عظمت مصطفٰےؐ اور ذلتِ اعدا!

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب عالی کو ساری کائنات کا سردار بنایا ہے۔ اللہ کے محبوب نبیؐ‘ اللہ کی راہ میں مکہ اور مدینہ دونوں ادوار میں جدوجہد کرتے رہے۔ مکہ میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی‘ مگر دعوت کے کام میں کسی تساہل کی بھی گنجایش نہیں تھی۔ مدینہ میں جہاد دعوت کے ساتھ میدانِ کارزار میں بھی شروع ہوگیا۔ مکہ کی وادیوں میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے آپ کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ مگر ان کا مقدر ذلت کے سوا کچھ نہ تھا۔ حبیب کبریا‘ محمدمصطفٰےؐ کو اللہ تعالیٰ نے عظمت اور شانِ بلند سے نوازا۔ کئی معجزات دیکھنے کے بعد کفار بے بس ہوگئے تو اپنا جھوٹا پراپیگنڈہ پھر بھی نہ چھوڑا۔ کبھی کہتے کہ محمدؐبن عبداللہ پر‘ جن حاوی ہوگئے ہیں‘ جو اس کی زبان سے یہ کلام ادا کراتے ہیں۔ کبھی کسی انسان کی طرف یہ کلام منسوب کردیتے اور بڑی بے شرمی کے ساتھ بعض غیرعرب شخصیتوں کا نام لیتے کہ وہ محمدؐ کو یہ پٹی پڑھاتے ہیں۔ 
قرآن نے ان کے اس لغو الزام کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ سورۂ النحل میں ارشاد ربانی ہے: ''ان سے کہو کہ اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے‘ تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے۔۔۔۔۔اور انہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے۔ ہمیں معلوم ہے ‘یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں کہ اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتاہے؛ حالانکہ ان کا اشارہ‘ جس آدمی کی طرف ہے‘ اس کی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔‘‘ (النحل۱۶:۱۰۲-۱۰۳)
جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اس لیے وہ پینترے بدلتا رہتا ہے۔ یہ غیرعرب کون تھا‘ جو مشرکین کے خیال میں آنحضوؐرکو قرآن سکھاتا تھا‘ اس کے بارے میں بھی وہ مختلف اوقات میں مختلف اشخاص کے نام لیتے تھے۔ ابن کثیر‘ ابن ہشام اور ابن سعد سبھی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور سب نے ان ناموں کا تذکرہ کیا ہے۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:
روایات میں مختلف اشخاص کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ کفارِ مکہ ان میں سے کسی پر یہ گمان کرتے تھے۔ ایک روایت میں اس کا نام جبرؔ بیان کیا گیا ہے ‘جو عامر بن الحضرمی کا ایک رومی غلام تھا۔ دوسری روایت میں حویطب بن عبدالعزیٰ کے ایک غلام کا نام لیا گیا ہے‘ جسے عائش یا یعیش کہتے تھے۔ ایک اور روایت میں یسار کا نام لیا گیا ہے‘ جس کی کنیت ابوفکیہہ تھی اور جو مکہ کی ایک عورت کا یہودی غلام تھا۔ ایک اور روایت بَلعان یا بَلعام نامی ایک رومی غلام سے متعلق ہے۔ بہرحال ان میں سے جو بھی ہو‘ کفار مکہ نے محض یہ دیکھ کر کہ ایک شخص توراۃ وانجیل پڑھا ہے اور محمدؐ کی اس سے ملاقات ہے‘ بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اس قرآن کو دراصل وہ تصنیف کررہا ہے اور محمدؐ اسے اپنی طرف سے خدا کا نام لے لے کر پیش کررہے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضورؐکے مخالفین آپ کے خلاف افتراپردازیاں کرنے میں کس قدر بے باک تھے‘ بلکہ یہ سبق بھی ملتا ہے کہ لوگ اپنے ہم عصروں کی قدروقیمت پہچاننے میں کتنے بے انصاف ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے سامنے تاریخ انسانی کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھی‘ جس کی نظیر نہ اس وقت دنیا بھر میں کہیں موجود تھی اور نہ آج تک پائی گئی ہے‘ مگر ان عقل کے اندھوں کو اس کے مقابلے میں ایک عجمی غلام‘ جو کچھ توراۃ وانجیل پڑھ لیتا تھا‘ قابل نظر آرہا تھا اور وہ گمان کررہے تھے کہ یہ گوہر نایاب اس کوئلے سے چمک حاصل کررہا ہے۔(تفہیم القرآن‘ ج۲ ص۵۷۳-۵۷۴)
اخنس بن شریق مکہ میں مقیم تھا‘ مگر نسلاً بنوثقیف میں سے تھا اور بنوزہرہ کا حلیف تھا۔ مکہ کے بااثر لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ عمرو بن ہشام (ابوجہل) اور ابوسفیان کی دوستی تھی۔ یہ تینوں اسلام کے خلاف تھے‘ لیکن عجیب بات ہے کہ رات کے وقت جب آنحضوؐراپنے گھر میں تہجد کے لیے اٹھتے اور قدرے بلند آواز میں قرآن کی تلاوت فرماتے تو یہ تینوں آنحضوؐرکی تلاوت باہر بیٹھ کر سنتے۔ مورخ ابن ہشام کے بقول تینوں الگ الگ مقامات پر بیٹھ کر تلاوت سنا کرتے تھے اور کسی ایک کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی تلاوت سن رہا ہے۔ طلوع فجر کے قریب یہ اٹھ کے چلے جاتے... پس ایک دن راستے میں ایک دوسرے سے ملے اور ہر ایک نے دوسرے کو ملامت کی اور کہا یہ کام بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہمارے بے وقوف لوگوں کو اس کا علم ہوگیا تو وہ دیوانہ وار اسلام قبول کرلیں گے۔ (سیرۃ ابن ہشام‘ ص۳۱۵)
یہ عہدوپیمان کرنے کے باوجود اگلی رات پھر ہر ایک قرآن سننے کے لیے نکلا۔ تین راتیں اسی طرح سے گزریں۔ تیسرے دن آپس میں انہوں نے کہا: اب ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے‘ جب تک یہ معاہدہ نہ کرلیں کہ آیندہ یہ حرکت نہیں کریں گے؛چنانچہ انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا کہ آج کے بعد ہم میں سے کوئی بھی قرآن سننے کے لیے نہیں آئے گا۔ (ایضاً‘ ص۳۱۵)
یہ سب کچھ ہوگیا تو اگلے دن اخنس بن شریق نے اپنا عصا پکڑا‘ ابوسفیان کے پاس آیا اور اس سے کہا: اے ابوحنظلہ! مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ کہ محمدؐ سے جو کچھ تم نے سنا اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا: ابوثعلبہ! مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کلام میں کیا کہا گیا ہے۔ یہ سن کر اخنس بن شریق نے کہا: خدا لگتی کہویہ تو بے مثل کلام ہے۔ اس کے بعد یہ دونوں ابوجہل کے گھر گئے۔ اخنس نے اس سے بھی وہی سوال کیا جو ابوسفیان سے کیا تھا۔ اصل سوال کا جواب دینے کی بجائے ابوجہل نے غصے میں آکر کہا: ہم نے بنی عبدمناف کا ہر میدان میں مقابلہ کیا ہے؛ اگر انہوں نے بہادری کے کارنامے انجام دئیے ہیں‘ تو ہم اس میدان میں ان سے آگے نکل گئے ہیں۔ حاجیوں کی خدمت اور مہمانوں کی ضیافت؛ اگر انہوں نے کی‘ تو ہم نے ان سے بڑھ کر کی۔ اب وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے درمیان ایک نبی آگیا ہے۔ ہم ہرگز اس بات کو قبول نہیں کریں گے۔ اگر ہم اسے نبی مان لیں تو پھر ہماری سرداری کہاں رہے گی۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ص۴۹۴-۴۹۵)
حضرت مغیرہ بن شعبہ جو طائف کے رہنے والے ثقفی تھے‘ مکہ آئے اور ابوجہل کے ساتھ ملاقات کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابوجہل کے ساتھ ایک راستے پر جارہا تھا کہ سامنے سے ایک نوجوان آتا ہوا مجھے نظر آیا۔ قریب آکر اس نے کہا : اے ابوالحکم! اللہ اور اس کے رسول کی طرف آجاؤمیں تمہیں اللہ ہی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ یہ سن کر ابوجہل غصے سے تلملا اٹھا اور اس نے کہا: اے محمد! تم وہی تو ہو جو ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتے ہو‘ تم مجھ سے توقع رکھتے ہو کہ میں تمہاری تصدیق کروں۔ سن لو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے پہلی مرتبہ آنحضوؐرکو اسی موقع پر دیکھا تھا۔ وہ پہلی نظر اتنی متاثر کن تھی کہ یہ ثقفی سردار زندگی بھر اسے فراموش نہ کرسکا۔ (ایضاً‘ ص۴۹۵)
ایک اور واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ مکہ میں کسی مقام پر ابوجہل اور ابوسفیان بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضوؐرکا ادھر سے گزر ہوا۔ آپ کو دیکھ کر ابوجہل نے ازراہِ تمسخر ابوسفیان سے کہا: اے بنوعبدشمس! کیا یہ نوجوان‘ تم میں سے نبی مبعوث ہوا ہے؟ چونکہ ابوسفیان کا نسب آنحضوؐرسے عبدمناف پر مل جاتا تھا۔ اس لیے ابوجہل نے اس سے یہ بات کی۔ ابوسفیان بھی ابوجہل کی طرح اس وقت تک منکر حق تھا‘ لیکن اس موقع پر اس کی رگِ حمیت جاگ اٹھی اور اس نے کہا: تمہیں ہمارے درمیان نبی کے مبعوث ہونے پر کیوں تعجب ہے؟ کیا تمہارے خیال میں نبی ان لوگوں کے درمیان آنا چاہیے تھا‘ جو ہم سے کم تر درجے اور مقام کے حامل ہیں؟ ابوجہل نے کہا: واہ ابوسفیان! سب بزرگوں کو چھوڑ کر ایک لڑکے کو اس مقام پر فائز کیا گیا ہے؟ آنحضوؐرنے ان کی باتیں سنیں اور فرمایا: اے ابوسفیان! تم نے یہ بات اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی وجہ سے نہیں کہی ‘بلکہ اپنی غیرت وحمیتِ جاہلیہ کی وجہ سے کہی ہے‘ پھر ابوجہل سے کہا: اے ابوالحکم! خدا کی قسم عن قریب وہ وقت آئے گا کہ تو بہت کم ہنسے گا اور بہت زیادہ روئے گا۔ (ایضاً‘ ص۴۹۵)۔
سورۃ الفرقان کی آیت ۴۱‘ ۴۲ میں ابوجہل اور اس کے دیگر ساتھیوں ہی کی طرف اشارہ کیا گیاہے: ''یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنالیتے ہیں۔ (کہتے ہیں) کیا یہ شخص ہے‘ جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اس نے تو ہمیں گمراہ کرکے ہمارے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا؛ اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے۔ اچھا‘ وہ وقت دور نہیں ہے‘ جب عذاب دیکھ کر انہیں خود معلوم ہوجائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا ہے۔‘‘(الفرقان۲۵:۴۱-۴۲)
اسی کشمکش میں اسلام کے قدم مسلسل آگے بڑھ رہے تھے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ ظلم وستم کی چکی بھی چل رہی تھی۔ جادۂ حق پر قدم رکھنے والوں کی استقامت نے سب کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ حق مغلوب ہونے کے لیے نہیں ‘بلکہ غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ الاسلام یعلو ولا یعلٰی کامنظر پوری دنیا نے دیکھا‘ مگر آغازِ وحی کے زمانے میں حالات اتنے کٹھن تھے کہ اللہ کے بندے بھی پکار اٹھے: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ‘ یعنی اللہ کی مدد کب آئے گی اور اللہ تعالیٰ کا جواب آیا: أَلَآ إِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ‘ یعنی ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں