر گئی۔ 
ہندو ؤں کے دھرم میں صدیوں سے بسنت کو ایک مذہبی اور موسمی تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا‘ مگر 1750ء کے ایک واقعہ کے بعد اس کی حیثیت ہندو اور سکھ آبادیوں کے نقطۂ نظر سے یکسر بدل گئی۔ اسے ایک گستاخِ رسول ہندو حقیقت رائے باکھ مل پوری کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا اور لاہور میں اس کی ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی۔ ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب ''پنجاب آخری مغل حکمرانوں کے دور میں‘میں لکھا ہے: ''حقیقت رائے باکھ‘ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا [اس کی ماں ایک سکھ خاندان سے تعلق رکھتی تھی]۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد ﷺاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا ‘جہاں [عدالت کی طرف سے] اسے سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 
اس واقعے سے پنجاب کے ہندوئوں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اس وقت کے پنجاب کے گورنر زکریا خان (1707ء تا1759ئ) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے ‘لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا‘ لہٰذا اس گستاخ رسول کی گردن اڑا دی گئی۔ اس پر ہندوئوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوئوں نے حقیقت رائے کی ایک مڑھی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ ''باوے دی مڑھی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس مقام پر ایک ہندو رئیس کالو رام نے حقیقت رائے کی یاد میں اس کی موت کے دن کو ایک میلے کی شکل دی اور ہر سال بہار کے موسم میں بسنت میلے کا آغاز کیا۔ پنجاب کا بسنت میلہ ‘اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔‘‘ (Punjab under the later Mughals مصنف بی ایس نجار صفحہ نمبر 279 بحوالہ غیر مسلم تہوار از: تفضیل احمد ضیغم ‘ ناشر مکتبہ اہلحدیث فیصل آباد‘ ص38) 
اس سے یہ معلوم ہوا کہ مغلوں کے زوال اور سکھوں کے پنجاب پر قبضے کے بعد ہندو اور سکھ انتہا پسندوں نے بسنت کو ایک نیا رخ دیا اور گستاخِ رسول کو ہیرو بنا کر اس کی یاد میں اس میلے کو منایا جانے لگا۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ تھا‘ مگر ۔بقول شاعر:؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
قیامِ پاکستان کے بعد جب ہندو یہاں سے چلے گئے‘ تو لاہور کے بعض منچلے اور نام نہاد لبرل مسلمانوں نے یہ ہندوانہ ریت اور رسم ناصرف جاری رکھی‘ بلکہ اسے مزید بڑھا چڑھا کر منایا جانے لگا۔ پہلے پتنگ اڑائے جاتے تھے اور وہ بھی کھلے میدانوں میں اور ایک دن کے لیے۔ اب یہ طوفانِ بدتمیزی کئی ہفتوں پر محیط ہوگیا۔ ہر چھت اور ہر گلی ‘ ہر بازار اور کوچے میں پتنگ اڑانے کی واہیات رسم جڑ پکڑ گئی۔ مکانوں کی چھتوں پر منچلے پتنگ اڑانے کے ساتھ ہر جانب گھروں کے اندر تانگ جھانک اور فقرہ بازی کی بدتمیز حرکت بھی کرتے ہیں‘ جس کی کئی شہری شکایات کرتے سنے گئے۔ لاہور میں شروع ہونے والی یہ بدتہذیبی دیکھتے ہی دیکھتے لاہور سے باہر بھی ہر مقام پر لغو انداز میں بطور تقریب منائی جانے لگی۔ پتنگ اڑانے کے ساتھ ساتھ ڈیک پر بہت بلند دھنوں میں فحش گانوں کا سوہانِ روح سلسلہ رات رات بھر جاری رہنے لگا۔ ہندو موسیقی نے ماحول کو پراگندہ کر دیا۔ رات بھر گولیاں چلنے اور مسلسل فائرنگ سے ماحول مزید متعفن ہوگیا۔ پتنگوں میں ایسی ڈور استعمال ہونے لگی ‘جو تلوار کی دھار سے بھی تیز اور کسی بھی خطرناک ہتھیار سے زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔ گولیاں لگنے سے بے شمار بے گناہ شہری بالخصوص بچے اور عورتیں موت کے منہ میں چلے گئے۔ راستہ چلتے ہوئے راہ گیر گلے میں ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہارتے رہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد پنجاب حکومت نے چند سال قبل اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس قاتل رسم پر پابندی لگا دی تھی۔
دنیا کا یہ واحد کھیل ہے کہ جو کھیل میں شریک کھلاڑیوں یا تماش بینوں ہی کی ہلاکت کا باعث نہیں بنتا‘ بلکہ غیر متعلق اور پر امن شہریوں کے قتل کا بھی باعث بنتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قسم کی تقریب کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ چند سال قبل بھارت کی ایک خاتون ہندو جج پاکستان آئی تو بسنت کا ماحول اور ہلاکتیں دیکھ کر اس نے بیان دیا کہ بلاشبہ بھارت میں بھی یہ تقریب منائی جاتی ہے‘ مگر جو کچھ میں نے لاہور میں دیکھا‘ اس کا تصور بھی وہاں نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک ہندو خاتون کی طرف سے پاکستانیوں اور بالخصوص لاہوریوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ تھا‘ مگر افسوس کہ غیر اسلامی فکر اور ہندوانہ کلچر نے ان لوگوں کی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بہت سے حکمران سرکاری سطح پر اس بے ہودہ رسم کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ ان میں خاص طور پر فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کا نام سرفہرست تھا۔ 
اب پنجاب حکومت کے نئے فیصلے پر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سر میں پرویز مشرف اور سلمان تاثیر کی روح اور سوچ سما گئی ہے۔ یہ حکمران کہتے ہیں کہ یہ ایک صحت مند تفریح ہے۔ آسمان پر اڑتی پتنگیں‘ رات کو قمقموں کی روشنیاں اور ہر طرف خوشی کا سماں اچھا لگتا ہے۔ ان میں سے کئی ایک یہ بھی کہتے ہوئے سنے گئے '' جی چاہتا ہے کہ خود پتنگ اڑا کر بسنت منائیں‘‘۔؎
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملّا
کارِ طفلاں تمام خواہد شد
تاریخ میں مذکور ہے کہ گورنر پنجاب زکریا خاں سے جب گستاخِ رسول کے لیے نرمی اور عفو و درگزر کا معاملہ کرنے کی سفارشیں کی جانے لگیں‘ تو ایک روز اس کے دربار میں ہندو اور سکھ مقررین کا ایک جرگہ ہاتھ جوڑے رحم کی درخواست کر رہا تھا۔ ایک ہندو رئیس نے کہا کہ جناب گورنر صاحب آپ تو اپنی نرم دلی کے لیے مشہور ہیں۔ اس نوجوان کو جو ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے‘ معاف فرمادیں۔ زکریا خاں نے اس کے جواب میں کہا: ''ٹھاکر جی! میں نرم دل ضرور ہوں‘ مگر نمک حرام نہیں ہوں؛ اگر آج میں نے اس مسئلے پر نرمی دکھائی تو کل قیامت کے روز‘ جب میں نرمی و عفو کا محتاج ہوں گا‘ مجھ سے نرمی نہیں برتی جائے گی!!‘‘آج ہمارے حکمرانوں کی سوچ اور لا ابالی پن‘ نیز گستاخی رسول کو نظر انداز کرکے ان خیالات کا اظہار ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک گستاخِ رسول کی یاد میں منائی جانے والی رسم کا حصہ بنے۔ کیا ہمارے حکمران بطورِ امتیٔ رسول اور مدینہ کی اسلامی ریاست قائم کرنے کے داعی ہونے کے ناتے اس موضوع پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں