اہلِ کشمیر اور مودی کا نیا بم

بھارت میں جب سے درندہ صفت مودی برسراقتدار آیا ہے‘ وہ مسلسل مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل رہا ہے۔ بالخصوص کشمیر میں مظالم اس دور میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کشمیریوں کی نسل کشی سے ان کا خاتمہ کرنے کا شیطانی عمل روز افزوں ہے۔ پچھلے دنوں کلسٹر بم استعمال کرکے بھارتی حکومت نے اپنی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی انتہا کا مظاہرہ کیا۔ اب‘ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا اقدام پوری دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ کشمیرمتنازعہ علاقہ ہے اور اس کے بارے میں یو این او کے اندر اب تک وہ فیصلہ اور قرارداد موجود ہے‘ جس کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت اور استصواب کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل کشمیر میں صرف سکیورٹی‘ خارجہ امور اور کرنسی بھارتی حکومت نے اپنے اختیار میں رکھی تھی‘ باقی جملہ امور ریاستی اسمبلی اور حکومت کشمیر کے اختیار میں تھے ۔ بھارتی دستور کی دفعہ 370کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کی ضمانت تھی۔ اس دفعہ کو کشمیر اسمبلی کے علاوہ کسی کو ختم کرنے یا تبدیل کرنے کا اختیار نہیں۔ 
بھیڑیا صفت مودی سرکار نے صدارتی حکم کے ذریعے اس آرٹیکل کو ختم کردیا ہے۔ یہ اقدام غیراخلاقی اور غیرانسانی ہی نہیں ‘بلکہ خلافِ دستور بھی ہے۔ کشمیر کے اندر غیرکشمیریوں کو اسی طرح آباد کرنے کی سکیم زیرعمل ہے‘ جس طرح ارضِ فلسطین پر فلسطینی آبادی کے علاقوں سے مقامی فلسطینیوں کو جلا وطن کرکے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ کشمیر کے تمام رہنما بشمول سابق وزرائے اعلیٰ گرفتار یا نظربند ہیں۔ عام آبادی کو بلااشتعال گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ پیلٹ گنوں سے کتنے ہی معصوم بچے‘ بے گناہ نوجوان اور بوڑھے بزرگ آنکھوں کی بینائی سے محروم کردیے گئے۔ ظلم کا یہ سارا کھیل کئی برسوں سے جاری ہے‘ مگر مظلومین کی مدد کے لیے کوئی قوت آگے نہیں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ میں فوری طور پر اس کیس کو اٹھایا جائے۔ یو این او کی قرارداد کے مطابق ‘پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے۔ پاکستانی حکومت کو پوری تیاری کے ساتھ اور ساری قوم کو اعتماد میں لے کر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ 
مودی کے اس ظالمانہ اقدام پر خود بھارت کے اندر احتجاج ہورہا ہے۔ ظلم کا یہ نظام ختم ہو کر رہے گا‘ کیونکہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت کے خلاف پورے ایمانی جذبے کے ساتھ عزم کیے ہوئے ہے کہ بنیے کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ترقی یافتہ اور خود کو مہذب کہلانے والی وہ آبادیاں جو کسی کتے اور بلی کے مارے جانے پر یورپ اور امریکہ میں طوفان اٹھا دیتی ہیں‘عمومی طور پر اب تک خاموش تماشائی بنی رہیں۔ اس کے باوجود اب حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اب سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار کر رہی ہیں کہ مظلوم کشمیریوں کے مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مدعی سستی ترک کرکے میدانِ عمل میں آئے اور اس مسئلے کا مدعی پاکستان ہے۔ 
مودی کے تازہ اور سفاکانہ فیصلوں کی وجہ سے دنیا کا ہر باضمیر انسان خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ آخرکب تک ایک بے بس آبادی کو ظلم کی بھینٹ چڑھتے دیکھ کر خاموش رہا جائے۔ دو دن پہلے عظیم مجاہد اورحریت پسند لیڈر سیدعلی گیلانی نے اپنے پیغام میں سب لوگوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ان کا فرمانا کہ دنیا بھر کے لوگو! ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے پروگرام بن چکے۔ کیا تم لوگ خاموش تماشائی بن کر ظلم کا یہ منظر دیکھتے رہو گے؟ سیدعلی گیلانی کے اس پیغام کے عین مطابق ‘آج وہ خطرہ ساری دنیا کے سامنے عیاں ہوگیا ہے۔ 
دشمن کا شر تمام حدیں عبور کرگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی شر میں سے خیر بھی برآمد کردیتا ہے۔ اس کی کیا حکمت ہے یہ وہی جانتا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ '' دشمنان ِاسلام اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا منصوبہ بناتا ہے اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘(الانفال:30) ۔مودی جس بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ظلم کی انتہا کررہا ہے ۔شاید اس کے نتیجے میں کچھ قوتیں میدان میں آکر کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کا فریضہ ادا کردیں۔ کشمیری جتنے شہدا کا خون پیش کرچکے ہیں ‘اسے دیکھ کر ایک جانب کلیجہ منہ کو آتا ہے اور راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے‘ جبکہ دوسری طرف یہ یقین بھی دل میں پیدا ہوتا ہے کہ خونِ شہدا کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ 
ہر سطح کے لوگوں کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ حکمران اپنے اختیارات اور اثرورسوخ استعمال کرکے امت مسلمہ کو اس انتہائی اہم مسئلے پر ایک پیج پر لائیں اور پھر کشمیریوں کا کیس لڑنے کے لیے اپنی سارے وسائل استعمال کردیں۔ وہ محض بیانات کے ذریعے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کے لیے اللہ سے مخلصانہ دعائیں کریں۔ سنتِ نبویؐ کے مطابق آج وقت ہے کہ قنوت نازلہ کا اہتمام کیا جائے۔ ہم بے بس ہیں‘ قادرمطلق بے بس نہیں ہے۔ اسی کے در پر ہم دستک دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی سستی نہیں کرنی چاہیے۔ 
سیدعلی گیلانی کے الفاظ کانوں سے ٹکراتے ہیں تو دل کی عجیب کیفیت ہوجاتی ہے۔ ہربندۂ مومن کا دل کہتا ہے کہ ہم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ ہم سے جو کچھ بھی ہوسکے ‘ہم ان شاء اللہ وہ ضرور کریں گے۔ کشمیر میں بہت سے بھارتی فوجی‘ سکیورٹی کے کارندے اور پولیس ملازمین خودکشیاں کرچکے ہیں۔ ایک جانب کشمیری شہید ہورہے ہیں تو دوسری جانب بھارتی فورسز کے اندر بھی بددلی اور مایوسی انھیں جہنم رسید کررہی ہے۔ اس نازک صورت حال میں ایک طاقت ور عالمی فیصلہ تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے ترک عثمانیوں کے بارے میں جو شعر کہا تھا‘ آج بے ساختہ یاد آرہا ہے۔کچھ تصرف کے ساتھ زبان پر یوں آتا ہے:؎
اگر ''کشمیریوں‘‘ پہ کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ سب ہزار انجمن سے ہوتی ہے سحر پیدا
عزیز از جان اہلِ کشمیر! آپ کے دکھ کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ ہر روز آپ پر قیامت ٹوٹتی ہے۔ آپ کی عزیمت کو ہر باضمیر شخص سلام عقیدت پیش کرتا ہے۔ آپ بددل نہیں ہوئے‘ یہ آپ کی ایمانی قوت ہے۔ اللہ ‘آپ کی مشکلات کوآسان فرمائے اور پردۂ غیب سے آپ کے لیے آزادی کا راستہ کھول دے۔؎ 
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں‘ تو پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہو رہاہے۔ یہ موقع ایسا ہے کہ تمام اختلافات اور رنجشوں کو فراموش کرکے مظلوم کشمیریوں کے ساتھ تعاون اور ان کی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ مضبوط فیصلے کرکے عالمی سطح پر اس کیس کو یوں پیش کیا جائے کہ پاکستان کا فرض بھی ادا ہو اور کشمیریوں کے حق میں مثبت نتائج بھی سامنے آئیں۔ ہماری دعائیں ہیں کہ اللہ پارلیمان کو ٹھیک فیصلے کرنے اور حکمرانوں کو ان پر عمل درآمد کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں