برصغیر میں تجدید واحیائے دین کی تحریک

ائمہ اربعہ نے تجدید واحیائے دین کے جو کارنامے انجام دئیے‘ وہ اپنے اثرات کے لحاظ سے بعد کے زمانوں میں‘ بلکہ آج کے دن تک امت کے لیے ایک بہترین نمونۂ عزیمت ہیں۔ ائمہ کے ساتھ تجدید واحیائے دین کا کام ختم نہیں ہوا‘ بلکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ؛یہ ہر دور میں جاری رہا۔ نہ تو کسی ظالم کے ظلم وتشدد سے داعیانِ حق نے مرعوب ہو کر اس کٹھن راستے کو چھوڑا‘ نہ ہی ان کی ترغیب اور لالچ کے جال میں پھنس کر اپنے فرض سے غافل ہوئے۔ یوں تو بے شمار شخصیات امت کے اندر مختلف مسلمان ممالک میں اس میدان میں سرگرمِ عمل رہی ہیں۔ ان ادوار میں بھی اس امت کے عظیم داعیانِ حق‘ حضرت امام ابن تیمیہؒ‘ حضرت امام غزالیؒ اور حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ‘ وقت کے طاغوتوں کو للکارتے رہے۔ 
برصغیر میں اسلام کی روشنی پہلی صدی ہجری ہی میں پہنچ گئی تھی۔ بعد کے ادوار میں ایک جانب صوفیا وعلما نے دعوت وتبلیغ کے ذریعے اشاعت اسلام کا فریضہ ادا کیا تو دوسری جانب فاتحین وملوک نے وسیع وعریض علاقوں کو فتح کرکے امت مسلمہ کی حکومت قائم کی۔ سید مودودیؒ کے قریبی ساتھی مولانا مسعود عالم ندویؒ برصغیر پاک وہند کے بارے میں فرماتے ہیں: ''دسویں صدی ہجری تک اس برصغیر کی عام حالت عجیب تھی۔ گو اللہ کی زمین نیک بندوں سے بالکل خالی بھی نہیں رہی۔ صلحائے امت انفرادی طور پر تبلیغ ودعوت کا کام کرتے رہے۔ بادشاہوں میں محمد تغلق (۷۲۵-۷۵۲ھ)‘ فیروزتغلق (۷۵۲-۷۹۰ھ) اور سکندر لودھی (۸۹۴- ۹۲۳ھ) کے نام ملتے ہیں‘ جنہوں نے اپنی صوابدید اور ہمت کے مطابق‘ صورت حال کے بدلنے کی کوشش کی‘ لیکن دشواری یہ تھی کہ صحیح الفکر اہلِ علم کے فقدان‘ دین سے عام بے خبری اور خاص طور پر اسلام کے ملکی اور جنگی قانون سے پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ بسا اوقات ایسے کام بھی کر جاتے تھے‘ جن کی قانونِ شریعت کے اندر مشکل ہی سے گنجائش نکل سکتی ہے۔ بہرحال اس کے باوجود ہندستان کی تاریخ میں ان نیک دل اور خدا ترس بادشاہوں کا ایک خاص مقام ہے‘ جسے اسلامی تحریک کا مورخ کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا۔‘‘ (روداد جماعت اسلامی‘ ششم‘ ص۱۷۹)
اکبرکے دین ِالٰہی کی گمراہیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ندوی صاحب نے مزید فرمایا: ''اکبر اور اس کے درباری سالہاسال تک جس فتنہ خبیثہ کی پرورش کرتے رہے اور ان کی پھیلائی ہوئی اخلاقی بیماریاں جس طرح سوسائٹی کے رگ وپے میں سرایت کرتی رہیں‘ ان کے دفعیہ اور بیخ کنی کے لیے ایک صاحبِ فہم اور اولوالعزم فرماں روا کی ضرورت باقی تھی‘ جو الحمدللہ کہ بوریانشین اور گلیم پوش سلطان‘ عالم گیر اورنگ زیب کی تخت نشینی سے پوری ہوگئی۔ اس کی تخت نشینی کیا تھی؟ ایک مسلسل جہاد کا عزم‘ ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کا آغاز! داراشکوہ اور اورنگ زیب کی جنگ صرف دو بھائیوں کی لڑائی نہ تھی۔ حقیقت میں یہ دو مختلف مکاتب فکر کی جنگ تھی۔ ایک اپنے پردادا کی سنت [خبیثہ] زندہ کرنا چاہتا تھا اور دوسرا پیغمبر اور ہادیؐ کی سنت[مطہرہ]۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلامی ہند کی کوئی تاریخ اس بوریا نشین بادشاہ کے کارناموں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ تغلق خاندان کے بعض فرماں رواؤں کو چھوڑ کر یہ پہلا اور آخری بادشاہ تھا‘ جس نے بتوں کی اس سرزمین میں دینِ حق کی بنیادیں مضبوط کیں۔ ‘‘ (روداد جماعت اسلامی‘ ششم‘ ص۶۸۱-۷۸۱)
امام مجدد الف ثانی‘ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں ناقابل بیان اذیتوں سے دوچار کیا گیا‘ مگر انہوں نے کلمۂ حق سے رو گردانی کرنے سے انکار کردیا۔ گمراہ اور اسلام سے برگشتہ مغل شہنشاہ اکبر نے دین الٰہی کے نام سے ایک نیا مذہب گھڑا۔ اس فتنے کا مقابلہ حضرت امام نے کیا۔ جہانگیر کے دور تک وہ آزمائش کی چکی میں پستے رہے۔ شاہ جہاں کی حکومت آئی تو یہ دورِ ابتلا ختم ہوا اور پھر اورنگ زیب تخت نشین ہوا تو حضرت امام مغل ریاست کے ہیرو کے طور پر معروف ہوگئے۔ اورنگ زیب اپنے پردادا اکبر کے حوالے سے کہا کرتا تھا: ''جد من اکبر نہ بود اکفر بود۔‘‘ یہ انقلاب حضرت شیخ کی زندگی ہی میں چشم فلک نے دیکھا۔ علامہ اقبالؔ نے ان کی مدح میں کیا خوب کہا ہے:
حاضر ہوا میں شیخِ مجدّد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
حضرت شاہ ولی اللہؒ بھی سلسلہ مجددین کا ایک انمول ہیرا ہیں۔ آپ نے ‘اگرچہ سخت ابتلا اور براہِ راست تصادم کا دور تو نہ دیکھا‘ مگر وہ بھی شاہی درباوں کی مراعات سے ہمیشہ دور رہے۔ برصغیر میں اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے کلمۂ حق پورے زور اور متانت کے ساتھ بلند کرتے رہے۔ بہت سی دیگر کتب کے علاوہ ''حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اور ''الفوز الکبیر‘‘ آپ کا عظیم علمی کارنامہ ہے۔ ان کا اور ان کے صاحبزادگان کا علمی ورثہ اس امت کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ شاہ ولی اللہ کی فکر عربی‘ فارسی‘ اُردو اور دیگر زبانوں میں تشنگانِ علم کے لیے بحرِزخّارہے۔
حضرت سیداحمدشہیدؒ اور شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنے عملی جہاد کا آغاز کرنے سے قبل اپنے آپ کو اور جملہ ساتھیوں کو جفاکشی کا عادی بنایا۔ زندگی کی سختیاں تربیتی نظام میں شامل کرکے آنے والے کٹھن مراحل کے لیے تمام وابستگانِ تحریک کو حق کے ایسے سپاہی بنا دیا‘ جوہرمشکل میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔ آسائش وراحت ممنوع ہرگز نہیں‘ مگر جہاں آسائشیں راہِ حق کی رکاوٹیں بننے لگیں‘ وہاں ان کا استعمال مناسب نہیں ہوتا۔ سیدبادشاہ اور ان کا پورا قافلہ سلف صالحین کی زندہ مثال تھا۔ دنیا کو ان لوگوں نے آخرت کے بدلے میں فروخت کردیا تھا۔ وہ اپنے اس سودے پر راضی اور خوش تھے۔ ابھرتی ہوئی باطل قوتوں کے خلاف ان عظیم مجددینِ ملت نے ایک ایسے وقت میں جہاد بالسیف کیا جب ہماری ملت بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں ادبار وانحطاط کا شکار ہوچکی تھی۔ اس تحریک کے تمام وابستگان نے یادگار کارنامے انجام دئیے۔ باطل سے مردانہ وار ٹکرائے اور کہیں مداہنت یا کمزوری نہیں دکھائی۔ اپنوں کی بے وفائی نے ان کو چرکے لگائے۔ 
علامہ اقبال ؔدردِ دل رکھنے والے ایک عظیم شاعر اور مصلح تھے۔ انہیں مروجہ اصطلاح اور معانی میں مجدد کہنا تو شاید مشکل ہے‘ مگر داعیان حق کے لیے جو بنیادی اوصاف ضروری ہیں‘ ان کی ترجمانی ان کے کلام میں نہایت موثر اور بلیغ انداز میں کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؔ کا ''شاہین‘‘ درحقیقت داعی حق ہی ہے۔ میں نے ہمیشہ داعی حق کو اقبالؔ کے شاہین کی زندہ مثال سمجھا ہے اور ہر داعی حق کے بارے میں یہی تصور قائم کیا ہے کہ وہ غیور وجسور‘ خود دار وخودبین‘ خدا خوف وخود آگاہ اور سیر چشم ودرویش منش مخلوق ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اقبال کا شاہین ہے۔
داعی حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ آزمائشوں کی کبھی تمنا نہ کرے۔ آزمائشوں سے خود حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پناہ مانگی تھی۔ ہر داعی کو بھی ان سے پناہ مانگنی چاہیے‘ البتہ یہ چیز ہمیشہ ذہن میں مستحضر رہنی ضروری ہے کہ دعوتِ حق اور آزمائش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن مجید نے اس بارے میں تفصیلاًروشنی ڈالی ہے۔ ملاحظہ فرمائے قرآن مجید کی درج ذیل آیات:
٭''ا ل م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں ‘جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت۲۹:۱-۳)
٭''اور ہم ضرور تمھیں خوف وخطر‘ فاقہ کشی‘ جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمایش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘ انہیں خوش خبری دے دو‘ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔‘‘ (البقرۃ۲:۱۵۵-۱۵۷)
٭''ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے‘ تاکہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں۔‘‘(محمد۴۷:۳۱)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزمائشوں سے پناہ کے ساتھ ان کی آمد پر ان کے مقابلے میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے صبر اور استقامت کی توفیق طلب کی او رصحابہ کرامؓکو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ حضرت عمار بن یاسرؓ کے پورے گھرانے کو شدید ایذائیں پہنچائی گئیں۔ ان کی والدہ سیدہ سمیّہ بنت خباطؓ تو مکہ میں ظلم کے ساتھ شہید کردی گئیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو آزمائش کی چکی میں پستے ہوئے دیکھتے تو فرماتے:''اے آلِ یاسر! صبر کرو بے شک تمھارا مقدر جنت ہے۔‘‘ (جاری )

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں