حدیبیہ کا قیام اور دشمنوں کا اعتراف

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِطیبہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے اسوۂ کامل ہے۔ آپؐ میدانِ جنگ میں بھی عظیم تھے اور میدانِ دعوت میں بھی‘ آپؐ کی شان بے مثال تھی۔ آپؐ کی حیات طیبہ میں صلح حدیبیہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ عمرہ کرنے کے لیے ذوالقعدہ 6ھ میں مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ کے ساتھ چودہ سو صحابہؓ تھے۔ سب نے احرام باندھ رکھے تھے۔ قریش کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے آپؐ کو مکہ آنے سے روک دیا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپؐ نے حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایااور کوشش کی کہ قریش خون ریزی سے باز آجائیں۔ کافی دنوں کے بعد بالآخر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ‘جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ حدیبیہ کے مقام پر قیام کے دوران‘ آپؐ کے پاس کئی قبائل کے سردار آئے۔ ان لوگوں کی آمد اور آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا منظر سیرت نگاروں نے محفوظ کیا ہے‘ جسے پڑھ کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور جرأت مومنانہ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہم یہاں دو سرداروں کی آمد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ایک تو بنوثقیف کا سردار عروہ بن مسعود تھا اور دوسرا اَحابیش قبائل کا سربراہ حُلَیس بن زبّان بن عَلقمہ تھا۔ عروہ بن مسعود آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو دروان گفتگو اس نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگانا چاہا۔ اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے سختی کے ساتھ اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا۔ عربوں کے ہاں گفتگو کے دوران ایک دوسرے کی ڈاڑھی کو پکڑنا ان کا معمول تھا‘ مگر حضرت مغیرہؓ کو اپنے کافر چچا عُروہ کی یہ حرکت حضورؐ کے ادب و احترام کے منافی اور بہت ناگوار گزری۔ حضرت مغیرہؓ نا صرف بنو ثقیف میں سے تھے‘ بلکہ یہ دونوں ایک ہی خاندان سے تھے۔ عروہ اور حضرت مغیرہؓ کا باپ شعبہ ‘دونوں آپس میں سگے بھائی تھے۔ یوں عروہ حضرت مغیرہؓ کا چچا تھا۔ عروہ نے جب آنحضورؐ سے ان کی شکایت کی تو آنحضورؐ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہارا اپنا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ بن مسعود نے اپنے بھتیجے مغیرہ بن شعبہؓ کو بہت برا بھلا کہا۔ 
حضرت مغیرہؓ صلح حدیبیہ سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی مسلمان ہوئے تھے۔ قبول اسلام کے بعد ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور جب آنحضورؐ عمرہ کے لیے مکہ روانہ ہوئے تو یہ بھی شریکِ سفر ہوگئے۔ یہ بیعتِ رضوان کے شرکا میں سے ہیں۔ یہ قوی الجثہ‘ چوڑے چکلے سینے اور لمبے مضبوط ہاتھوں والے تھے۔ زمانہ ٔجاہلیت میں ان کا مشغلہ لوٹ مار تھا۔ کئی مرتبہ لوٹ مار کے دوران ان کے ہاتھوں کئی آدمی بھی قتل ہوگئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بازارِ عکاظ کے قریب ہوا‘ جس کے نتیجے میں بنو ثقیف کو خون بہا کی بھاری رقم ادا کرنا پڑی تھی۔ عروہ بن مسعود نے اس موقع پر دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے ان واقعات کا تذکرہ کرکے مغیرہ کو عار دلائی کہ اس نے ہمیشہ خاندان اور قبیلے کے لیے بدنامی کا سامان فراہم کیا اور اپنے بڑوں کی ناک کٹوائی ہے‘ اسی طرح ایک مرتبہ بنو مالک کے تیرہ افراد بھی ان کے گروہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ چچا نے بھتیجے کو اس جرم پر بھی عار دلائی۔ حضرت مغیرہ کی سابقہ زندگی کے یہ واقعات بلاشبہ قابل گرفت تھے ‘مگر انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سب کام جاہلیت میں کیے تھے۔ اب میں اسلام میں داخل ہو کر ان سب سے تائب ہوگیا ہوں‘ اللہ مجھے معاف فرمائے۔ عروہ کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیلات بھی مورخین نے بیان کی ہیں۔ (المغازی للواقدی جلد ۲‘ صفحہ ۵۹۶-۵۹۴) 
سیرت ابن ہشام میں عروہ کی گفتگو کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ اس نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : ''اے محمد! اگر تمہارے اور قریش کے درمیان جنگ ہوئی ‘تو نا صرف بڑی خون ریزی ہوگی ‘بلکہ تمہیں بہت خطرناک نتائج و عواقب کا سامنا کرنا ہوگا۔ میں تمہارے گرد جن لوگوں کو دیکھ رہا ہوں‘ یہ غیر معروف سے لوگ ہیں۔ مجھے تو ان کے نام و نسب کا بھی کوئی پتا نہیں۔ مشکل وقت میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر یہ بھاگ جائیں گے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آنحضورؐ کی نشست کی پچھلی جانب کھڑے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ ان سے ضبط نہ ہوسکا۔ انہوں نے سردارِ ثقیف کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اے لات کے پجاری! تجھے ہمارے بارے میںبڑی غلط فہمی ہے‘ کیا ہم اپنے آقا کو [جو ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں] چھوڑ کر الگ ہوجائیں گے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سخت جواب پر عروہ کچھ پریشان سا ہوا اور اس نے آنحضورؐ سے مخاطب ہو کر کہا: ''اے محمد! یہ کون شخص ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا:''یہ ابوبکر بن ابی قحافہ ہے۔‘‘ اب عروہ کو ابوبکرؓ اور ان کے احسانات یاد آئے۔ زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابو بکرؓ نے اس پر کئی احسانات کیے تھے۔ وہ ایک مرتبہ خون بہا کی رقوم ادا کرنے سے عاجز آگیا تھا تو اس نے تمام عرب قبائل کے اشراف سے مدد مانگی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایک خطیر رقم کے ساتھ اس کی مالی مدد کی تھی۔ اسے یہ احسانات یاد آگئے اور اسے یہی کہتے بنی کہ اے ابوبکر! بخدا میں بھی تمہاری سخت بات کا جواب سختی سے دے سکتا تھا‘ مگر تمہارے احسانات نے میری زبان بند کردی ہے۔ بنو ثقیف کا بت لات تھا اور اس کا معبد طائف میں تھا۔ ابرہہ کے لشکرِ فیل کو ان لوگوں نے بیت اللہ کا راستہ بتا دیا تھا‘تاکہ وہ ان کے بت کو نقصان نہ پہنچائے‘اسی وجہ سے تمام عرب ان کو لات کے پجاری کہہ کر عار دلایا کرتے تھے اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے سیرت ابن ہِشام جلد ۲‘صفحہ ۳۱۳)۔ 
عروہ بن مسعود نے اس موقع پر آنحضورؐ سے جو گفتگو کی‘ وہ درحقیقت محض اس کی چالاکی اور مسلمانوں کو مرعوب کرنے کا ایک حربہ تھا‘ کیونکہ جب اس نے واپس جاکر آنحضورؐ سے اپنی ملاقات کی رپورٹ قریش کی مجلس میں پیش کی تو وہ بالکل مختلف تھی۔ اس نے تسلیم کیا کہ محمدؐ کے ساتھ ان کے شیدائی و فدائی ہیں۔ اس کے جو الفاظ مؤرخین نے نقل کے ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے: '' میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے تاجداروں کے درباروں میں جاتا رہا ہوں‘ مگر خدا کی قسم میں نے محمدؐ کی مجلس میں جو منظر دیکھا ہے‘ وہ کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ اس کے تمام ساتھی اس پر اپنی جان قربان کرتے ہیں۔ ان کی عقیدت کا حال تو یہ ہے کہ محمدؐ وضو کریں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ زمین پر نہیں گرنے دیتے۔ وہ اس پانی کو اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے ہیں۔ اس کے اشارۂ ابرو پر اس کے سبھی ساتھی تعمیل ِ حکم کیلئے لپکتے ہیں۔ تم خود سوچ لو کہ اس کا مقابلہ کرنا کتنا مشکل ہے۔‘‘ آنحضورؐ کے پاس آنے والا دوسرا سردار حُلَیس بن زبّان بن عَلقمہ مختلف قبائل کے اتحاد کا سربراہ تھا۔ یہ اتحاد اُن بعض قبائل پر مشتمل تھا ‘جو اَحابیش کے نام سے معروف تھے۔ یہ اطرافِ مکہ میں رہتے تھے اور قریش سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس سردار نے جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو حالت ِ احرام میں دیکھا تو اس پاکیزہ قافلے کے ماحول اور کیفیت نے اسے مسحور کردیا۔ اس کے ذہن میں جو تصورات تھے‘ وہ سب کافور ہوگئے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پورا قافلہ احرام بند ہے۔ قربانی کے اونٹ اپنی گردنوں میں پڑے قلادوں کے ساتھ اعلان کیے دے رہے تھے کہ یہ کوئی جنگی مہم نہیں۔ وہ تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے بعد کوئی بات کیے بغیر ہی واپس پلٹ گیا؛ حالانکہ قریش نے اسے بھی سمجھا بجھا کر بھیجا تھا کہ ان لوگوں کو ہماری قوت سے مرعوب کر دینا۔ اس نے قریش کو جا کر جو رپورٹ پیش کی‘ اس کا خلاصہ یہ ہے: ''محمد اور اس کے ساتھی کسی جنگ کے لیے نہیں آئے۔ وہ تو اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے اپنے گھروں سے نکلے ہیں۔ اگر تم ان کو روکو گے تو تمام احابیش قبائل ہر گز تمہارا ساتھ نہ دیں گے۔ ہم نے تمہارے ساتھ دوستی کا معاہدہ ضرور کر رکھا ہے‘ مگر یہ ہرگز ممکن نہیں کہ تم اللہ کی حرمتوں کو پامال کرنے لگو اور ہم اس میں بھی تمہاری حمایت کریں۔‘‘ (تاریخ طبری جلد دوم‘ صفحہ ۶۲۸) 
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی برتری بت پرست قبائل اور ان کے سردار بھی تسلیم کرتے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج آپؐ کی امت بحیثیت مجموعی آپ ؐکے اخلاق عالیہ سے بہت دور جاچکی ہے۔ ساری ذلت وپستی کا اصل سبب بھی یہی اخلاقی انحطاط ہے۔ اس سے نکلنے کے لیے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن ہوکر ثابت قدم رہنا لازمی ہے۔ صحابہ کرامؓ کی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت وعقیدت اور جذبۂ اطاعت وایثار ایک لازوال جوہر اور ناقابل شکست صفت تھی۔بقول شاعر؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں