استقامت مومن کا بہت بڑا ہتھیار ہے‘ مگر اس کے حصول کیلئے بڑی محنت کی ضرورت ہے۔ استقامت کو متزلزل کرنے کیلئے داعیانِ حق کو ترغیب وترہیب دونوں حربوں سے شکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ جس داعی حق کو اپنی خواہشات کی غلامی اور مرغوباتِ نفس سے نجات نہ مل سکے‘ وہ کبھی استقامت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ شدائد اور مصائب کے مقابلے پر جو داعی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے‘ بسااوقات وہی داعی ترغیب وتحریص کے دام میں باآسانی گرفتار ہوجاتا ہے۔ داعی حق کو کسی چیز کا غلام اور عادی نہیں ہونا چاہیے۔ مبادا یہی چیز اور عادت اس کے پاؤں کی زنجیر بن جائے۔ بقول اقبالؒ:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
امام حسن البنا شہیدؒ کے بارے میں بچپن میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ جب کبھی کسی کے ہاں جائیں تو چائے‘ کافی‘ مشروب جو کچھ بھی پیش کیا جائے اسے قبول کریں‘ مگر چائے اور کافی کو اپنی عادت نہ بنائیں۔ یہ عادت غلامی کے مترادف ہوتی ہے اور کسی وقت بھی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ امام شہید کی یہ نصیحت مجھے کچھ عجیب سی لگی۔ میں نے سوچا کہ چائے اور کافی کی عادت کون سا نشہ ہے‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ میرا خیال غلط تھا۔ میں نے بارہ سال کا عرصہ کینیا میں گزارا ہے۔ کینیا میں دنیا کی بہترین چائے اور کافی پیدا ہوتی ہے۔
چائے تو ہماری نسل سے پاکستان میں مروج ہوچکی تھی‘ مگر کافی کے باقاعدہ استعمال کا موقع کینیا میں میسر آیا۔ ہمارے دفتر میں چار بجے بعد دوپہر کافی پی جاتی تھی۔ مجھے کافی بہت اچھی لگی۔ سات آٹھ ماہ کافی پیتے گزر گئے تو ایک روز سفر کے دوران مجھے اچانک بے چینی اور بے کلی سی محسوس ہوئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اچانک طبیعت کیوں خراب ہورہی ہے۔ کافی سوچ بچار کے بعد معاً خیال آیا کہ کافی کا وقت ہوگیا ہے۔ اسی لمحے میرے ذہن میں امام حسن البناؒ کی نصیحت تازہ ہوگئی اور اس کی حکمت کھل کر سامنے آگئی۔ اگلے روز معاون دفتر نے وقت مقررہ پر کافی کا کپ میری میز پر لا کر رکھا تو میں نے اسے کہا کہ بھائی آج سے کافی بند۔ اس کے بعد آج تک کبھی کبھار کافی پی تو لیتا ہوں کہ یہ حرام نہیں‘ مگر اس کی مستقل عادت اور شوق ترک کردیا ہے۔
نشہ حرام ہے اور شریعت نے اسے حرام قرار دینے میں بہت سی حکمتیں اور انسانی مصالح ملحوظ رکھے ہیں۔ انسان کو بنیادی ضروریات کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے‘ مگر تعیشات سے پرہیز عام انسانوں کے لیے مفید اور داعیانِ حق کے لیے از حد ضروری ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں فقروفاقہ سے زیادہ خوش حالی وفارغ البالی کو خوف ناک قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: فواللہ ما الفقر اخشی علیکم۔۔۔۔۔(بخاری‘ مسلم‘ ترمذی)
خدا کی قسم! میں تمہارے بارے میں فقروفاقہ سے نہیں ڈرتا‘ مگر اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا کی دولت اور آسائشیں تم پر کشادہ کردی جائیں گی‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر کی گئیں‘ پھر تم اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے کی۔ اس کے نتیجے میں یہ دنیا تمہیں بھی ہلاک کردے گی‘ جس طرح تم سے پہلوں کو کرچکی ہے۔
جب انسان اپنے معیار زندگی کو بلند کرنے کی فکر میں لگ جائے تو آہستہ آہستہ اس کے دل میں ہوس اپنا گھر بنا لیتی ہے۔ آخر کار معیار زندگی کا بت دل ودماغ پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اس بت کی پرستش میں بعض اوقات بظاہر بڑے بڑے موحدین بھی مشغول نظر آتے ہیں اور بدقسمتی سے پوری زندگیاں اسی کی نذر کردیتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے توحید کی صفت میں کہاں رخنہ پیدا ہوتا ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر فرمادیا ہے: ''کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا اِلٰہ بنا لیا ہو؟ تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟‘‘ (الفرقان۲۵:۴۳)۔
معیارِ زندگی کا یہ بت کتنا خطرناک ہے‘ اس کے بارے میں مصری عالم دین‘ الشیخ ڈاکٹر عبدالحلیم محمود مرحوم (۱۹۱۰ء -۱۹۷۸ئ) نے نہایت موثر انداز میں وضاحت کی ہے۔ شیخ موصوف اخوان المسلمون کے ابتدائی ارکان میں سے تھے۔ انہوںنے ایک طویل عرصہ اخوان کی تحریک میں جدوجہد‘ ایثار اور قربانی میں گزارا۔ اخوان المسلمون کے متعلق لکھی جانے والی کتب کے درمیان ان کی کتاب اخوان المسلمون نہایت معتبر اور مستند ہے ‘جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ شیخ موصوف بوجوہ اخوان کو چھوڑ کر الگ ہوگئے۔ اخوان سے الگ ہو کر بھی دین داری کا جذبہ ان کے اندر موجود تھا۔ وہ دین کی خدمت کرنے کے لیے جامعہ ازہر تشریف لے گئے۔ مصری حکومت نے انہیں شیخ ازہر (وائس چانسلر) مقرر کردیا۔ ملوکیت سے لے کر فوجی آمریت تک مصر میں یکے بعد دیگرے مستبدحکمران برسراقتدار آتے رہے۔ جامعہ ازہر ان حکمرانوں کی آلہ کار بنی رہی۔ شیخ ازہر جو مصر ہی نہیں‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک اسلام کا علم بردار اور ترجمان سمجھا جاتا ہے‘ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوتا ہے۔
جامعہ ازہر کی تاریخ بڑی طویل او رتابناک ہے۔ یہ جامعہ فاطمی دورِ حکومت میں ۹۷۰ء بمطابق ۳۵۹ھ قائم ہوئی۔ ماضی بعید میں بڑے جرأت مند اور صاحبِ عزیمت علما نے جامعہ ازہر کی سربراہی اور اس جامعہ میں تدریس کے فرائض انجام دئیے۔ ان میں سے خاص طور پر شیخ عزالدین عبدالسلام (۱۱۸۱-۱۲۶۲) کا اسم گرامی معروف ہے۔ وہ جامعہ ازہر کے علاوہ دمشق ‘ موصل اور قاہرہ وغیرہ میں بہت سی جامعات میں مدرس رہے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے فقیہ اور محدث تھے۔ وہ ایسے شیخ الحدیث تھے‘ جو شاہانِ وقت کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ بادشاہ کبھی جامعہ میں آتا تو شیخ اس کے استقبال کے لیے دروازے پر انتظار کرنے کی بجائے اپنے کمرہ تدریس میں دیوار سے ٹیک لگائے چٹائی پر پاؤں دراز کیے طلبا کو پڑھانے میں مشغول رہتے۔ ان کا یہ قول بڑا مشہور ہے: ''جو بادشاہ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا ‘وہ اس کے سامنے پاؤں پھیلا سکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالحلیم محمود کا بھی اپنے دور کے دیگر شیوخ کے مقابلے میں جرأت مندانہ موقف قابل قدر ہے‘ تاہم ان سے شیخ عزالدین کا حوالہ دے کر کسی نے پوچھا کہ اسلامی جامعات کے تابناک ماضی کی جھلک ان کے حال میں کیوں نظر نہیں آتی تو انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں اس کا جواب یوں دیا: ''شیخ عزالدین کچے کوٹھے میں رہتے تھے۔ گھر سے اپنے گدھے پر سوار ہو کر جامعہ میں تشریف لاتے تھے اور اسے پارک میں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیتے تھے۔ فرائض سے فارغ ہونے کے بعد اسی پر سوار ہو کر واپس چلے جاتے تھے۔ ان سے کوئی کیا چھین سکتا تھا؟ اب صورت حال یہ ہے کہ شیخ ازہر کا مرتبہ مرکزی وزیر کے برابر ہے۔ مرسڈیز گاڑیاں‘ خدم وحشم‘ پرتعیش محلات اور بے پناہ مراعات اسے حاصل ہیں۔ یہ سب کچھ حکومت نے بلاوجہ نہیں دیا۔ یہ بلند معیار زندگی شیخ ازہر کو مصلحت کیش اور بزدل بنا دیتا ہے۔‘‘ بقول حکیم الامت:
ہر شے ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دانۂ عْصفْور ہو گیا
میں جب کینیا میں تھا تو سعودی عرب کے ایک سرکاری ادارے کے ذمہ دار سے رابطہ ہوا۔ ادارے کے تحت بہت سے مبعوثین براعظم افریقا کے کئی ممالک میں دعوت وارشاد اور تبلیغ وتعلیم کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان میں سے بعض کی خدمات اسلامک فاؤنڈیشن کو بھی پیش کی گئیں۔ یہ حضرات ہمارے مختلف تعلیمی اداروں میں تدریس کا کام بحسن وبخوبی کرتے رہے۔ سعودی شیخ بہت متحرک اور جفاکش انسان تھے۔ ان کا تعلق نجد سے تھا۔ اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے مجھے وہ بہت بھلے لگتے تھے۔ وہ بھی میرے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ہم اسلامک فاؤنڈیشن میں اپنے محدود وسائل کے مطابق‘ اپنا تحریکی کام اپنی رفتار سے چلارہے تھے۔ شیخ صاحب نے مجھ سے اپنی تنظیم میں شامل ہونے اور بدستور اسلامک فاؤنڈیشن کی خدمت جاری رکھنے کی بات چیت کی۔ میں نے معذرت کی‘ مگر وہ مسلسل مختلف مواقع پر اصرار کرتے رہے۔
میرے بعض دوستوں کی رائے میں شیخ کی یہ پیش کش بہت مفید تھی‘ مگر مجھے شیخ عبدالحلیم محمود کی بات یاد تھی۔ یہ واقعہ بہت معمولی سا ہے اور اس کے بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی‘ مگر بعد میں ایک موقع پر صورت حال ایسی پیدا ہوگئی کہ مجھے انہی شیخ محترم سے بعض امور پر شدید اختلاف کا اظہار کرنا پڑا۔ وہ بہت جزبز ہوئے‘ مگر میں اپنے درست موقف پر ڈٹا رہا۔ وہ وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود میری رائے پر کسی طرح اثرانداز نہ ہوسکے۔ فَلِلّٰہِ الحَمد۔ اللہ تعالیٰ مرحوم شیخ ازہر کو جزائے خیر دے کہ وہ اپنی کمزوری اور تاریخی حقائق بیان کرکے دوسروں کے لیے ایک اچھی اور مفید بات ارشاد فرما گئے۔