شیخ عبدالوحید…باغ وبہار شخصیت

یکم اکتوبر2012ء کو نماز فجر کے بعد اطلاع ملی کہ ہمارے پیارے دوست امیر جماعت اسلامی ضلع بہاولپور شیخ عبدالوحید اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ امیر صوبہ پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر (مرحوم) بھی نماز میں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 30ستمبر کا پورا دن شیخ صاحب ان کے ساتھ ضلع کے مختلف دیہات میں مرحومین کی تعزیتیں اور مریضوں کی عیادتیں کرتے رہے۔ شام کو واپس بہاولپور آئے۔ وسیم صاحب شام کو بہاولپور سے لاہور آگئے۔ یہیں شیخ صاحب کی اچانک بیماری اور پھر وفات کی اطلاع ملی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ شیخ صاحب کو رات بارہ بجے کے قریب دل کی تکلیف محسوس ہوئی‘ اور فوراً ہسپتال لے جائے گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک آدھ گھنٹے ہی میں طبیعت مزید خراب ہو گئی‘ پھر اللہ کی طرف سے اپنے بندے کو بلاوا آیا اور وہ اپنا صالحانہ ریکارڈ لے کر خدمتِ ربانی میںحاضر ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب کی تمام حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے انسانی تسامحات سے درگزر فرما کر انہیں اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔ 
زندگی میں بعض لوگوں کے ساتھ اچانک ملاقات ہوتی ہے۔ پہلے سے نہ کوئی غائبانہ تعارف ہوتا ہے‘ نہ کسی حوالے سے جان پہچان‘ مگر پہلی ہی ملاقات ایسی مضبوط دوستی میں ڈھل جاتی ہے کہ قادر الکلام شاعر امیر خسرو کے بقول: ؎
من تو شدم تو من شدی‘ من جاں شدم‘ تو تن شدی 
تاکس نہ گوید بعد ازیں‘ من دیگرم تودیگری
مجھے شیخ صاحب کے ساتھ کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا۔ میں جدہ اور سعودی عرب کے دیگر شہروں میں 1974ء سے جاتا آتا رہا ہوں۔ بعض برسوںمیں تین چار مرتبہ بھی چکر لگ جاتا تھا۔ اس عرصے میں بے شمار پرانے اور نئے دوست اخوت و محبت کے رشتوں میں شامل رہے اور ہر ایک کی حسین یادیں دل ودماغ کو معطر کرتی رہیں۔ یہ 1992ء کی بات ہے کہ جب نیروبی سے آتے ہوئے میں جدہ ائیرپورٹ پر اترا تو برادرِ عزیز رائو طاہر صاحب کے ساتھ ایک نہایت سنجیدہ ساتھی کو استقبال کے لیے موجود پایا۔ رائو صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ ہمارے دوست شیخ عبدالوحید صاحب ہیں۔ موصوف اس اپنائیت اور تپاک سے ملے کہ جیسے جنم جنم کا ساتھ ہو؛ حالانکہ یاد نہیں پڑتا کہ پہلے کبھی ان کو دیکھا ہو۔ میں ان کی محبت اور اپنائیت سے بہت متاثر ہوا۔ 
گاڑی میں بیٹھ کر تفصیلی تعارف شروع ہوا تو پتا چلا کہ شیخ صاحب کا آبائی تعلق قصور سے ہے ‘مگر ان کی پوری فیملی کئی برسوں سے بہاولپور میں مقیم ہے۔ بعد کے ادوار میں کبھی کبھار میں شیخ صاحب سے مذاق میں کہتا کہ آپ اصلی قصوری ہیں‘ قصور آپ ہی کا ہے تو مسکراتے ہوئے کہتے: ''نہیں جناب میں تو بہاولپوری ہوں۔ قصور کے حالات سے بالکل نابلد ہوں۔ میں قصوری ہر گز نہیں ہوں۔ میرے خلاف یہ فردِ جرم واپس لیجیے۔‘‘ 
شیخ عبدالوحید 2004ء میں مستقل طور پر پاکستان واپس آگئے۔ پاکستان میں ان کے قیام کا یہ آٹھ سالہ دور تمام تحریکی کارکنان اور قائدین کے لیے ایک مثال ہے۔ شیخ صاحب شادی سے پہلے بھی سعودی عرب میں رہے ‘پھر واپس آئے۔ ان کا خاندان نسلوں سے کاروبار سے وابستہ ہے‘ مگر شیخ صاحب نے خود کو کاروبار کے لیے فِٹ نہ پایا؛ چنانچہ شادی کے بعد1991ء میں پھر واپس سعودی عرب چلے گئے۔ شیخ صاحب کا زیادہ قیام تو جدہ ہی میں رہا‘ مگر کچھ عرصہ مدینہ منورہ میں بھی ملازمت کی۔ مدینہ منورہ کے تمام اہم اور تاریخی مقامات سے مرحوم بخوبی واقف تھے۔ ایک ایک جگہ کا نا صرف تعارف کراتے ‘بلکہ یہ بھی بتاتے کہ ان مقامات کا حلیہ نئی عمارتوں اور سڑکوں کی وجہ سے کب بدلا گیا۔ بیت اللہ شریف میں حاضری پر مرحوم پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی‘ مگر مدینہ منورہ میں تو وہ رقتِ قلب کے ہاتھوں ناقابل بیان کیفیات سے گزرتے تھے۔ روضۂ اقدس پر حاضری کے وقت ان پر بے خودی و خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ 
جدہ سے جب بھی وطن واپس آتے تو بہاولپور میں جماعت کے ضلعی اور شہری دفتر میں جا کر رپورٹ کرتے اور اپنے مخصوص اندازمیں فرماتے: ''جناب خادم حاضر ہے‘‘۔ جب 2004ء میں مستقل طور پر واپس آگئے تو انہیں11فروری2005ء کو جماعت کا رکن بنا لیا گیا۔ ان کی مستقل واپسی کے وقت بلدیاتی انتخابات میں صرف چار مہینے باقی تھے‘ جماعت نے فیصلہ کیا کہ شیخ صاحب کو شہر کی ایک یوسی سے‘ جہاں ان کی رہائش ہے‘ بطورِ ناظم کھڑا کیا جائے۔ شیخ صاحب نے معذرت کی اور کہا کہ میں اپنے گھر کے آس پاس کے چار گھروں سے زیادہ کسی کو جانتا تک نہیں‘ زندگی کا بیشتر حصہ سعودیہ میں گزارا ہے‘ میں کیسے انتخاب لڑوں گا؟ دوستوں نے کہا کہ آپ کسی کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لوگ آپ کو جانتے ہیں‘ اب فیصلہ ہوچکا ہے‘لہٰذا آپ کو میدان میں اترنا ہی ہوگا۔ شیخ صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا اور انتخابی معرکے میںداخل ہوگئے۔ یہ ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ تھا ‘مگر اللہ کی مدد سے آسان ہوگیا۔ 
بہاولپور میں نواب بہاولپور کے عباسی خاندان ہی کا سیاست میں طوطی بولتا تھا۔ اس حلقے سے اس سے قبل عباسی خاندان کے ایک اہم رکن طارق انور عباسی صاحب چار مرتبہ منتخب ہوچکے تھے۔ انہیں عباسی خاندان کے علاوہ مقتدر طبقات کی حمایت بھی حاصل تھی۔ شیخ صاحب نے اللہ کا نام لے کر اپنی انتخابی مہم شروع کی اور جلسوں کے علاوہ گھر گھر جا کر ملاقاتیں بھی کیں۔ شیخ صاحب کا خاندان غیرمعروف نہیں‘ جانا پہچانا ہے۔ ڈاکٹر سید وسیم اخترصاحب نے بھی صوبائی اسمبلی کا انتخاب دو مرتبہ شہر کی نشست سے جیتا تھا‘ ان کے لیے بھی خیر سگالی کے جذبات لوگوں کے دلوں میں تھے۔ جماعت کے کارکنان نے خوب لگن کے ساتھ کام کیا۔ جب نتائج سامنے آئے تو لوگ حیران رہ گئے کہ اتنی بڑی قد آور شخصیت ایک نووارد کے مقابلے پر شکست سے دوچار ہوگئی ہے۔ 
شیخ صاحب ہر معاملے میں اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھتے تھے۔ ان کی امیدیں قلیل اور ارادے جلیل تھے۔ یہ پہلا اور آخری سیاسی معرکہ تھا‘ جس میں یوسی کے ناظم منتخب ہوگئے اور اعلان کیا کہ وہ یوسی کے تمام لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کریںگے اور انصاف کا دامن کبھی نہ چھوڑیں گے۔ یوسی ناظم کی حیثیت سے وہ ضلع کونسل کے بھی کونسلر تھے۔ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ان کی ذہانت و دیانت اور صلاحیت نے اپنا لوہا منوالیا۔ وہ سب سے اہم ضلعی کمیٹی‘ یعنی مالیاتی کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے۔ اپنی یو سی میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ پورے ضلع کے لیے بھی انہوں نے بہترین پیکیج تیار کیے۔ لوگ اب تک ان کو یاد کرتے ہیں۔ شیخ صاحب کی اچانک وفات نے مہلت ہی نہ دی کہ دوبارہ انتخابی معرکے میں اترسکتے۔ 
شیخ صاحب نے بہت جلد جماعتی تنظیم میں اہم منازل طے کیں۔2006ء میں بہاولپور شہر کے امیرمقرر ہوئے۔ صوبائی اور مرکزی مجلس شوریٰ کے ضمنی انتخاب میں بتدریج 2008ء اور 2010ء میں رکن منتخب ہوئے اور پھر2008ء سے لے کر 2012ء تک ضلع بہاولپور کے امیر بھی رہے۔ جب بھی کسی ذاتی کام سے یا تنظیمی اجلاسوں میں شرکت کے لیے لاہور آنا ہوتا ‘تو اپنی آمد کی اطلاع بذریعہ فون مجھے یا میرے بیٹے کو دیتے۔ اتنی بے تکلفی اور اپنائیت تھی کہ فرماتے‘ فلاں دن کا ناشتہ یا فلاں دن فلاں وقت کا کھانا میں بھی‘ میرا ڈرائیور اور میرا ساتھی بھی‘ (اگر کوئی ساتھ ہوتا) آپ کے ساتھ کھائیں گے۔ ان کے اس پیغام سے مجھے بے پناہ مسرت ہوتی ‘کیونکہ اس میں بے پناہ اپنائیت کا اظہار ہوتا تھا۔ جب بھی اس عرصے میں کبھی میرا بہاولپور جاناہوا‘ انہوں نے اپنے گھر پر قیام و طعام کا انتظام کیا۔ 
شیخ صاحب کی صحت اچھی تھی ‘مگر آخر میں دل کاعارضہ لاحق ہوا‘ شیخ صاحب اس کا علاج معالجہ کراتے رہتے تھے‘ اسی بیماری کے دوران ایک مرتبہ کسی اہم اجلاس کے لیے لاہور آنا تھا۔ اپنی بیماری کے پیش نظر وہ بالائی نظم سے معذرت بھی کر دیتے تو مناسب تھا‘ مگر شیخ عبدالوحید صاحب رخصت کی بجائے عزیمت کی راہ پر گامزن تھے۔ ان کے بیٹے عزیزم سلمان شیخ نے ان کی رحلت کے بعد میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ابو نے نہ کبھی ڈانٹا نہ کبھی کوئی سزا دی؛ البتہ زندگی میں ایک واقعہ مجھے یاد ہے‘ جب مجھے ان کی سخت ڈانٹ سننا پڑی۔ ہوا یوں کہ ابو اپنی صحت کی کمزوری کے باوجود ایک اجلاس میں شرکت کی خاطر لاہور جانے کے لیے تیار ہوئے تو سب اہل و عیال نے ان کو لاہور جانے سے منع کیا۔ میں نے ذرا زیادہ اصرار سے منع کیا۔ اس وقت تو ابو نے کچھ نہ کہا ‘مگر گھر سے باہر نکل کر راستے میں سخت ڈانٹا اور فرمانے لگے: ''میں کوئی بستر پر گرا ہوا معذور اور اپاہج ہوں ‘ کمزوری کے باوجود ٹھیک ٹھاک چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا ہوں۔ اللہ کے راستے میں نکلنے کی سکت ہو اور آدمی عذر تراش کر گھر میں بیٹھ جائے تو کیا یہ اچھا ہوتا ہے؟ صحت و بیماری‘ زندگی و موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب آدمی بے بس ہوجائے تو اللہ بھی اس کے عذر کو قبول فرماتاہے ‘مگر آدمی جب اچھا بھلا ہو تو اسے بھی اللہ کے ساتھ کیا ہوا عہد نبھانا چاہیے۔‘‘ یہ تھا عزم وحوصلہ! اللہ درجات بلند فرمائے۔(آمین )
یکم اکتوبر2012ء کو نماز فجر کے بعد اطلاع ملی کہ ہمارے پیارے دوست امیر جماعت اسلامی ضلع بہاولپور شیخ عبدالوحید اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ امیر صوبہ پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر (مرحوم) بھی نماز میں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 30ستمبر کا پورا دن شیخ صاحب ان کے ساتھ ضلع کے مختلف دیہات میں مرحومین کی تعزیتیں اور مریضوں کی عیادتیں کرتے رہے اور شام کو واپس بہاولپور آئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں