کتابت ِ وحی کا عظیم کارنامہ!

حضور ختمی مرتبتﷺ پر چالیس سال کی عمر میں غارِ حرا میں پہلی وحی اتری ‘جس میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات ‘آپ کو عطا کی گئیں۔ پھر تیرہ سال مکہ میں اور دس سال کے قریب مدینہ میں یہ مبارک سلسلہ جاری رہا۔ پورا قرآن پاک ‘جو ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل ہے ‘32سال چار ماہ اور چند ایام میں نازل ہوا۔ نزول قرآن کا زمانہ لکھنے پڑھنے کا دور نہیں تھا اور عرب امّی کہلاتے تھے۔ خود آنحضورﷺکو قرآن میں امّی کہا گیا ہے۔ یہ ایک معجزہ ہی ہے کہ اس دور میں بھی قرآن مجید کے نزول کے ساتھ ساتھ اس کی کتابت کا عمل جاری رہا اور کوئی ایک آیت بھی ایسی نہ تھی ‘جو تحریر ہونے سے رہ گئی ہو۔ صحابہ کرام میں سے 23 صحابہ کو کاتبین ِوحی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان سعادت مند کاتبین کے نام کتب ِ حدیث وسیرت میں محفوظ ہیں۔ 
حضرت ابوبکرصدیقؓ:امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیقؓ پہلے خلیفہ راشد ہیں‘ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے والد اور آنحضورﷺ کے سسر ہیں۔ افضل البشر بعدالانبیاء کے مقام پر فائز ہیں۔ نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں بہت سے مناقب وفضائل صحابہ کرامؓ اور اس امت کو بتائے۔ آپ کا ارشاد ہے: ارحم امتی بأمتی ابوبکر‘ یعنی ابوبکر‘میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔ ہجرت مدینہ کے سفر کے دوران آنحضورﷺ نے غار سے نکل کر جب سفر شروع کیا تو سراقہؓ بن مالک نے آپ کا تعاقب کیا۔ پھر اس کے بعد اس کے گھوڑے کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا‘ وہ تاریخ میں مذکور ہے۔ اس پر سراقہؓ نے نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کیا کہ آپ‘ اسے پروانہ امان لکھ دیں تو نبی کریمﷺ کی طرف سے آپؓ ہی نے وہ امان کی تحریر لکھ کر دی تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ امام ابن کثیر‘ المجلد الاول‘ مطبوعہ دارِ ابن حزم‘ بیروت‘ الطبعۃ الاولیٰ‘ ص۱۱۱۷)
حضرت عمربن الخطابؓ:دوسرے خلیفہ راشد ہیں‘ ام المومنین حضرت حفصہؓ کے والد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا کہ عمرؓ احکامِ دین کے بارے میں سب سے زیادہ سخت ہیں۔ آپؓ کا یہ اعزاز ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: لَوْکَانَ بَعْدِیْ نَبِیًّا لَکَانَ عُمَرَ۔ یعنی [میں خاتم النبیین ہوں] اگر میرے بعد کوئی نبی آنا ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا۔ آپ بھی نبی کریم ﷺ کی طرف سے مختلف مواقع پر مکتوبات اور معاہدے تحریر فرماتے تھے۔(البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۸)
حضرت عثمان بن عفانؓ:امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنحضورﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہؓاور حضرت ام کلثومؓ‘ آپ کے نکاح میں آئیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عثمان میری امت میں سب سے زیادہ حیادار ہیں۔ حضورﷺ کے سامنے آپ کا کتابت کرنا ایک مشہور بات ہے۔ واقدی نے اپنی سند کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ جب نہشل بن مالک الوائلی رسول ﷺ کے پاس آیا تو نبی کریمﷺ نے آپؐ کو ہی حکم دیا تھا کہ اس کو ایک تحریر لکھ کر دیں۔ آپؓ نے حضورﷺ کے حکم کے مطابق ‘ایک تحریر لکھی تھی ‘جس میں اسلامی قوانین بیان ہوئے تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۷-۱۱۱۸)
حضرت علی بن ابی طالبؓ:چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آنحضورﷺ کی سب سے پیاری صاحبزادی اور سیدہ خواتین ِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراؓ آپ کے نکاح میں تھیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ علیؓ میری امت کے سب سے زیادہ صائب فیصلے کرنے والے ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضورﷺ اور قریش مکہ کے درمیان جو تاریخی معاہدہ طے ہوا تھا‘ وہ نبی کریم ﷺ کے حکم سے آپؓ ہی نے تحریر فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر آنحضورﷺ آپ سے مختلف تحریریں لکھواتے تھے۔(البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۸)
حضرت زبیربن العوامؓ:آپ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ کی شہادت پر آپؓ ان چھ اصحاب شوریٰ میں بھی شامل تھے‘ جن سے حضرت عمرؓ کے بقول رسول کریمﷺ وفات کے وقت راضی تھے۔ آپؓ رسول کریمﷺ کے حواری ہیں۔ حضرت زبیرؓآپؐ کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب کے بیٹے اور حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کے شوہر ہیں۔ 16سال کی عمر میں اسلام قبول کیا‘ تمام معرکوں میں شرکت کی۔ خندق کے روز آپ نے آنحضورﷺ سے کہا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ نے اس موقع پر ان کے جواب میں فرمایا: ہرنبی کا حواری ہوتا ہے ‘ میرا حواری زبیرؓ ہے۔ آپ کے بے شمار فضائل ومناقب ہیں۔ جنگ ِجمل کے روز شہادت پائی۔ ان کے قاتل نے حضرت علیؓ کے سامنے اسے اپنا کارنامہ قرار دیا تو جواب میں انہوں نے فرمایا: صفیہؓ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی بشارت ہو۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ محولہ بالا‘ ص۱۱۱۳-۱۱۱۴)
حضرت ابان بن سعید ؓ:حضرت ابانؓ بن سعید بن العاص الاموی نے اپنے دونوں بھائیوں خالدبن سعیدؓ اور عمرو بن سعیدؓ کے بعد اسلام قبول کیا۔ تاریخ میں ان کے تذکرے میں لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت عثمانؓکو اس وقت پناہ دی تھی جب حدیبیہ کے روز آپ نے ان کو اپنا سفیر بنا کر قریش مکہ کے پاس بھیجا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپؓ نے غزوہ خیبر کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۰)
حضرت ابّی بن کعب بن قیسؓ:آپ کو ابوطفیل اور ابوالمنذر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ سید القراء تھے‘ بیعت عقبہ ثانیہ‘ غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے تمام معرکوں میں شریک ہوئے۔ بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق ‘حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابّی بن کعبؓ‘ حضرت معاذ بن جبلؓ‘ حضرت زید بن ثابتؓ اور ابویزیدؓ نے قرآن مجید جمع کیا۔ حضرت انسؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے حضرت ابّیؓ سے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں قرآن [سورۂ البیّنہ) سناؤں۔ حضرت ابّیؓ نے عرض کیا: یارسول ﷺ! کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر حکم دیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ اس پر ان کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۱)
حضرت ارقم بن ابی الارقمؓ:آپ کا نام عبدمناف بن اسد بن جندب المخزومی تھا۔ آپؓ نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپ ہی کے گھر میں جو صفا کے قریب تھا‘ آنحضور ﷺ سالہاسال تک اپنے صحابہ کو قرآن اور اسلام کی تعلیم دیتے رہے۔ اس کے بعد اس گھر کا نام خیزران مشہور ہوا۔ آپؓ نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کی اور اس کے بعد کفر اور اسلام کے معرکوں میں شریک ہوئے۔ ہجرت کے بعد آپؓ اور حضرت عبداللہ بن انیسؓ کے درمیان آنحضورﷺنے مواخات قائم کی۔53ھ میں آپؓ نے وفات پائی۔(البدایۃ والنہایۃ‘ محولہ بالا‘ ص۱۱۱۱)
حضرت ثابت بن قیسؓ:آپ کو ابومحمدالمدنی خطیب بھی کہا جاتا ہے‘ نیز آپ کو خطیب النبیؐ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آنحضورﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ حضرت ابوبکرؓکے دورِ خلافت میں آپ جنگ یمامہ میں شریک ہوئے اور 12ھ میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۱)
حضرت حنظلہ بن الربیعؓ:آپ کے بھائی حضرت رباح بن ربیع بھی صحابی تھے اور آپ کا چچا اکثم بن صفی عرب کے دانا لوگوں میں سے تھا۔ واقدی نے بیان کیا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓکے ساتھ عراق کی جنگوں میں شریک ہوئے۔ آپ کا انتقال حضرت علیؓ کی خلافت کے بعد ہوا۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۲)
حضرت خالد بن سعیدبن العاصؓ:آپ نے شروع ہی میں پانچ‘ چھ آدمیوں کے بعد ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس طرح آپؓ سابقون الاوّلون میں شمار ہوتے ہیں۔ اسلام لانے کا واقعہ یوں ہے کہ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ جہنم کے کنارے کھڑے ہیں‘ جس کی بہت زیادہ گہرائی ہے۔ آپ کا باپ آپ کو اس میں دھکیل رہا ہے اور محمد ﷺ‘ آپ کو بچا رہے ہیں۔ آپ نے یہ خواب حضرت ابوبکرصدیقؓ کو سنایا تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ محمدﷺ ‘اللہ کے رسولؐ ہیں‘ لہٰذا تم ان پر ایمان لے آؤ‘ بھلائی پاؤ گے اورجس بات کا تمہیں خوف ہے‘ اس سے تم نجات پا جاؤ گے۔
اس پر انہوں نے آنحضور ﷺ کے پاس آکر اسلام قبول کرلیا۔ جب ان کے والد کو اس بات کی خبرہوئی تو انہوں نے ایک لاٹھی آپ کے سر پر مار مار کر توڑ دی اور آپ کو گھر سے نکال دیا۔ حضرت خالدؓ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور پھر حضرت جعفرؓکے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ خیبر میں یہ دونوں صحابہ آنحضورﷺ کو آکر ملے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ایرانیوں کے خلاف جنگ اجنادین میں شرکت کی اور رتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘محولہ بالا‘ ص۱۱۱۲-۱۱۱۳)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں